مہمند: چہل پہل کی واپسی تو بس سطحی باتیں ہیں

باجوڑ کے بعد اب ہم ’علاقہ غیر سے علاقہ خیر تک‘ کی سیریز میں پہنچے ہیں مہمند جہاں انضمام کے بعد ترقی کا بےچینی سے انتظار ہو رہا ہے۔

پاکستان میں شدت پسندی کی وبا کے ابتدائی سال تھے جب 2005 میں قبائلی علاقے مہمند جانا ہوا۔ پشاور سے اس خطے میں قتل و غارت گری کی داستانیں تو 2001 کے بعد سے تقریباً روزانہ رپورٹ کرتے رہے لیکن خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد پہلی مرتبہ 14 سال بعد دوبارہ جانا ہوا۔

زبان پر مہمند ایجنسی لفظ ایسا چپکا ہوا تھا کہ ہٹ کے نہیں دے رہا تھا۔ میرے بچپن سے استعمال کیا جانے والا لفظ ایجنسی یہاں اب مکمل طور پر متروک ہوچکا ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ معیوب سمجھا جاتا ہے۔ مقامی قبائلیوں نے بار بار ٹوک کر یاد دلایا کہ بھائی اب یہاں کوئی ایجنسی نہیں رہی بلکہ یہ سنگلاخ پہاڑی علاقہ ہٹے کٹے ضلع کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

خیبر پختونخوا کے اس نئے ضلع مہمند کا صدر مقام غلنئی ہے۔ برسوں بعد بھی بازار حجم کے اعتبار سے تقریباً ویسا ہی ہے۔ نہ کوئی بڑی نئی تعمیرات کا اضافہ ہوا نہ کوئی آبادی میں۔ لیکن سڑکیں زیادہ صاف ستھری بہتر حالت میں دکھائی دیں۔ غلنئی بازار سے گزرنے والی سڑک ہی مہمند کو باجوڑ سے ملاتی ہے تو اکثر ٹریفک باجوڑ کی بھی یہیں سے گزرتی ہے۔ صاف صاف دکھائی دینے کی ایک وجہ تو شاید موسم بہار کی بارشیں ہوسکتی ہیں یا پھر معلوم نہیں دہشت گردی کے خوف کی دھول چھٹ جانے کی وجہ سے ایسا تھا۔

اس ایجنسی، نہیں معاف کیجیے گا، ضلع میں چہل پہل کی واپسی سطحی سی باتیں ہیں۔ ملک میں جہاں بھی بازاروں میں بم پھٹے ہیں وہاں اگلے دن کاروبار دوبارہ شروع ہو جاتے رہے ہیں۔ لیکن اگر آپ ذرا سا کریدیں تو کافی مسائل سامنے آتے ہیں۔ مرکزی و صوبائی حکومتیں کہتی ہیں کہ انہوں نے اس تباہ حال سات اضلاع کے لیے ایک دس سالہ منصوبہ تیار کیا ہے جس میں ہر سال تقریباً سو ارب روپے ترقی پر خرچ ہوں گے۔

ان اعلانات کی وجہ سے لوگوں کی توقعات بھی کافی بڑھی ہیں۔ مہمند میں لوگوں نے بتایا کہ پینے کا پانی ان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ دو دریاؤں، کابل اور سوات، دو اطراف سے گزر کر جاتے ہیں لیکن مہمند کو پینے کے پانی کے مسئلے سے چھٹکارا نہیں دلاتے ہیں۔ اس کے لیے نئے ڈیم بنانے کی ضرورت ہے، دریائے کابل سے پائپ لائن لانے کی ضرورت ہے۔ مہمند ڈیم کا افتتاح تو وزیر اعظم نے کر دیا ہے لیکن اس سے مقامی لوگوں کو کتنا فائدہ ہوگا کسی کو تفصیل سے نہیں بتایا گیا ہے۔

شدت پسندی کی یلغار کے دوران تو یہاں کئی شدت پسند تنظیمیں سامنے آئیں۔ بعض اندرونی اختلافات تو بعض ضرب عضب کے ہاتھوں کمزور پڑ گئیں لیکن دو ابھی بھی سکیورٹی حکام کے لیے درد سر بنی ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک حزب الحرار کا تعلق اسی خطے سے ہے جو جماعت الحرار کی بگڑی ہوئی شکل بھی کہی جاسکتی ہے۔ اب تو وہ کہیں افغانستان میں موجود ہے لیکن حملوں کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی طرح اب بھی قبول کر رہی ہے۔ اس لیے یہاں شدت پسندی کے سائے مکمل طور پر ابھی چھٹے نہیں ہیں۔

یہی خوف یہاں عام لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ لوگ انضمام اور اس کے فضائل کے درمیان کہیں اٹکے ہوئے ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ اگر انضمام کے اثرات جلد نمودار نہ ہوئے تو یہ خلاء سے دوبارہ کہیں منفی قوتیں فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کریں۔ لوگوں کے ذہنوں پر شدت پسندی کی وجہ سے جو خوف اور صدمے کے اثرات رہے ہیں ان کو مٹانے کی ضرورت ہے اور یہ کافی وقت طلب عمل ہے۔

قبائلی علاقوں کا انضمام تو لوگ کہتے ہیں کاغذی حد تک ہوا ہے لیکن اس پر عمل درآمد ہونا ابھی باقی ہے۔ سرکاری اعلان شدہ رقم یہاں آئے گی کہاں سے، کیسے خرچ ہو گی اور اس سے ان کی زندگی بہتر بنانے میں کیا مدد ملے گی۔ سب اسی نظریں اسی پر لگی ہیں۔

مہمند میں پیپلز پارٹی کے صدر ڈاکٹر فاروق افضل نے کہا کہ یہ رقم سکیورٹی پوسٹوں پر نہیں، سرحد پر نہیں بلکہ لوگوں پر لگنی چاہیے۔ ’ہمارے خدشات دور کرنے کے لیے قبائلی مشران پر مشتمل ترقیاتی عمل کی نگرانی کی کمیٹی بنانی چاہیے۔‘

مہمند میں شدت پسندی کی ٹائم لائن

2003

پاکستانی فوج پہلی مرتبہ 2003 میں تعینات کی گئی لیکن مقامی لوگوں کو شکایت تھی کہ اس تعیناتی بھی تاخیر ہوئی تھی جس کی وجہ سے شدت پسندوں کو قدم جمانے کا وقت ملا۔

جولائی 2007

اسلام آباد میں لال مسجد محاصرے کے جان لیوا انداز میں اختتام پر ردعمل دکھائی دیا اور تقریباً دو سو شدت پسندوں نے حاجی صاحب تورنگزئی کے مزار پر قبضہ کرکے قریبی مسجد کو لال مسجد کا نام دے دیا تھا۔ اس قبضے سے وہاں شدت پسندوں کے رہنما عبدالولی عرف عمر خالد کا نام پہلی مرتبہ سامنے آیا۔ کشمیر اور افغانستان میں لڑنے کا تجربہ رکھنے والا یہ نوجوان اس انداز سے واپس لوٹا۔

2012

پاکستان فوج نے مہمند کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کا اعلان کیا اور اس کی جنگی علاقے کی حیثیت ختم کر دی۔

مہمند سے جاتے ہوئے مقامی لوگوں سے اس سڑک کنارے ہوٹل کے بارے میں دریافت کرتا رہا کہ جہاں 2005 میں رک کر چائے پی تھی اور ساتھ میں تین لطیفے مفت سنے تھے۔ یہ منفرد ہوٹل تھا مہمند میں غازی بیگ کے مقام پر اور اسے انفرادیت دلانے والا پشتو کے معروف مزاحیہ فنکار اور شاعر میراوس تھے۔ اب وہ وہاں نہیں ملے۔

اس بےپناہ صلاحیتوں کے مالک فنکار کا تعلق تو بنیادی طور پر چارسدہ سے ہے، لیکن گردش زمانہ نے انہیں اس وقت ان سنگلاخ پہاڑوں میں قہقہے بکھیرنے پر مجبور کر دیا تھا۔

ہوٹل میں داخل ہوا تو اس وقت میراوس کانوں میں ڈاکٹری آلہ یعنی سٹیتھوسکوپ لگائے اور منہ سے وِسل بجا کر ایک شخص کا معائنہ کر کے مہمانوں کی تفریح کر رہے تھے۔ ان کا وہ لطیفہ مجھے آج بھی یاد ہے جو انہوں نے مجھے سنایا تھا۔ ’ایک شہری پہلی مرتبہ گاؤں گیا تو ایک دیہاتی سے پوچھا کہ اس گائے کے سینگ کیوں نہیں۔ دیہاتی نے جواب دیا کہ بعض کے لڑائی میں ٹوٹ جاتے ہیں، بعض کے ہم نکال دیتے ہیں اور چند کے قدرتی طور پر نہیں ہوتے لیکن جس کے بارے میں آپ دریافت کر رہے ہیں وہ تو گدھا ہے۔‘

خیر اس مرتبہ واپسی پر میراوس کا طنز و مزاح تو سنے کو نہیں ملا لیکن یکہ غنڈ میں صحافی دوست شمس مہمند کے گاؤں کی چائے روایتی قبائلی حجرے میں بیٹھ کر پینے کو ضرور ملی۔ چائے پر اس علاقے کی جغرافیائی صورتحال پر غور کیا۔

اگر کسی بھی نقشے پر آپ دیکھیں تو اس کا شدت پسندی کی لہر سے بچنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ تقریباً 23 سو مربع کلومیٹر پر مشتمل مہمند کے شمال میں باجوڑ، مشرق میں ملاکنڈ، جنوب میں خیبر اور مغرب میں افغانستان ہے۔

2007 میں وزیرستان اور باجوڑ کے بعد مہمند میں بھی شدت پسندوں نے معمول کےمطابق پہلے پہل حجاموں کو داڑھیاں منڈوانے، پولیو مہم کی مخالفت، موسیقی اور لڑکیوں کی تعلیم بند کروانے کے اقدامات سے اپنی پہلی اننگز کا آغاز کیا تھا۔

مہمند قبائل کا مسکن یہ علاقہ ابھی باقی ایجنسیوں کی طرح روزگار کے مواقع سے عاری خطہ ہے۔ بعض علاقوں میں تھوڑی بہت کھیتی باڑی یا سنگ مرمر کا کاروبار ہی قابل ذکر روزگار کے دو ذرائع قرار دیے جا سکتے ہیں۔

نئے نظام کے تحت عدالتیں بھی غلنئی کی بجائے شبقدر میں قائم کی گئی ہیں جس پر لوگوں کو شدید تحفظات ہیں۔ جعمیت علمائے اسلام کے مفتی مولانا محمد حاکم، جن کی جماعت کو انضمام سے نظریاتی اختلاف ہے، نے کہا: ’ہمارے لیے اپنے علاقے سے غلنئی آنا مشکل ہے، ہم کیسے مقدمات کی پیروی کے لیے شبقدر جائیں؟ پیسہ بھی زیادہ لگے گا اور وقت بھی۔‘

یہاں ایک وقت میں 37 جنازے بھی اٹھے ہیں اب ان قربانیوں کے بدلے نوجوان اپنا حصہ بھی مانگ رہے ہیں۔ اب حکومت نے 17 ہزار نوکریوں کا سبز باغ قبائلی علاقوں کے بےروزگاروں کو دکھایا ہے۔ اگر مقامی افراد کو ترجیح دی گئی تو بےروزگاری میں خاتمے میں کسی حد تک مدد ملے گی ورنہ ماضی کی مثال تو موجود ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان