’تھر میں پانی لانا عورت کے نصیب میں لکھا ہے‘

گھروں کا کوئی دروازہ نہیں، مگر اس خطے میں سب سے قیمتی چیز پانی ہے، اس لیے پانی کی ٹینکی اور کنویں کو تالا لگانا عام بات ہے۔

تھرمیں لڑکیاں بچپن سے ہی گھر کا پانی لانے کی ذمہ داری سنبھال لیتی ہیں(تصاویر: امر گرڑو)

پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے صحرائے تھر کے شہر چھاچھرو سے تقریباً 16 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گاؤں گَرڑی میں صبح کے نو بجے ہی گرم ہوائیں چلنا شروع ہوگئی ہیں۔ ریت کے دو بڑے ٹیلوں پر بنے اس گاؤں کے بیچ میں موجود وسیع میدان میں کئی بچے گدھوں پر مشکیزوں کی بجائے بڑے حجم کے ٹیوب لادے کنویں کی جانب رواں دواں ہیں۔

کنویں کے پاس چھوٹی چھوٹی زیر زمین ٹینکیاں بنی ہوئی ہیں، جو کنویں کے ساتھ بنے حوض سے پائپ کے ذریعے جڑی ہوئی ہیں۔ کنویں سے پانی حوض میں ڈالا جاتا ہے جو پائپ سے ٹینکیوں میں چلا جاتا ہے۔ ہر گھر کی علیحدہ ٹینکی ہے اور ان ٹینکیوں کے اوپر لکڑی کے بنے ڈھکن تالوں سے بند ہیں۔

صحرائے تھر پاکستان میں پرامن خطہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہاں جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مقامی لوگ اپنے مویشیوں کو صبح میں کھول دیتے ہیں، جو بغیر کسی چراوہے کے آس پاس کے علاقے میں چر کر شام کو خود ہی واپس آجاتے ہیں۔ گھروں کا کوئی دروازہ نہیں، مگر اس خطے میں سب سے قیمتی چیز پانی ہے، اس لیے پانی کی ٹینکی اور کنویں کو تالا لگانا عام بات ہے۔

صحرائے تھر میں زندگی کا دارومدار بارشوں پر ہے۔ مقامی لوگوں کا ذریعہ معاش مویشی اور بارانی فصل ہیں۔ جب مون سون کی بارشیں ہوتی ہیں تو لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ یہاں مونگ، تِل، گوار اور باجرا اہم بارانی فصلیں ہیں۔ بارشوں کے بعد کنوؤں میں پانی کی سطح اوپر آجاتی ہے، جو آنے والے سات، آٹھ ماہ تک بہتر رہتی ہے۔

بارشوں سے دو، تین مہینے پہلے یہاں پانی کی شدید قلت ہوجاتی ہے۔ پانی کی قلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں کی خواتین گھر کے برتن ایک بڑے تھال میں دھوتی ہیں اور بعد میں یہ پانی مویشیوں کو پلایا جاتا ہے۔

پانی کی شدید قلت کے باجود ہر گھر میں پرندوں کے لیے پانی کا برتن رکھنے کی روایت آج بھی موجود ہے۔

کنویں پر پانی بھرنے کے لیے آنے والی 10 سالہ کویتا میگھواڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’صبح کے وقت گرمی زیادہ نہیں ہوتی تو خواتین کمسن بچیوں کو پانی لانے کے لیے بھیجتی ہیں اور دوپہر کی تپتی دھوپ میں خواتین خود پانی لاتی ہیں۔‘

ان کے مطابق: ’گھر میں پانی جمع کرنے کا رواج نہیں ہے۔ کسی کے گھر میں چھوٹی ٹینکی بنی ہوتی ہے، جس میں مویشیوں کا پانی جمع کیا جاتا ہے جبکہ گھر کے افراد کے لیے مٹکا بھر کے رکھا جاتا ہے۔ جیسے ہی مٹکا خالی ہوتا ہے، پھر کنویں پر آکر بھرنا پڑتا ہے، اس لیے یہاں کی خواتین اور بچے سارا دن پانی بھرتے گزارتے ہیں۔‘

تھر میں لڑکے 16 یا 17 سال کی عمر تک گھر کا پانی بھرنے کا کام کرتے ہیں۔ اس کے بعد ان کی جگہ کمسن لڑکے لے لیتے ہیں، مگر لڑکیوں پر بچپن سے بڑھاپے تک پانی لانے کی ذمہ داری رہتی ہے۔

ایک سو گھروں پر مشتمل گاؤں گَرڑی کے درمیان میں واقع کنویں کا پانی کھارا ہے اور گاؤں کے باسی کنویں سے برتن اور کپڑے دھونے اور مویشیوں کو پلانے کا پانی بھرتے ہیں۔

جبکہ انسانوں کے پینے کا پانی گاؤں سے ڈیڑھ کلومیٹر باہر ٹیلوں کے درمیان موجود ایک بڑے میدان میں واقع ایک درجن کے قریب کنوؤں سے لایا جاتا ہے۔

گاؤں کے رہائشی کھنگار میگھواڑ کے مطابق بارشوں کے دوران آس پاس کے علاقے کا پانی اس میدان میں جمع ہوجاتا ہے، جس کے باعث یہاں زیر زمین پانی کی سطح اوپر آجاتی ہے۔ دوسرے علاقوں میں کنویں 150 سے 200 فٹ گہرے ہوتے ہیں، مگراس میدان میں 25 سے 30 فٹ تک پانی نکل آتا ہے اور وہ بھی کم کھارا ہوتا ہے جو گاؤں کے رہائشی پینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

تھرمیں گذشتہ کئی سالوں سے جاری سخت خشک سالی کے باعث کنوؤں میں پانی کی سطح نیچے جارہی ہے۔ کئی گاؤں میں کنوؤں کی گہرائی 200 سے 250 فٹ ہوگئی ہے۔

اتنی گہرائی سے پانی سے بھرا وزنی ڈول نکالنے کے لیے گدھوں اور اونٹوں کی مدد لی جاتی ہے۔

 ایسے ہی مناظر گاؤں گَرڑی سے کچھ فاصلے پر واقع گاؤں ڈاکی ڈہر میں دیکھے گئے، جہاں 200 فٹ گہرے کنویں سے اونٹ کی مدد سے پانی نکال کر کنویں کے آس پاس موجود درختوں کے سائے میں بیٹھے جانوروں کو پلایا جارہا تھا، جبکہ بچوں کو نہلانے کے لیے سیمنٹ کے ٹب بنے ہوئے تھے، جہاں بچوں کو نہلانے کے بعد وہ پانی گدھوں کو پلایا جارہا تھا، تاکہ پانی ضائع نہ ہو۔

تحصیل چھاچھرو کے ایک اور گاؤں سوائی کولہی میں دوپہر کے بعد ایک درجن کے قریب خواتین گہرے کنویں سے پانی کا ڈول کھینچ کر نکالتی نظر آئیں۔

ان میں ایک عمر رسید خاتون بھی شامل تھیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’تھر میں پانی لانا بچپن سے بڑھاپے تک عورت کے نصیب میں لکھا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی تصویر کہانی