ایران میں صدارتی ہما آج ابراہیم رئیسی کے سر بیٹھنے کا امکان؟

ایران کے صدارتی انتخابات میں آج چار امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے لیکن سیاسی پنڈتوں کی پیش گوئی کے مطابق قدامت پسند مذہبی رہنما ابراہیم رئیسی کی جیت بڑی حد تک متوقع ہے۔

ایک بچی تہران میں سات صدارتی امیدواروں کی تصاویر والے انتخابی کیمپ میں کھڑی ہیں (اے ایف پی)

ایران کے صدارتی انتخابات میں آج چار امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے لیکن سیاسی پنڈتوں کی پیش گوئی کے مطابق قدامت پسند مذہبی رہنما ابراہیم رئیسی کی جیت بڑی حد تک متوقع ہے۔

انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت پانے والے سات امیدواروں میں سے تین نے نامزدگی واپس لے لی تھی جس کے بعد 60 سالہ ابراہیم رئیسی کی پوزیشن کو مزید تقویت ملی ہے۔

سب نظریں مقابلے سے کسی قدر زیادہ ٹرن آؤٹ پر لگی ہیں۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے الیکشن سے دو روز قبل اپنے ہم وطنوں پر زور دیا کہ وہ صدارتی انتخابات میں بھرپور حصہ لیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صدارتی انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ اور ایران پر بیرونی دباؤ کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔

خامنہ ای نے ایک تقریر میں کہا کہ ’اگر لوگ پولنگ میں بھرپور طریقے سے شریک نہیں ہوتے تو دشمن کے دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ اگر ہم دباؤ اور پابندیوں میں کمی چاہتے ہیں تو لوگوں کی شرکت میں اضافہ ہونا چاہیے اور نظام کو حاصل عوامی مقبولیت دشمن پر ظاہر ہونی چاہیے۔‘

خامنہ ای نے امریکی اور برطانوی میڈیا پر الزام عائد کیا کہ ’وہ ایرانیوں کی ووٹنگ میں حصہ لینے کی حوصلہ شکنی کر رہا ہے اور صدارتی انتخابات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘

بعض تجزیہ کاروں کے مطابق رہبرِ اعلیٰ کی اپیل کے باوجود انتخابات میں ریکارڈ کم ٹرن آؤٹ متوقع ہے کیونکہ لوگ انتخابی عمل میں کوئی زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں۔

ادھر ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا نے ایرانی وزارت ثقافت کے شعبہ غیرملکی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے کہا کہ دنیا کے 226 اداروں سے تعلق رکھنے والے 500 غیرملکی صحافی 13 ویں صدارتی انتخابات اور شہری - دیہی اسلامی کونسلز کے چھٹے الیکشن کی کوریج کریں گے۔

ترجمان محمد خدادادی نے منگل کو کہا کہ ان صحافیوں کا 39 ممالک سے تعلق ہے تاہم غیرملکی صحافیوں کا ملک میں داخلہ صرف منفی کرونا ٹیسٹ کے ساتھ ہی ممکن ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان میں سے 336 غیرملکی صحافی تہران میں مقیم ہیں اور 160 سے زیادہ کو پریس ویزا جاری کیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ نمائندے امریکہ، برطانیہ، اٹلی، بحرین، بیلجیم، ترکی، ناروے، سویڈن، ڈنمارک، چین، روس، جاپان، سوئٹزرلینڈ، فرانس، جرمنی، آسٹریا، سپین، آسٹریلیا، نیدرلینڈز، قطر، جنوبی کوریا، شمالی کوریا، کینیڈا، کولمبیا، کویت، لبنان، لکسمبرگ، پاکستان، نائیجیریا، آذربائیجان، افغانستان، آرمینیا، کرغیزستان، عراق، عمان، متحدہ عرب امارات، فلسطین اور شام سے تعلق رکھتے ہیں۔

ایران کی شوری نگہبان نے سینکڑوں امیدواروں میں سے صرف سات کو صدارتی انتخاب لڑنے کا اہل قرار دیا تھا لیکن ان میں سے تین امیدوار سابق نائب صدر اور واحد اصلاح پسند صدارتی امیدوار محسن مہر علی زادہ، قدامت پسند رکن پارلیمان علی رضا زاکانی اور ایران کے سابق اعلیٰ جوہری مذاکرات کار سعید جلیلی نے صدارتی دوڑ سے دست بردار ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔

مہر علی زادہ نے کسی صدارتی امیدوار کی حمایت کا اعلان نہیں کیا لیکن ان کی دست برداری کا فیصلہ مرکزی بینک کے سابق گورنر عبدالناصر ہمتی کو فتح دلوانے کی ایک کوشش ہوسکتا ہے۔

عبدالناصر ہمتی کو دوسرے صدارتی امیدواروں کے مقابلے میں ’اعتدال پسند‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ بعض اصلاح پسند گروپوں نے ہمتی کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔

دوسری جانب زاکانی اور سعید جلیلی نے عدلیہ کے سربراہ ابراہیم رئیسی کے حق میں دست بردار ہونے کا اعلان کیا ہے۔ رئیسی آیت اللہ علی خامنہ ای کے قریب سمجھے جاتے ہیں اور انہیں اب تک سب سے مضبوط صدارتی امیدوار خیال کیا جا رہا ہے۔

60 سالہ ابراہیم رئیسی نے 2017 میں منعقدہ صدارتی انتخابات میں حصہ لیا تھا مگر وہ موجودہ صدر حسن روحانی سے ہار گئے تھے۔

اگر وہ ان صدارتی انتخاب میں بھی شکست سے دوچار ہوجاتے ہیں تو پھر ان کا آیت اللہ خامنہ ای کی جگہ رہبرِ اعلیٰ بننے کا امکان معدوم ہو جائے گا۔

انہیں آیت اللہ خامنہ ای نے 2019 میں ایرانی عدلیہ کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ اسی سال امریکہ نے ان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام میں پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ ان پر 1980 کے عشرے میں قتلِ عام کے واقعات میں ملوّث ہونے کے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں۔

مرکزی بینک کے سابق گورنر عبدالناصر ہمتی کے علاوہ ان کے مدمقابل دوسرے نمایاں امیدوار ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب کے سابق سربراہ اور مصالحتی کونسل کے موجودہ سیکریٹری محسن رضائی ہیں۔

چوتھے صدارتی امیدوار رکن پارلیمان امیر حسین غازی زادہ ہاشمی ہیں۔ وہ نسبتاً کم زور سیاست دان خیال کیے جاتے ہیں اور ان تینوں امیدواروں کے مقابلے میں کوئی زیادہ معروف بھی نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق عبدالناصر ہمتی اپنے حریف اور ایرانی عدلیہ کے قدامت پسند سربراہ ابراہیم رئیسی سے پیچھے ہیں۔

رئیسی کے بارے میں خیال ہے کہ انہیں صدر بنانے کے لیے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے بہت پہلے سے تیاری شروع کر دی تھی۔

ایران کے صدارتی انتخابات میں امیدواروں کا یکساں انتخابی منشور رکھنے والے امیدواروں کے حق میں دست بردار ہونا معمول کی بات ہے۔

ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق زاکانی نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ رئیسی کو اہل ترین امیدوار تصور کرتے ہیں۔

ایرانی پارلیمنٹ کے 200 سے زائد ارکان نے بھی ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں قدامت پسند امیدواروں پر ابراہیم رئیسی کے حق میں دست بردار ہونے کے لیے زور دیا گیا۔

ایران کی پارلیمنٹ میں قدامت پسند نظریات رکھنے والے ارکان کو اکثریت حاصل ہے۔

اصلاح پسند رائے دہندگان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے عبدالناصر ہمتی نے اعلان کیا ہے کہ وہ کامیاب ہوئے تو جواد ظریف کو اپنی حکومت میں بطور نائب صدر یا وزیرِ خارجہ شامل کریں گے۔

موجودہ وزیرِ خارجہ جواد ظریف 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے میں اہم کردار ادا کرنے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔

اپنے ایک ٹویٹ میں ناصر ہمتی نے کہا ہے کہ مضبوط سفارتی تعلقات کے بغیر ایران کی معاشی ترقی ممکن نہیں ہے۔

جواد ظریف کو وزیرِ خارجہ بنانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میری حکومت پابندیوں کے خاتمے اور سیاسی پیش رفت کے لیے خارجہ پالیسی کے استعمال پر کام کرے گی۔‘

جواد ظریف کو کچھ عرصہ قبل اپنی ایک آڈیو ٹیپ افشا ہونے کی وجہ سے ایرانی اسٹیبلشمنٹ اور بااثر حلقوں کی تنقید اور ناراضی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اس آڈیو میں انہوں نے ایران میں جاری اختیارات کی کشمکش پر دو ٹوک انداز میں رائے کا اظہار کیا تھا۔

عبدالناصر ہمتی کے اعلان پر جواد ظریف کا ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن اس سے قبل جواد ظریف ایک اور موقعے پر آئندہ بننے والی حکومت میں شمولیت پر آمادگی ظاہر کر چکے ہیں۔

ایران میں انتخابی امیدواروں کو تین درجوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ حالیہ انتخابات میں حصہ لینے والے سب سے زیادہ امیدوار سخت گیر نظریات کے حامل ہیں جو ایران کے جوہری پرگرام کو وسعت دینے اور اس کے لیے دنیا سے مقابلے کی پالیسی کے حامی ہیں۔

معتدل یا ماڈرنسٹ وہ کہلاتے ہیں جو حالات کو جوں کا توں برقرار رکھنا چاہتے ہیں جب کہ اصلاح پسند انہیں کہا جاتا ہے جو نظریاتی بنیاد پر قائم ایران کے نظامِ حکومت میں تبدیلیوں کے خواہاں ہیں۔

ایران کے حالیہ انتخابات میں موجودہ صدر حسن روحانی کے کلیدی ساتھیوں اور نمایاں اصلاح پسندوں نے صدارتی امیدوار بننے کے لیے کاغذات نامزدگی داخل کرائے تھے لیکن امیدواروں کی منظوری دینے کا حتمی اختیار رکھنے والی شوریٰ نگہبان [گارڈین کونسل] نے بعض کم معروف امیدواروں ہی کو انتخابات لڑنے کی اجازت دی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا