ایران سے کشیدگی: ٹرمپ ماضی کی غلطی دہرانے جارہے ہیں

اگر جنگ چھڑتی ہے تو یہ ایک مشکل جنگ ہو گی۔ خطے بھر میں پھیلے شیعہ خود کو خطرے میں تصور کریں گے جبکہ امریکہ کے لیے پہلا دن اچھا، لیکن اس کے بعد یہ ایک مکڑی کے جالے میں تبدیل ہو جاتا ہے اور تمام منصوبے نظر نہ آنے والے خطروں کے سامنے ناکام ہو جاتے ہیں۔

امریکی صدر  ڈونلڈ ٹرمپ پابندیوں کے ذریعے ایران کو قابو کرنا چاہتے ہیں جبکہ قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو جنگ کو زیادہ بہتر آپشن مانتے ہیں۔ فائل تصویر

ایران کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران امریکہ گذشتہ 40 سال میں بار بار کی جانے والی غلطی کو دہرانے جا رہا ہے۔ یہ غلطی خطے کو وسیع پیمانے پر شیعہ سنی جنگ میں دھکیلنا ہے۔ میں اپنے صحافتی کیریئر کا زیادہ تر حصہ مشرق وسطیٰ میں گزار چکا ہوں۔ خاص طور پر شاہ کی حکومت کے خاتمے اور امریکہ کی جانب سے خطے میں لڑی جانے والی جنگوں کو غور سے دیکھ چکا ہوں، جہاں مذہبی بنیادوں پر لڑی جانے والی جنگوں کے بارے میں امریکہ کی جانب سے ہمیشہ غلط اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ امریکہ ایک ایسی جنگ میں یا تو شکست کھا جاتا ہے یا جیت نہیں پاتا جس میں اسے واضح برتری حاصل رہی ہوتی ہے۔

ایسا کم از کم چار بار ہو چکا ہے۔ یہ لبنان میں 1982 میں اسرائیلی جارحیت کے بعد ہوا۔ جس کا ٹرننگ پوائنٹ بیروت میں امریکی فوجیوں پر ہونے والا حملہ تھا جس میں 241 امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ ایران اور عراق کی آٹھ سالہ جنگ میں، جس میں مغرب اور سنی عرب ریاستیں صدام حسین کی پشت پناہی کر رہی تھیں، لیکن یہ کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوئی۔ صدام حکومت کے خاتمے کے بعد عراق کو ایران مخالف اڈے میں تبدیل کرنے کی کوشش جو بری طرح ناکام ہوئی۔ اسی طرح 2011 کے بعد مغرب اور سعودی عرب، قطر، ترکی کی ایران کے واحد عرب اتحادی ملک شام میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کی کوشش بھی ناکام رہی۔

 یہ چال پھر سے چلی جا رہی ہے اور یہ پہلے جیسی وجوہات کی وجہ سے ممکنہ طور پر ناکام ہو سکتی ہے۔ امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ صرف ایران نہیں بلکہ پورے خطے کے شیعہ گروہوں کے خلاف لڑ رہا ہوگا، جو کہ پورے مشرق وسطیٰ میں افغانستان سے بحر روم تک پھیلے ہوئے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ پابندیوں کے ذریعے ایران کو قابو کرنا چاہتے ہیں جبکہ قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو جنگ کو زیادہ بہتر آپشن مانتے ہیں، لیکن تینوں لبنان کی حزب اللہ اور عراق میں حشد الشعبی نامی مسلح گروہوں کو ایران کے پراکسیز سمجھتے ہیں۔ گو کہ یہ مقامی شیعہ آبادی کے اندر سے اٹھنے والی تحاریک ہیں جو لبنان میں کثرت رکھتی ہیں، عراق میں ان کی واضح اکثریت ہے اور شام میں مقتدر اقلیت ہیں۔ ایران ان پر کسی نہ کسی حد تک اثر ضرور رکھتا ہے لیکن یہ ایرانی کٹھ پتلیاں نہیں ہیں کہ ایرانی حمایت کے خاتمے کے بعد ایک دم سے غائب ہو جائیں گی۔

مشرق وسطیٰ میں قومی ریاستوں کے ساتھ وفاداری مذہبی بنیادوں پر پائی جانے والی وابستگی سے کمزور ہے۔ جیسے کہ علوی، شام میں پایا جانے والا 20 لاکھ شیعہ افراد کا گروہ، جس سے حکمران بشار الاسد اور ان کے قرابت دار تعلق رکھتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی مذہبی شناخت کے دفاع کے لیے موت قبول کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے پاسپورٹ پر کسی شہریت کا درج ہونا ضروری نہیں۔

جب شدت پسند مسلح گروپ داعش کی جانب سے عراقی فوج کو شکست دی گئی اور 2014 میں موصل پر قبضہ کیا گیا تو  یہ آیت اللہ العظمیٰ علی السیستانی کا فتوی ہی تھا جس نے سینکڑوں رضاکاروں کو بغداد کے دفاع پر آمادہ کیا۔ اس سے پہلے شام میں حمص اور دمشق میں جنگ کے دوران شامی حکومت کی طاقت کا مرکز سمجھے جانے والے اضلاع غیر سنی تھے۔ حزب مخالف کی جانب سے ان اہم علاقوں کو قبضے میں لینے کی کوشش کی گئی لیکن وہاں کے رہائشی دروز (شامی نسل گروہ) اور مسیحی جنگجوؤں نے ان علاقوں کا دفاع کیا۔

ٹرمپ کے سعودی، اماراتی اور اسرائیلی اتحادی نہیں چاہتے کہ واشنگٹن یہ بات سمجھے۔ ان کی نظر میں تمام شیعہ گروہ ایران کی کٹھ پتلی ہیں۔ سعودیوں کی نظر میں یمن سے داغے جانے والا ہر راکٹ براہ راست ایران کے حکم پر فائر کیا جا رہا ہے۔ باوجود اس کے کہ ان ہتھیاروں کی رینج اور صلاحیت تباہ کن سعودی بمباری کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

مثال کے طور پر جمعرات کو ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے بھائی اور نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان کی جانب سے ٹوئٹر پر یہ دعویٰ کیا گیا کہ سعودی پمپنگ سٹیشنز پر کیے جانے والے ڈرون حملے ایران کے حکم پر کیے گئے۔ ان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ:’یہ مسلح گروہ خطے میں صرف ایران کے توسیع پسندانہ عزائم کے اوزار ہیں۔‘

یہ شیعہ گروہوں کے بارے میں خوف زدہ سنی حکمرانوں کی جانب سے دیا جانے والا کوئی نیا رد عمل نہیں ہے، جس میں بغیر کسی تفریق کے ہر چیز کو ایران سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میں 2011 میں بحرین میں تھا جب سنی اقلیتی بادشاہت کی جانب سے اکثریتی شیعہ آبادی کے مظاہروں کو سعودی فوج کی مدد سے سختی سے کچل دیا گیا۔ تشدد کے شکار لوگوں میں شیعہ ڈاکٹرز بھی تھے جنہوں نے ہسپتالوں میں زخمی مظاہرین کا علاج کیا تھا۔ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے ایران کی ہدایات پر انقلاب کو بڑھاوا دیا تھا۔

اس قسم کی لغو سازشی تھیوریاں واشنگٹن میں پہلے نہیں سنی جاتی تھیں لیکن ٹرمپ اور اس کے قریبی لوگ یہ بات اعلانیہ طور پر کر چکے ہیں کہ ’دہشتگردی‘ کے ہر واقعے میں ایرانی کردار نظر آتا ہے۔ یہ یقین ایران اور امریکہ کے درمیان جنگ کا شعلہ بھڑکا سکتا ہے کیونکہ مشرق وسطیٰ میں بڑی تعداد میں ایسے شیعہ موجود ہیں جو امریکی پالیسیوں سے نالاں ہیں اور انفرادی طور پر کسی امریکی مفاد پر حملہ کر سکتے ہیں۔

ایسا ان ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی جانب سے بھی کیا جا سکتا ہے جو کوئی ایسی اشتعال انگیز کارروائی رچا کر امریکہ ایران جنگ شروع کروا سکتے ہیں۔ ایسا ان کے مفاد میں ہو گا۔

لیکن ایسی جنگ سے کیا حاصل ہو گا؟ ایران پر فوجی یا سیاسی جارحیت کوئی قابل عمل حل نہیں۔ اس لیے یہ جنگ فیصلہ کن نہیں ہو گی۔ فضائی کارروائی اور سخت سمندری ناکہ بندی ممکن ہے لیکن ایران کی جانب سے مختلف پریشر پوائنٹس پر اس کا جواب دیا جا سکتا ہے، جن میں آبنائے ہرمز میں بارودی سرنگیں بچھانے سے خلیج کی مغربی سمت سعودی تیل کی تنصیبات پر راکٹ حملے شامل ہیں۔

امریکہ کی طرف سے ایران کی جانب سے مقامی حامیوں کو شام، عراق اور لبنان میں استعمال کرنے کی اعلانیہ مذمت سامنے آنا کوئی مبالغہ نہیں، لیکن اگر یہ حقیقت بھی ہے تو اس میں کافی تاخیر ہو چکی ہے اور ایران اس وقت ان تینوں ملکوں میں فاتح نظر آرہا ہے۔

اگر جنگ چھڑتی ہے تو یہ ایک مشکل جنگ ہو گی۔ خطے بھر میں پھیلے شیعہ خود کو خطرے میں تصور کریں گے جبکہ امریکہ کے لیے پہلا دن اچھا ہوگا جو کہ عمومی طور پر مشرق وسطیٰ میں جنگ شروع کرنے والوں کے لیے ہوتا ہی ہے لیکن اس کے بعد یہ ایک مکڑی کے جالے میں تبدیل ہو جاتا ہے اور تمام منصوبے نظر نہ آنے والے خطروں کے سامنے ناکام ہو جاتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر