کیا آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان کا قومی کھیل کون سا ہے؟ یا آپ موجودہ قومی ہاکی ٹیم کے کسی کھلاڑی یا کپتان کا نام جانتے ہیں؟
انڈپینڈنٹ اردو نے ہاکی کے شاندار ماضی کی موجودہ مقبولیت جاننے کے لیے لاہور کے چند بازاروں میں لوگوں سے یہی سوالات پوچھے۔
اکثر نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ اکثر قومی ہاکی ٹیم کے کپتان تک کو نہیں جانتے تھے۔ اس کی بڑی وجہ انہوں نے ہاکی میچز کا اب ٹی وی سپورٹس چینلز پر زیادہ نہ دکھایا جانا بتایا۔
ورلڈ کپ یا اولپمکس میں چونکہ پاکستانی ٹیم کھیل نہیں رہی ہوتی اس لیے نہ کوئی دکھاتا ہے اور نہ کوئی دیکھتا ہے۔
لوگوں نے بتایا کہ انہیں اب ہاکی دیکھنے کا شوق بھی نہیں رہا۔ بعض نے کہا کہ ان کے سکول کالجز میں بھی ہاکی کی ٹیمیں نہیں رہیں۔
اس کم علمی پر تعجب کی ضرورت نہیں۔ کئی دہائیوں تک عالمی سطح پر ہاکی میں راج کرنے والا ملک اب نہ ورلڈ کپ اور نہ ہی اولمپکس کے لیے کوالیفائی کر پاتا ہے۔
32 ہاکی ٹیمز کی عالمی رینکنگ میں اکثر پہلی تین پوزیشنز پر رہنے والی ہاکی ٹیم اب 17ویں نمبر پر ہے۔
ٹوکیو میں اولمپکس مقابلوں کے لیے پاکستان نے اس بار بھی کوالیفائی نہیں کیا لہٰذا گذشتہ کئی سالوں کی طرح اس بار بھی ہمارے کھلاڑی گھر بیٹھ کر یہ مقابلے ٹی وی پر دیکھیں گے۔
ماضی میں پاکستان نے ملبرن مقابلوں کے دوران 1956 میں سلور میڈل جیتا، 1960 اٹلی میں گولڈ میڈل اپنے نام کیا، میکسیکو میں ہونے والے عالمی مقابلوں میں سونے کا تمغہ جیتا۔
ٹیم نے 1964 میں ٹوکیو میں سلور میڈل اپنے نام کیا، میکسیکو میں 1968 کے دوران طلائی، 1972 میونخ میں چاندی کا تمغہ، 1976 مونٹریال میں کانسی، 1984 کے دوران لاس اینجلس میں طلائی اور 1988 میں بارسلونا میں کانسی کے تمغے جیتے۔
آج کی بات کریں تو عالمی سطح پر صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے ہاکی کے بیشتر قومی ستارے کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
نئے کھلاڑی بھی مالی بحران اور سہولیات نہ ہونے کے باعث اس طرف توجہ نہیں دیتے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس خصوصی رپورٹ میں ہاکی کی زبوں حالی پر تفصیلی نظر ڈالی ہے۔
سابق اولپمپیئن اب علاج کے لیے بھی حکومت کو دیکھ رہے ہیں، جس کی ایک تازہ مثال سابق اولمپیئن نوید عالم ہیں، جنہیں اپنے کینسر کے علاج کے لیے شوکت خانم ہسپتال نے 40 سے 50 لاکھ روپے کا خرچ بتایا۔
ایسے میں ان کے ساتھی کھلاڑیوں شہباز سینیئر اور طاہر زمان کو ان کی امداد کے لیے آواز بلند کرنی پڑی۔
بعد ازاں سندھ حکومت نے ان کے مکمل علاج کے لیے نو جولائی، 2021 کو شوکت خانم ہسپتال کی انتظامیہ کو خط لکھ دیا۔
تاہم ان سب کوششوں کے باوجود ان کا بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے 13 جولائی کو انتقال ہو گیا۔
اس قومی کھیل کا زوال 1994 سے شروع ہوا کیونکہ اس کے بعد کوئی بھی اعزاز پاکستان کو نہ ملا۔ اس شعبے سے وابستہ صنعت بھی مالی بحران کا شکار ہے۔
ہاکی سے وابستہ افراد اس زوال کی کئی وجوہات بیان کرتے ہیں۔ جن میں سے پانچ بڑی وجوہات درج ذیل ہیں۔
- حکومتی فنڈز نہ ملنے پر ہاکی فیڈریشن کی مالی مشکلات۔
- حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے کھلاڑیوں کو کنٹریکٹ دینے میں عدم دلچسپی۔
- بڑے تعلیمی اداروں میں سپورٹس کی بنیاد پر داخلوں کی بندش۔
- سرکاری ونجی محکموں میں کھلاڑیوں کی کھیلوں کی بنیاد پر بھرتی میں عدم دلچسپی۔
- نئے کھلاڑیوں کو تیار کرنے کے لیے مقامی میدانوں میں آسٹروٹرف کا نہ ہونا۔
حکومتی فنڈز نہ ملنے سے کیا مشکلات ہیں؟
پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکریٹری اور سابق اولمپیئن آصف باجوہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سب سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ ہاکی ابھی تک امیچور گیم ہے جسے پروفیشنل کھیل کا درجہ نہیں دیا گیا۔
’ہم نے عالمی ہاکی فیڈریشن سے درخواست کی کہ اسے پروفیشنل گیم قرار دیا جائے تاکہ کارپوریٹس آئیں اور دیگر کھیلوں کی طرح اس میں سرمایہ کاری کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ہاکی میں اتنا شاندار ماضی ہے کہ شاید کسی کھیل کا نہ ہو۔
’ہم نے چار ورلڈ کپ اور تین اولمپکس گولڈ میڈلز جیتے۔ دنیا کی بڑی بڑی ٹیموں کو شکست دے کر کئی ریجنل مقابلے جیتے اور ناقابل شکست رہے۔ بڑے بڑے کھلاڑی پیدا کیے۔‘
افسوس کی بات یہ ہے کہ اتنی شاندار کارکردگی کے باوجود ہاکی کبھی بھی کسی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہی۔
آصف باجوہ کے مطابق ہاکی فیڈریشن مکمل طور پر حکومتی فنڈز اور سپیشل گرانٹس پر انحصار کرتی ہے جو اب نہیں مل رہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ مایوسی کی اس صورت حال میں بہتری کی کوئی امید ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاکی فیڈریشن کی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی ہے۔
’انہوں نے ہاکی فیڈریشن کو فنڈز جاری کرنے اور اس کی بہتری کے لیے اقدامات کی یقین دہانی تو کرائی ہے مگر اس میں ہمیں وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ گراؤنڈز آباد کرنے کے لیے صوبائی حکومتوں کا تعاون بھی چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ہاکی کی بہتری کے لیے ہم نے تین کیٹگریز میں کھلاڑیوں کو سینٹرل کنٹریکٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔
پہلے مرحلے میں پنجاب اور سندھ حکومت کے تعاون سے صوبائی ہیڈ کوارٹرز میں ہاکی سکول آف ایکسیلنس بنائے جائیں گے جہاں نئے کھلاڑیوں کو تربیت دی جائے گی۔
’عالمی سطح پر کھلاڑیوں کو مقابلوں کے لیے تیار کرنے کے لیے پاکستان سپر لیگ کی طرز پر ہاکی لیگ کا انعقاد کرنا چاہتے ہیں تاکہ دیگر ممالک کے کھلاڑی بھی یہاں آئیں اور ہمارے پلیئرز کو پیسہ کمانے کا موقع بھی ملے۔‘
جہاں تک پاکستان ٹیم کی ورلڈ کپ یا اولمپکس میں کوالیفائی نہ کرنے کا سوال ہے تو آئندہ ایک دو سال میں تیاری کر رہے ہیں کہ تمام عالمی مقابلوں میں حصہ لینے کے قابل ہو جائیں۔
کھلاڑیوں کے سینٹرل کنٹریکٹ
پاکستان ہاکی فیڈریشن نے چند دن پہلے ہاکی پلیئرز کو تین کیٹگریز میں سینٹرل کنٹریکٹ دینے کا اعلان کیا مگر قومی ٹیم کے کھلاڑیوں نے اس پر مایوسی کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ اب تک مالی مشکلات سے دوچار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہاکی ایک مہنگا کھیل ہے جسے کھیلنے کے لیے مکمل کٹ خود خریدنی پڑتی ہے اور خوراک کا بھی خود بندوبست کرنا پڑتا ہے۔
ان کے مطابق کھلاڑیوں کو ایسی سہولیات میسر نہیں کہ وہ عالمی مقابلوں میں بہتر کارکردگی دکھا سکیں۔ تاہم ہاکی فیڈریشن کے پاس بھی اتنے فنڈز نہیں کہ وہ کھلاڑیوں کے اخراجات پورے کر سکے۔
اس کے برعکسں کرکٹ کھلاڑیوں کی صورت حال یہ ہے کہ وہ مالی طور پر مستحکم ہوتے ہیں اور انہیں شہرت بھی غیرمعمولی ملتی ہے جس کی وجہ سے آج کل ہر نوجوان کرکٹ کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے۔
تعلیمی اداروں میں کھیل کی بنیاد پر داخلوں میں کمی
سابق اولمپیئن اختر رسول کے مطابق ہاکی میں بدحالی کی سب سے بڑی وجہ تعلیمی اداروں میں سپورٹس کی بنیاد پر بچوں کی داخلوں میں عدم دلچسپی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کے زمانے میں بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں سپورٹس کی بنیاد پر کھلاڑیوں کے داخلوں کا کوٹہ رکھا جاتا تھا اور کھیلوں کو فروغ دینے کے لیے کوچ موجود ہوتے تھے۔
’کھلاڑی تعلیم کے ساتھ ساتھ گیم بھی کھیلتے تھے اور یوں نچلی سطح سے پلیئرز پیدا ہوتے تھے۔‘
ان کے مطابق اب پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہوں یا سرکاری، کھیل کی بنیاد پر داخلوں میں دلچسپی نہیں لیتے اور نہ ہی بیشتر اداروں میں کھیلوں کے میدان ہیں۔
نہ ان کی ٹیمز ہیں کہ وہاں بچے تعلیم کے ساتھ کھیلوں کی تربیت بھی حاصل کرسکیں۔ ہاکی کی اکیڈمیز بھی نہ ہونے کے برابر ہیں جو ہاکی کے زوال کی ایک بڑی وجہ ہیں۔
سرکاری و نجی محکموں میں بھرتیاں
قومی ہاکی ٹیم کے چیف سلیکٹر اور سابق کپتان منظور جونیئر نے کہا کہ سب سے بڑا مسئلہ کھلاڑیوں کے روزگار کا ہوتا ہے۔
’ہمارے زمانے میں سرکاری اداروں میں نوکریاں کھیلوں کی بنیاد پر بھی ملتی تھیں۔ محکمے کھلاڑیوں کو بھرتی کر کے ٹیمز بناتے تھے لیکن اب زیادہ تر کرکٹ کے کھلاڑیوں کو ہی ترجیح دی جاتی ہے جبکہ ہاکی کے پلیئرز کو اس بنیاد پر نوکری دینے کا رجحان بہت کم ہو چکا ہے۔ پہلے اس بنیاد پر کھلاڑیوں کو نوکری دے کر ان کے مالی معاملات کا خیال رکھا جاتا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ محکمہ پولیس، فوج، پی ٹی سی ایل، سوئی گیس، واپڈا، پی آئی اے اور نجی بینکس میں کھلاڑیوں کو دوسرے ملازمین کی طرح نوکری ملتی رہی ہے۔
منظور جونیئر کے مطابق ہاکی کےسابق اولپمیئن منیر ڈار پولیس میں بھرتی ہوئے اور ڈی آئی جی کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے، اس وقت کھلاڑی ہر طرح سے مطمئن ہوتے تھے۔
’لیکن اب ایک دو کے علاوہ باقی محکمے ہاکی پلیئرز کو نوکریاں دینے سے گریز کرتے ہیں۔ مالی مشکلات کے باعث اچھے پلیئر کھیلنا چھوڑ کر روزگار کمانے لگ جاتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان ہاکی کے جونیئر اور سینیئر مقابلوں کے لیے 400 کھلاڑی موجود ہیں جبکہ رضوان سینیئر کو کپتان بنایا ہوا ہے۔ ملکی اور غیرملکی مقابلوں کے لیے ان میں سے کارکردگی کی بنیاد پر کھلاڑی منتخب کیے جاتے ہیں۔
’افسوس اس وقت ہوتا ہے جب معلوم ہو کہ کئی لڑکے اس لیے پریکٹس نہیں کرتے کہ انہیں روزگار بھی کمانا ہوتا ہے۔ یہ فکر ان کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہے۔‘
منظور جونیئر نے کہا کہ وہ مذید پردہ نہیں اٹھانا چاہتے کہ محدود وسائل میں ہاکی فیڈریشن کیسے چل رہی ہے۔
تاہم ہاکی فیڈریشن کے صدر بریگیڈیئر ریٹائرڈ خالد سجاد کھوکھر کی منظوری سے ٹاپ 20 کھلاڑیوں کو سینٹرل کنٹریکٹ کی پیشکش کریں گے۔
سینٹرل کنٹریکٹ میں کھلاڑیوں کو بالحاظ پرفارمنس اے، بی اور سی کیٹگری میں رکھا جائے گا۔ اے کیٹگری کے کھلاڑی کو 50 ہزار، بی کو 40 اور سی کو 30 ہزار روپے ملیں گے۔
ہاکی فیڈریشن کے ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لاہور کے جس ہاکی سٹیڈیم میں عالمی مقابلوں کا انعقاد ہوا وہ اب اس قابل نہیں کہ وہاں دوبارہ عالمی سطح کے میچ ہوں۔
کراچی میں عبدالستار ایدھی ہاکی سٹیڈیم کے ساتھ جو مارکیٹس ہیں ان کا ماہانہ کرایہ 40 سے 50 لاکھ روپے ہے، جس پر ہاکی فیڈریشن اپنا نظام چلاتی ہے ورنہ تالے لگ گئے ہوتے۔
آسٹروٹرف نہ ہونا
عالمی سطح پر جب ہاکی میں آسٹرو ٹرف متعارف کروایا گیا تو پاکستانی ٹیم کے بیشتر کھلاڑی، جو عام گراؤنڈز سے سیکھ کر آگے آتے تھے، وہ زیادہ بہتر کارکردگی نہ دکھا سکے۔ اس طرح ٹیم کامیابیوں کا سلسلہ برقرار نہ رکھ سکی۔
سینیئر کیمپ کے جن کھلاڑیوں سے بات ہوئی انہوں نے کہا کہ ہاکی گلی محلوں کا کھیل نہیں اس کے لیے گراؤنڈ، وہ بھی آسٹروٹرف بچھا ہوا ہونا چاہیے، تب جا کرعالمی سطح کے مقابلوں کی پریکٹس ممکن ہے۔
قومی ٹیم کے بیشتر کھلاڑیوں کا تعلق دیہی علاقوں اور پسماندہ شہروں سے ہوتا ہے جو جنون کے تحت ہاکی کھیلتے ہیں مگر انہیں آسٹروٹرف بچھا گراونڈ صرف ضلع یا صوبائی سطح کے ٹورنامنٹ میں ہی میسر ہوتا ہے۔ معمول میں انہیں عام گراؤنڈز میں ہی کھیلنا پڑتا ہے۔
منظور جونیئر نے کہا کہ آسٹروٹرف سے آراستہ گراؤنڈ میں کھیلتے ہوئے لڑکوں کو واقعی بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
لیکن اب ہاکی فیڈریشن صوبائی حکومتوں کے تعاون سے ضلعے کی سطح پرمیدانوں میں آسٹروٹرف بچھوا رہی ہے جس کے نتائج توقع ہے کہ آئندہ ایک دو سال میں آنا شروع ہوں گے۔
ہاکی سے وابستہ صنعت بھی بدحال
سیالکوٹ میں گذشتہ کئی دھائیوں سے ہاکی بنانے والے برینڈ ملک برادرز(MB) کے مالک علی ملک نے بتایا کہ ان کے آباؤ اجداد نے 1960 سے ہاکی بنانا شروع کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب ان کی تیسری نسل یہ کاروبار کرتی ہے۔ پورے سیالکوٹ میں سب سے بڑا ہاکی بنانے والا ان کا خاندان تھا، لیکن ہاکی کی بدحالی سے ان کا کروڑوں روپے منافع کا کاروبار بھی کم ہوکر لاکھوں میں آ گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اب کئی سالوں سے مشینری بند ہے اور ملازمین کی تنخواہ بھی جیب سے دینی پڑ رہی ہے۔
علی ملک کے مطابق لکڑی کی ہاکی تو ختم ہی ہو کر رہ گئی۔ ’جو سٹاک ہم نے تیار کیا تھا وہ جگہ جگہ پڑا ہے مگر گذشتہ کئی سالوں سے کاربن گرے فائیڈ (فائبر) کی بنی ہاکی استعمال ہونے لگی ہے۔‘
انہوں نے فائبر ہاکی تیار کرنے کے لیے کروڑوں روپے کی لاگت سے جدید ہاکی تیار کرنا شروع کی لیکن چند سال بعد اس کا استعمال بھی نہ ہونے کے برابر ہوگیا کیونکہ لوگوں نے ہاکی کھیلنا ہی چھوڑ دی۔
انہوں نے کہا کہ یہ ہاکی زیادہ پاکستان جبکہ دیگر ممالک میں بھی برآمد ہوتی تھی لیکن گذشتہ 10 سال سے ہاکی فیڈریشن یا کسی بڑے سپورٹس کے ادارے نے ہاکی نہیں خریدی۔
جدید ہاکی سٹکس دیگر ممالک میں بھی تیار ہونے لگی ہیں لہٰذا برآمدات میں بھی کمی آئی ہے جس سے اب ان کی یہ نئی مشینری جو آرڈر پورا کرنے کے لیے دن رات چلتی تھی بند پڑی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہاکی بنانے کے لیے رکھے گئے ملازمین سے کوئی اور کام کروا رہے ہیں یا پھر آرڈر ملنے پر تھوڑی بہت ہاکی بناتے ہیں۔
علی ملک نے کہا کہ قومی کھیل کی بدحالی کے باعث ہمارا کاروبار تو متاثر ہوا ہی لیکن ٹیم عالمی مقابلوں سے بھی باہر ہوگئی۔
اس لیے اب ہاکی کی برینڈنگ کے لیے دوسرے ممالک کے کھلاڑیوں سے معاہدے کرنا پڑتے ہیں جو تکلیف دہ ہوتا ہے۔
کئی دہائیوں پہلے ٹی وی یا ریڈیو پر سپورٹس کمنٹیٹرز کی عالمی ہاکی میچوں کے دوران چیختی ہوئی معروف صدائیں ’سمیع اللہ سے کلیم اللہ اور اور گول‘ بند ہوتے ہی گیند آگے پاس ہی نہیں ہوسکا۔