ایران میں صدارتی الیکشن: پہلے ٹی وی مباحثے میں الزامات کی بوچھاڑ

ایران کے اصلاح پسند اور قدامت پسند صدارتی امیدواروں نے الیکشن سے پہلے ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر ہونے والے مباحثے کے دوران ملک کے معاشی بحران کے لیے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹہرایا ہے۔

ایران کے اصلاح پسند اور قدامت پسند صدارتی امیدواروں نے الیکشن سے پہلے ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر ہونے والے مباحثے کے دوران ملک کے معاشی بحران کے لیے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹہرایا ہے۔

امریکہ کی سابقہ انتظامیہ کی جانب سے 2015 کے جوہری معاہدے سے دست برداری کے بعد تہران پر لگنے والی سخت اقتصادی پابندیوں کے باعث پیدا ہونے والے گہرے معاشی اور معاشرتی بحران کے دوران ایران کے عوام 18 جون کو صدر حسن روحانی کے جانشین کا انتخاب کرنے والے ہیں۔

ایران کی قدامت پسند ’گارڈین کونسل‘ نے 600 امیدواروں میں سے محض سات رہنماؤں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی ہے جن میں پانچ سخت گیر اور دو اصلاح پسند امیدوار ہیں۔

کونسل کی جانب سے اعتدال پسند امیدوار علی لاریجانی کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد انتہائی قدامت پسند رہنما اور عدلیہ کے سربراہ ابراہیم رئیسی کے ان انتخابات میں کامیابی کے امکان روشن ہیں۔

ہفتے کو ہونے والے پہلے مباحثے میں انتہائی قدامت پسند امیدواروں نے اصلاح پسند امیدوار اور مرکزی بینک کے گورنر عبد الناصر ہیمتی سے اس بحران کی ذمہ داری قبول کرنے کا مطالبہ کیا اور ان پر الزام عائد کیا کہ وہ حکومت کے ریکارڈ کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایران کے پاسداران انقلاب کے سابق سربراہ محسن رضائی نے اپنے صدارتی حریف سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: ’جناب ہیمتی آپ کی حکمرانی تباہ کن تھی آپ صدر روحانی کے نمائندے کی حیثیت سے یہاں بیٹھے ہیں۔‘

صدر روحانی عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کے لیے ایران کے اہم معمار رہے ہیں۔

اس معاہدے کی بحالی کے لیے اپریل کے شروع سے ہی عالمی طاقتیں ویانا میں ملاقاتیں کر رہی ہیں۔

اصلاح پسند رہنما ہیمتی نے جوہری معاہدے پر بحث کی بجائے اپنے مخالفین کے معاشی منصوبے پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ ان کے وسیع پیمانے پر عوام کو براہ راست مالی امداد کے وعدے ’ناقابل اعتبار‘ ہیں۔

انہوں نے اپنے قدامت پسند مخالفین پر ایران کے دنیا سے تعلقات کو خراب کرنے اور جوہری معاہدے سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہنے کا الزام بھی عائد کیا۔

2017 کے صدارتی انتخابات میں 38 فیصد ووٹ حاصل کرنے والے قدامت پسند رہنما رئیسی نے اس موقعے پر اصلاح پسندوں کے ساتھ براہ راست حملوں سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ’مہنگائی ان سنگین مسائل میں سے ایک ہے جن کا آج ایرانی عوام سامنا کر رہے ہیں۔ ملک میں بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتوں میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ بعض اہم عہدے داروں کی ’بے ایمانی‘ ایرانی عوام کی پریشانیوں کی ایک بنیادی وجہ تھی۔

حالیہ ہفتوں کے دوران ایرانی میڈیا نے صدارتی انتخابات میں ممکنہ کم ٹرن آؤٹ کے خدشے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

گذشتہ سال فروری میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں بھی 57 فیصد ایرانی شہری انتخابات سے دور رہے تھے۔

صدارتی امیداروں کے درمیان مزید مباحثے آئندہ منگل اور ہفتے کو ہونے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا