کیا مریم نواز مسلم لیگ ن کے لیے بہتر قائد ثابت ہوں گی؟

تجزیہ کاروں کے مطابق سابق وزیر اعظم کی جیل جانے سے قبل پارٹی میں ہم خیال رہنماؤں کو آگے لانے اور مریم نواز کو قیادت دینے سے لگتا ہے کہ اب مسلم لیگ (ن) کو مریم نواز ہی چلائیں گی۔

تصویر: اے ایف پی

مسلم لیگ (ن) کی قیادت اب مریم نواز کے پاس ہے۔ اس طرح وہ قائد ن لیگ میاں نواز شریف کی موجودگی میں پارٹی قیادت کرنے والی پہلی لیگی خاتون بن گئی ہیں۔

سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی سپریم کورٹ کی جانب سے نااہلی کے بعد ان کے بھائی سابق وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف کو پارٹی صدر بنایا گیا۔ وہ اپنے بڑے بھائی کے اسٹیبلشمنٹ سے متعلق بیانیے سے اجتناب کرتے نظر آئے۔ عام انتخابات کے بعد اپوزیشن لیڈر بن کر بھی وہ موثر کردار ادا نہ کر سکے یہی وجہ تھی کہ حکمران جماعت پی ٹی آئی سمیت سیاسی حلقوں میں ن لیگ کی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کی بازگشت سنائی دی۔

تاہم چند روز قبل جب مسلم لیگ ن کے تنظیمی عہدوں پر نواز شریف بیانیہ کے حامیوں کو مرکزی عہدوں پر نامزد کیا گیا تو یہ تاثر قائم ہوا کہ ن لیگ نے سیاسی حکمت عملی تبدیل کرلی، خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ کا پرچار کرنے والی مریم نواز کو پارٹی کا نائب صدر مقرر کرنے سے یہ تاثر حقیقت میں تبدیل ہوتا دکھائی دیا۔

شہباز شریف کے لندن میں موجود ہونے کے باوجود لیگی قیادت نے میاں نواز شریف کو ضمانت کی ڈیڑھ ماہ مدت پوری ہونے پر جلوس کی صورت میں دوبارہ جیل منتقل کرنے کا فیصلہ کیا اور جلوس کی قیادت مریم نواز کو سونپی گئی ہے.

تجزیہ کاروں کے مطابق سابق وزیر اعظم کی جیل جانے سے قبل پارٹی میں ہم خیال رہنماؤں کو آگے لانے اور مریم کو قیادت دینے سے لگتا ہے کہ اب مسلم لیگ ن کو مریم نواز چلائیں گی۔

صحافی سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب نواز شریف سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد اسلام آباد سے لاہور  آئے تو کارکنوں نے جی ٹی روڑ پر ان کا بھرپور استقبال کرکے ان کے بیانیہ کو تقویت دی۔ اس کے بعد جب وہ انتخابات سے قبل مریم کو ساتھ لے کر لندن سے گرفتاری دینے واپس لاہور  آئے تو شہباز شریف کی قیادت میں ہزاروں کارکن لاہور کی سڑکوں پر نکلے مگر انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر خاموشی اور مزاحمتی سیاست نہ کرنے پر کارکنوں کی ہمدردیاں شہباز شریف کے ساتھ کم ہوئی جبکہ نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم زیادہ نے زیادہ مقبولیت حاصل کی۔ اس طرح ن لیگی اراکین اسمبلی اور رہنماؤں کی بڑی تعداد نے مصلحتی پالیسی کو مسترد کیا اور سیاسی طور پر مضبوطی کے لیے مریم نواز کو آگے لانے کا فیصلہ کیا گیا۔

مریم کو درپیش چیلنجز

حکمران جماعت کی جانب سے پاناما سکینڈل اور بیرون ملک جائیدادیں بنانے کے کیس میں ملوث ہونے پر مریم نواز کی پارٹی عہدے پر تقرری اور پارٹی قیادت کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ایک سزا یافتہ خاتون کو سیاسی جماعت میں عہدہ دینا الیکشن کمیشن قوانین کی خلاف ورزی اور اخلاقیات کے بھی منافی ہے۔

دوسری جانب سابق وزیراعظم کی بیٹی کو اپنی ہی پارٹی کے بعض رہنماؤں کی مخالفت کا بھی سامنا ہے۔ ان کے چچا زاد بھائی حمزہ شہباز جو پنجاب میں اپوزیشن لیڈر ہیں انہیں قیادت ملنے سے ناخوش دکھائی دیتے ہیں کیونکہ انہوں نے اب تک نئے پارٹی عہدیداروں سے متعلق کوئی حمایتی بیان نہیں دیا۔ اسی طرح سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار نے پہلے ہی مریم نواز کے خلاف بیانات کے ذریعے اعلان کیا تھا کہ وہ ان کی قیادت تسلیم نہیں کرتے، اسی لیے چوہدری نثار (ن) لیگ سے علیحدہ ہوئے۔ ان کا ہم خیال گروپ بھی مریم نواز کو قیادت ملنے پر ناخوش ہے، تاہم ابھی موجودہ سیاسی صورتحال کی وجہ سے خاموش ہے۔ انہیں اپنے ساتھ ملانا بھی مریم کے لیے بڑا چیلنج ہوسکتا ہے۔

پاکستانی سیاست میں خواتین کو قیادت ملنا

ملکی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو خواتین کو اُس وقت پارٹیوں کی قیادت ملی جب مرد قائدین پر زوال آیا جبکہ مرد قائدین ہمیشہ بہتر حالات میں سیاسی افق پر نمودار ہوئے۔

سب سے پہلے 1960کی دہائی میں فاطمہ جناح کو اُس وقت قیادت کرنا پڑی جب جنرل ایوب خان نے مارشل لا لگا رکھا تھا۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح کو آمریت کے خلاف جدوجہد میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

اُس وقت سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ایوب خان کی کابینہ کا حصہ تھے۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور وزیراعظم بنے۔ اُس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھال لیا اور بھٹو کو قید کر لیا گیا۔ پارٹی قیادت پر زوال آیا تو ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ نصرت بھٹو کو پارٹی قیادت سنبھالنا پڑی جبکہ انہیں بچوں سمیت آمرانہ کارروائیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی اور ان کے بیٹے میر مرتضیٰ بھٹو کو طیارہ اغوا کیس میں جلا وطن ہونا پڑا تو اسی دوران پارٹی کی قیادت محترمہ بے نظیر بھٹو کو سونپی گئی۔ انہوں نے اپنی والدہ نصرت بھٹو کے ساتھ مل کر آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

جنرل ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی کے مقابلے میں انتخابات کے ذریعے مسلم لیگ کی قیادت میں محمد خان جونیجو کو وزیراعظم جبکہ میاں نواز شریف کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنوا دیا۔ 17 اگست 1988 کو جب بہاولپور کے قریب طیارہ حادثے میں جنرل ضیاء الحق کا انتقال ہوا تو اسی سال پہلے الیکشن میں بے نظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئیں۔

اسی طرح جب 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے مارشل لا لگا کر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا تختہ الٹا اور اقتدار سنبھالا اور وزیر اعظم میاں نواز شریف کو قید کر لیا تو پارٹی کی قیادت نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کو کرنا پڑی۔ انہوں نے بھی جنرل مشرف کی آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ مشرف کے مستعفی ہونے کے بعد نواز شریف دوبارہ پارٹی سربراہ بن گئے۔

اس بار جب سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دے کر قید کرنے کی سزا دی ہے تو پارٹی کی قیادت مریم نواز کو سونپی گئی ہے۔ لگتا یوں ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آمریت کا سامنا خواتین لیڈروں نے مردوں کے مقابلے میں زیادہ ڈٹ کر کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان