لال مسجد آپریشن، جس نے پورے ملک کو خون سے رنگ دیا

لال مسجد کے خون آشام واقعے کو عرصہ گزر گیا لیکن آج بھی مسجد کے اطراف کی سڑکیں بند ہیں۔

یہ مسجد شروع میں لال نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے بھی ایک دلچسپ کہانی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

تین جولائی 2007 کو شروع ہونے والا لال مسجد آپریشن پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ اس کے بعد دہشت گردی کی ایک خوفناک لہر آئی جس نے اگلے دس سالوں میں پاکستان کے سکیورٹی منظر نامے کو یکسر بدل کے رکھ دیا اور ریاست کو دہشت گردی کو شکست دینے میں دس سال لگ گئے۔

اسلام آباد کے قیام کا فیصلہ 1960 میں ہوا تو سب سے پہلے جی سکس یعنی آبپارہ کے ارد گرد سرکاری کوارٹر بنائے گئے۔ کراچی 1963 تک پاکستان کا دارالحکومت رہا۔ 1963 تک جو عمارتیں اسلام آباد میں مکمل ہوئیں ان میں میلوڈی سینما، نیشنل بینک، میلوڈی مارکیٹ اور لال مسجد شامل تھی۔

یہ مسجد شروع میں لال نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ اس کی تعمیر میں پیلے رنگ کی چھوٹی اینٹ استعمال کی گئی تھی جس کے سیمنٹ والے حصے پر سفید رنگ کر دیا گیا۔ مرکزی دروازے کے فرش پر چوکے لگائے گئے تھے۔ درمیان میں ایک چھوٹا تالاب وضو کے لیے بنایا گیا، لیکن مسجد کی تعمیر میں جو چھوٹی اینٹ استعمال کی گئی تھی وہ ناقص نکلی اور بُھرنے لگی جس کا حل ٹھیکیدار نے یہ نکالا کہ سیمنٹ لگا کر لال رنگ کر دیا، اور یوں یہ لال مسجد کے نام سے موسوم ہو گئی۔

اس کے پہلے خطیب مولانا عبداللہ تھے، ان کی بطور امام تقرری کے پیچھے جو کہانی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ صدر ایوب نے کراچی کے مدرسہ بنوری ٹاؤن کے مولانا محمد یوسف بنوری سے درخواست کی کہ وہ اسلام آباد کی پہلی جامع مسجد کے لیے کوئی خطیب تجویز کریں۔ انہوں نے جامعہ بنوری ٹاؤن کے فارغ التحصیل مولانا عبدااللہ کا نام دیا۔ مولانا عبداللہ کا تعلق ضلع راجن پور کے علاقے روجھان سے تھا اور انہوں نے دینی تعلیم جن مدارس سے حاصل کی ان میں مولانا مفتی محمود کا ملتان میں واقع مدرسہ قاسم العلوم بھی شامل تھا۔

 چونکہ اس وقت یہی مرکزی مسجد تھی اس لیے چپڑاسی سے لے کر سیکریٹری تک اسی مسجد میں جمعہ اور دیگر نمازیں ادا کرتے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مولانا عبداللہ کا حلقہ وسیع اور با اثر ہوتا گیا۔ انہوں نے شروع میں ہی مسجد میں ایک مدرسہ جامعہ فریدیہ بھی قائم کر دیا جسے بعد ازاں انہوں نے ای سیون منتقل کر دیا، جس کی تعمیر میں جعفر برادرز کے مالک سیٹھ ہارون کا مالی تعاون شامل تھا، تاہم سیاسی طور پر وہ ملکی منظر نامے میں اس وقت سامنے آئے جب 1974 میں تحریک ختم نبوت چلی۔ چونکہ اس تحریک کے روح رواں مولانا مفتی محمود تھے جو کہ مولانا عبداللہ کے استاد رہ چکے تھے، اس لیے لال مسجد جلسے جلوسوں کا مرکز بن گئی۔ بعد میں جب بھٹو کے خلاف تحریک چلی تو بھی مولانا عبداللہ اس میں پیش پیش تھے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ضیا الحق جب برسر اقتدار آئے تو انہوں نے مولانا عبداللہ کو مجلسِ شوریٰ کا رکن بنا دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

80 کی دہائی میں جب افغان جہاد شروع ہوا تو یہ مسجد ملک اور دنیا بھر سے آنے والے مجاہدین کے لیے ایک پڑاؤ کی حیثیت اختیار کر گئی۔ یہ کردار اسے اس وقت بھی ملا جب جہاد کشمیر کی تحریک چل رہی تھی۔ جب ایک مخصوص مکتب فکر کو افغان اور کشمیر جہاد میں مرکزیت حاصل ہوئی تو مولانا نے اسلام آباد میں کئی مساجد اور مدارس کی بنیاد رکھی جن میں اکثر غیر قانونی جگہوں پر قبضہ کرکے بنائے گئے تھے۔ اسی دوران مولانا نے اپنے جمعے کے خطبوں میں ایک مکتب فکر کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات عروج پر تھے اور افغانستان میں القاعدہ کے کیمپوں میں ایسے افراد کی سرپرستی کی جا رہی تھی جو پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث تھے۔

1998 میں جب مسجد میں انہیں قتل کیا گیا تو خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایک ہفتہ پہلے ہی افغانستان میں اسامہ بن لادن اور ملا عمر سے ملاقات کرکے آئے تھے۔ ان کے قتل کے بعد ان کی وصیت کے مطابق ان کے بڑے بیٹے مولانا عبد العزیز کو ان کا جانشین اور لال مسجد کا خطیب مقرر کیا گیا جبکہ جامعہ حفضہ کی مہتمم ان کی زوجہ محترمہ ام حسان قرار پائیں۔ جبکہ ان کے چھوٹے بیٹے عبد الرشید کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے دین سے باغیانہ روش پائی تھی اور انہوں نے والد کی خواہش کے برعکس مدرسے کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر قائد اعظم یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایم اے کرنے کے بعد 1979 میں محکمہ تعلیم میں افسر لگ گئے۔ یہاں سے وہ ڈپوٹیشن پر اسلام آباد میں یونیسکو کے دفتر چلے گئے جہاں انہوں نے والد کے قتل تک اپنی خدمات سرانجام دیں۔ والد کے قتل کے بعد انہوں نے مسجد اور مدارس میں دلچسپی لینی شروع کی اور داڑھی بھی رکھ لی۔ جب 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے خلاف دفاع افغانستان تنظیم بنی تو وہ اس کے مرکزی رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ جب 2004 میں قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن شروع ہوا تو لال مسجد کے پلیٹ فارم سے ایک فتویٰ جاری ہوا کہ اس آپریشن میں مرنے والے فوجیوں کو ہلاک اور طالبان کو شہید کہا جائے۔ بعد میں ان پر کئی ایک بم دھماکوں میں ملوث ہونے کا الزام بھی لگا اور ان کی اسلحے سے بھری گاڑی پکڑی بھی گئی۔

2007 میں لال مسجد، اس سے ملحقہ جامعہ حفضہ کی طالبات اور جامعہ فریدیہ کے طلبہ نے آبپارہ میں سی ڈی کی دکانوں کو نذر آتش کیا اور ایک خاتون آنٹی شمیم کو بدکاری کا اڈا چلانے کے الزام میں گرفتار کرکے اسلام آباد میں شرعی نظام نافذ کرنے کا اعلان کیا جبکہ لال مسجد میں ایک عدالت بھی قائم کر دی گئی۔ حکومت سے بھی شرعی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کیا گیا اور انکار کی صورت میں مسلح جہاد اور خود کش حملوں کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ اسی دوران کچھ پولیس اہلکاروں کو بھی لا مسجد میں یرغمال بنا لیا گیا۔ اس دور کی وفاقی وزیر نیلوفر بختیار کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کیا گیا۔ برادر ملک چین کی تین خواتین کو بھی بدکاری کا الزام لگا کر اغوا کر لیا گیا۔ ایک سرکاری سکول، وزارت ماحولیات کی عمارت اور مسجد سے ملحق چلڈرن لائبریری پر بھی مسلح طالبان نے قبضہ کر لیا۔ یہ سب کچھ آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر، پارلیمنٹ، ایوان صدر اور وزیراعظم سیکریٹریٹ کے بالکل نواح میں ہو رہا تھا، اس لیے آپریشن کے لیے حکام پر دباؤ بڑھا تو اس نے فوجی آپریشن شروع کر دیا جو کئی روز تک جاری رہا۔

اس دوران مولانا عبدالعزیز برقعے میں مسجد سے فرار ہوتے ہوئے پکڑے گئے۔ اس دوران مذاکرات بھی چلتے رہے۔ جن میں جید علمائے کرام اور امام کعبہ بھی شامل ہوئے مگر ڈیڈ لاک برقرار رہا جو 10 جولائی کو حتمی آپریشن پر منتج ہوا۔ اس آپریشن میں سپیشل سروسز گروپ کے ایک لیفٹیننٹ کرنل ہارون بھی شہید ہوئے جبکہ حکومت کا دعویٰ تھا کہ آپریشن میں مولانا عبدالرشید غازی سمیت ایک سو افراد ہلاک ہوئے جبکہ لال مسجد انتظامیہ دو سو کے قریب ہلاکتوں کا دعوی کرتی رہی۔ عبدالرشید غازی کی ہلاکت کے بعد القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کا پیغام آیا، جس میں انہوں نے عبد الرشید غازی کو ’اسلام کا ہیرو‘ قرار دیتے پاک فوج کے خلاف اعلانِ جنگ کیا۔ غازی بریگیڈ کے نام سے ایک مسلح گروپ بھی وجود میں آیا۔ لال مسجد آپریشن کے بعد ایک سال میں 88 بم دھماکے اور خود کش حملے ہوئے جن میں 1188 افراد ہلاک اور 3209 افراد زخمی ہوئے۔

لال مسجد آپریشن کے صرف دو ماہ بعد پاکستانی سپیشل فورسز کے ضرار کیمپ پر ایک 18 سالہ خودکش بمبار نے حملہ کر کے 22 فوجیوں کو شہید کر دیا۔ اس کے بعد راولپنڈی، اسلام آباد اور لاہور میں ہائی سکیورٹی زون میں حملے ہوئے۔ لال مسجد آپریشن کے چھ ماہ بعد 14 دسمبر 2007 کو جنوبی وزیرستان میں 40 طالبان رہنما اکٹھے ہوئے جنہوں نے تحریک طالبان کے نام سے مسلح جدوجہد شروع کرنے کا اعلان کیا۔ لال مسجد کے علما کا پہلے ہی ان طالبان رہنماؤں سے رابطہ تھا۔ ان میں بیت اللہ مسعود اور سوات کے ملا فضل اللہ بھی شامل تھے۔ لال مسجد کے مدارس میں زیر تعلیم 70 فیصد طلبہ کا تعلق فاٹا اور خیبر پختونخوا کے علاقوں سے تھا، جنہوں نے واپس جا کر دہشت گردی کی کارروائیوں میں حصہ لیا۔ لال مسجد آپریشن کی پہلی برسی پر مسجد میں شہدا کانفرنس ہوئی جس کے بعد مسجد کے باہر سڑک پر تعینات پولیس اہلکاروں پر خود کش حملہ ہوا جس میں دو درجن کے قریب پولیس اہلکار جان سے گئے۔

 اگرچہ گذشتہ دو دہائیوں میں 83 ہزار پاکستانی دہشت گردی کی نذر ہوئے اس دوران 18 ہزار دہشت گردوں کو ہلاک بھی کیا گیا، ان میں سے زیادہ تر ہلاکتیں 2007 سے 2013 کے دوران ہوئیں۔

آج اس واقعے کو 14 سال ہو چکے ہیں مگر آج بھی لال مسجد انتظامیہ اور حکومت کے درمیان اختلافات چل رہے ہیں۔ سکیورٹی اہلکار لال مسجد کے باہر ہر وقت موجود رہتے ہیں اور لال مسجد کے اطراف کی سڑکیں خار دار تاریں لگا کر بند کی گئی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان