دنیا کے خاتمے کی پیش گوئیاں کیوں ہوتی ہیں اور نتیجہ کیا نکلتا ہے؟

1986 سے لے کر آج تک دنیا کے خاتمے کی نہایت اعتماد سے کی گئی کم از کم 130 بے سر و پا پیش گوئیاں غلط ثابت ہو چکی ہیں۔

صدر ٹرمپ کے دیوانے مائیک لنڈیل اکتوبر 2020 میں ایک ریلی میں (اے ایف پی)

امریکی کاروباری شخصیت مائیک لنڈیل ٹرمپ کے دیوانہ وار پرستار ہیں۔ لیکن 2020 کے امریکی صدارتی انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے دھاندلی سے ٹرمپ کا راستہ روکنے کے بے سر و پا دعوے اور چندہ مہم کے بنیادی محرک مائیک لنڈیل کے لیے یہ دو ہفتے زیادہ اچھے نہیں رہے۔

پہلے تو نیو یارک کی ایک عدالت نے مشینیں تیار کرنے والی کمپنی کو مائیک لنڈیل کے خلاف ہتک عزت کی کارروائی باقاعدہ طور پر شروع کرنے کی اجازت دے دی جو اگر کامیاب ہو گئی تو لنڈیل کا دیوالیہ پٹ جائے گا۔

دوسرا بائبل کے انداز میں انتہائی وثوق سے کی گئی ان کی پیشین گوئی کہ 13 اگست، 2021 کے انتہائی خاص اور سازگار دن ٹرمپ دوبارہ صدر بن جائیں گے ناکامی سے دوچار ہو کر لاکھوں سامعین کے سامنے ان کی شرمندگی کا باعث بنی۔

اس سال کے اوائل میں لنڈیل نے کہا تھا کہ انہوں نے کسی طرح بھاری مقدار میں کمپیوٹر ڈیٹا اکٹھا کر لیا ہے جو 2020 کے الیکشن کے دوران الیکٹرانک مشینوں کے باہمی ربط کے دوران استعمال ہوا تھا۔

لنڈیل نے ایک کیبل ٹی وی چینل کو بتایا کہ ’13اگست بروز جمعہ صبح ہوتے ہی ہر کسی کی زبان پر یہی بات ہو گی، لوگ کہہ رہے ہوں گے جلدی کرو، آؤ اس الیکشن سے چھٹکارا حاصل کریں، حقدار کو اس کا حق دیں، ان کمیونسٹوں کو باہر نکال پھینکیں۔۔۔ ہممممممم۔۔۔ آپ جانتے ہیں۔۔۔ وہ قابض ہیں اور جب میں یہ کہتا ہوں تو وہ ایسا کریں گے۔۔۔۔۔ میں آپ کو ان لوگوں کے نام بتا دیتا ہوں جو اس میں ملوث تھے۔‘

بالآخر مقررہ دن آ گیا۔ 13 اگست کی صبح لنڈیل نے دنیا بھر کے میڈیا کو ’سائبر سکیورٹی سمپوزیم‘ آنے کی دعوت دی جہاں ان کے کمپیوٹر ماہرین حاصل کردہ خفیہ معلومات کا انکشاف کرنے کے لیے موجود تھے۔

یہ تقریب بظاہر بہت معقول نظر آ رہی تھی جس میں لنڈیل عمدہ سوٹ زیب تن کیے کمپیوٹر کے انتہائی ماہر لڑکوں کے ساتھ بیٹھے تھے جو دیو ہیکل پاوور پوائنٹ پر تیزی سے کمپیوٹر کے دھندلے کوڈ دی میٹرکس فلم کے پیچیدہ بیک گراؤنڈ گرافک کے انداز میں سکرول کیے چلے جا رہے تھے۔

جب سب سے اہم سوال ’بھاری مقدار میں ڈیٹا‘ کی باری آئی تو ماہرین نے مایوسی اور شرمندگی سے کہا کہ جو کچھ آپ نے دیکھا ہے اس سے کسی بھی طرح کوئی بات ثابت نہیں ہوتی۔

تقریب فوراً ابتری کا شکار ہوتے ہوئے ٹرمپ کی ریلیوں کی عمومی حالت میں تبدیل ہو گئی اور فوجی بغاوت کے نعرے لگانے لگی۔

لیکن اس سے پہلے لنڈیل کے تکیے، تولیوں اور غسل خانے سے متعلقہ دیگر اشیا کی تشہیر کے لیے بظاہر ایک عمر رسیدہ خاتون سٹیج پر یوں آئیں جیسے کسی اور دنیا سے نازل ہوئی ہوں۔

لنڈیل کی تقریب کی کوریج کے دوران سی این این اور یو ایس کیبل نیٹ ورک نے اپنی طرف سے انتہائی معتبر سائبر سکیورٹی ماہرین بلوائے ہوئے تھے تاکہ وہ کمپیوٹر کے ان کوڈز کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کریں۔ ان کے بقول ’یہ پلندے تو لغویات کے پلندے بھی نہیں، ان میں کچھ بھی نہیں۔‘

لنڈیل خود بھی پریشان اور غصے میں نظر آئے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ پوری طرح شکستہ دل تھے۔ لنڈیل کے ماہرین کے بقول یہ کہنا کہ کوئی فراڈ نہیں ہوا دراصل فراڈ پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔

اس کا سبب یہ ہے کہ ثبوت اس قدر دھماکہ خیز تھا کہ سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے چلنے والی تحریک ’بلیک لائیو میٹرز‘ (بی ایل ایم) اور ڈیموکریٹس مجبور ہو گئے کہ ماہرین کے پڑھنے سے پہلے وہ سمپوزیم میں گھس کر ان فائلوں کو ڈھونڈ کر ان میں ترمیم کر دیں۔

بڑی عمر کے قارئین کو شاید اندازہ ہو رہا ہو کہ اس میں کارٹون ’سکوبی ڈو‘ کی ہر قسط کے مرکزی خیال کی جھلک موجود ہے۔

لنڈیل کے بقول سی این این کسی اور کے ایما پر وہاں موجود تھا۔ انہوں نے کہا کہ بلیک لائیوز میٹر کے سرگرم اراکین ویڈیو ٹیکنیشنز کے روپ میں وہاں بھیجے گئے تھے۔

کیا کوئی یہ بات تسلیم کرے گا کہ سی این این نے ایسا نہیں کیا ہو گا؟ کیا کوئی اتنا کم عقل ہو سکتا ہے؟ میرے لیے یہ سب تکلیف دہ اور ناقابل یقین ہے۔

لنڈیل کے منتظمین میں سے ایک نے مظلومیت کی اداکاری کرتے ہوئے بظاہر دلی دکھ کا اظہار کیا کہ سی این این غنڈوں کا ایک گروہ ہے جس کا مقصد لوگوں کے خوشگوار لمحات تباہ کرنا ہے۔

اس نے چیختے ہوئے کہا ’یہ ہمیں حقائق کی جانچ پڑتال سے نہیں باز رکھ سکتے۔‘ یہ حقائق نہیں حقائق کی جانچ پرکھ تھی جو ان کی اس تازہ ترین شرمناک ناکامی کا باعث بنی۔

’اس کے بعد وہ ہمارے حقائق جانچنے کے راستے میں ہر وقت رکاوٹ بنیں گے۔‘

مائیک لنڈیل کے برعکس جو لوگ عرصہ دراز سے متوقع عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد اور ان سے وابستہ دنیا کے خاتمے جیسی اتنی ہی بڑی پیشین گوئیاں کرتے ہیں۔

وہ بالعموم وقت کا تعین کرتے ہوئے محتاط انداز میں کہتے ہیں کہ ’بہت جلد‘ یا ’جب صحیح وقت آیا‘ کیوں کہ یہ کسی طرح بھی مناسب نہیں کہ مستقبل میں کسی چیز کی پیشین گوئی کرتے ہوئے اس قدر یقین سے مخصوص تاریخ کا ذکر کیا جائے، جس کی تصدیق کسی مقبول عام اخبار یا میگزین کے زائچے پر سرسری نگاہ ڈالنے سے ہو جائے گی۔

1986 میں دی انڈپینڈنٹ کے اجرا سے لے کر آج تک دنیا کے خاتمے کی نہایت اعتماد سے کی گئی ایسی ہی کم از کم 130 بے سر و پا پیشین گوئیاں غلط ثابت ہو چکی ہیں۔

اس مجموعی تعداد میں فقط وہ پیشین گوئیاں شامل ہیں جو اچھی خاصی معقول اہمیت رکھنے والی کسی تنظیم کے ترجمان نے کیں جیسا کہ یہوواہ کے گواہ (دنیا بھر میں 80 لاکھ پیروکار)، بہائی مذہب (60 لاکھ ماننے والے) اور رپبلکن پارٹی سے وابستہ امریکہ کے صدر بننے کے امیدوار پیٹ رابرٹسن جیسے سینکڑوں بلکہ شاید ہزاروں خود ساختہ، آزاد پیشہ مستقبل بینوں نے دنیا کے خاتمے کی پیشین گوئیاں کیں، اور سیاروں کے تصادم اور کہکشاؤں کے پھٹنے سے متعلق زیادہ عملی اور سائنسی بنیادیں رکھنے والے نظریات آپ کے سامنے ہیں جو ناگزیر ہیں لیکن ان کی وقوع پذیری مستقبل میں اتنی دور ہے کہ ذرا بھی پریشانی کا باعث نہیں بنتی۔ 

یہاں تک کہ پاپ موسیقاروں نے بھی اس کا فائدہ اٹھایا۔ ڈیوڈ بوی کا 1972 میں نہایت مشہور ہونے والا گانا Five Years شاید بعض لوگوں کو یاد ہو جس میں پیشین گوئی کی گئی تھی کہ 1977 میں دنیا فنا ہو جائے گی۔

لیکن 1977 میں ایلوس پریسلے کی موت اور برطانیہ میں افراط زر کی شرح 15 فیصد تک پہنچنے کے سوا کوئی بھی غیر معمولی چیز پیش نہیں آئی۔

یہ باتیں ناگوار سہی، لیکن بہرحال ان سے دنیا ختم نہیں ہوئی۔ اسی طرح دنیا کے خاتمے سے متعلق فلمیں بہت عام ہیں لیکن بالعموم ان میں زمین پر کسی سیارچے کے ٹکرانے کے اثرات جیسی غیر مذہبی توجیہات پیش کی جاتی ہیں۔

ان کے پلاٹ Lars Van Trier  کی غیر روایتی سکینڈینیوین وجودیت پرستانہ کربناک فلموں سے لے کر ایسی معمولی درجے کی مقبول عام سائنس فکشن فلموں تک پھیلے ہوئے ہیں جن کا نام ہی اتنا عجیب و غریب ہوتا ہے کہ آپ کے دل میں انہیں دیکھنے کی خواہش کبھی بیدار نہیں ہوتی۔

یہاں تک کہ دنیا کے خاتمے سے متعلق ایک رومانوی مزاحیہ فلم Seeking a Friend for the End of the World  کے نام سے ہے جس کے ستاروں میں کیارا نائٹلی اور سٹیو کیرل شامل ہیں۔ سٹیو کیرل ٹی وی سیریز ’دی آفس‘ کے امریکی ورژن کے بھی سٹار تھے جس کے بارے میں کہا گیا کہ ’تباہ کن حالات کی عکاسی کرنے والی فارمولا فلم کی انتہائی مایوس کن شکل‘ (ورائٹی)، جسے ’ شدید ایڈیٹنگ کی ضرورت ہے۔‘

مذہب سے تحریک حاصل کرنے والے افراد کی تیار کردہ فلموں کی اپنی الگ دنیا ہے۔ متوقع کامیابی کے اعتبار سے 2000 جیسے انتہائی سازگار سال کے تجربے پر مبنی دنیا کے خاتمے پر انتہا پسندانہ ناول ’لیفٹ بی ہائنڈ‘  کو فلم میں ڈھالا گیا جس کے اندر مستقل قریب کے ایک واقعے کی پیشین گوئی کی گئی کہ دنیا کے خاتمے سے پہلے اچانک اور بغیر کسی انتباہ اہل ایمان کو غائب کر کے بہشت میں پہنچا دیا جائے گا۔

جیسا کہ فلم میں دکھایا گیا ہے غائب کرنے کا یہ عمل مزاحیہ، افسوسناک یا ڈرامائی نتائج کے ساتھ پھر بھی ہو کر رہے گا اگر اس وقت صاحب وجدان سواریوں سے بھرے ہوائی جہاز کو ہوا میں اڑا رہے ہوں۔

اس فلم میں بچوں جیسے چہرے والے، نوجوانی میں فلمی ستارے اور بعد میں ٹی وی پر مسیحی مبلغ کرک کیمرون شامل تھے جن کی وجہ شہرت یہ دعویٰٰ ہے کہ اس قدر آسانی سے کیلے کا ہضم ہونا خدا کے وجود کا ثبوت ہے کیوں کہ انسانوں کے لیے اتنی مفید چیز کسی انتہائی ذہین منصوبہ ساز کی ہی تخلیق ہو سکتی ہے۔

اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے اس فلم کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ’شرمناک غلطیوں کا پلندہ‘ جس میں ’غیر ارادی مزاحیہ مکالمے، فرسودہ خیالات اور مایوسی کن ہدایت کاری‘ ہے۔

اس کے باوجود اس فلم کو 2014 میں دوبارہ بنایا گیا، اس بار غائب ہونے والے پائلٹ نکولس کیج تھے۔

یہاں تک کہ ’لیفٹ بی ہائینڈ‘ ٹو پہلے کی نسبت مزید بدتر ناکامی سے دوچار ہوئی جسے فلموں کی درجہ بندی کرنے والی ویب سائٹ ’راٹن ٹومیٹوز‘ پر محض ایک فیصد پسندیدگی ملی۔

رسالہ Christianity Today کے نقاد نے لکھا کہ فلم ’گھٹیا‘ تھی جس سے مذہب کی بدنامی ہوئی۔

ہمارے عہد میں وجدانی تجربے قیامت کے نزدیک آخری معرکہ خیر و شر اور دنیا کے خاتمے سے متعلق کی جانے والی انتہا پسندانہ پیشین گوئیوں کی جڑیں انیسویں صدی اور امریکہ میں واچ ٹاور بائبل اور Tract Society کے بانی چارلز ٹیز رسل کی ضخیم تحریروں میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔

رسل امریکی شہر فلاڈیلفیا میں کاروباری فرد اور فوٹوگرافی کی نئی ٹیکنالوجی اپنانے والے ابتدائی افراد میں سے ایک تھے جس کے ذریعے وہ بائبل کے مناظر دوبارہ تخلیق کیا کرتے تھے۔

ایک اہم بات یہ کہ وہ اپنی ’معجزاتی گندم‘ کی بھی تشہیر کیا کرتے تھے جس کے متعلق ان کا دعویٰٰ تھا یہ صحت کے لیے انتہائی مفید خصوصیات کی حامل ہے۔

جب مخالفین نے گندم اور اس سے تیار شدہ روٹی کو ایک فراڈ قرار دیا تو انہوں نے ہتک عزت کا دعویٰٰ دائر کر دیا۔ عدالت میں وہ مقدمہ ہار گئے۔ روٹی واقعی فراڈ تھی۔

حوصلہ نہ ہارنے والے رسل نے کتابیں اور کتابچے لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا جن کے موضوعات بیشتر مذہبی ہوتے جس میں بائبل سے طوفان نوح، پیغمبروں کے حالات زندگی اور ان کے عہد کے مختلف واقعات جیسی چیزیں  لے کر ان میں مزید تفصیلات ڈال کر بیان کر دیتے۔

فوٹوگرافی میں اپنی دلچسپی کو برقرار رکھتے ہوئے رسل نے کتاب پیدائش (Book of Genesis) کے مطابق کائنات کی تخلیق کے واقعات کی عکاسی کرتے ہوئے انہیں ایسے پیش کر دیا جیسے سلائیڈز پر کسی سفر کی روداد دکھائی جا رہی ہو اور یہ عمل بہت حد تک خاموش فلموں کا پیش رو تھا۔  

قدیم وقتوں سے متعلق رسل کے خیالات کا ایک رخ پیرامیڈالوجی (pyramidology) سے پتہ چلتا ہے جو ایک بے ضرر اور ماضی کا ابھی تک مقبول نظریہ ہے کہ اہرام مصر خاص باطنی خصوصیات کے حامل ہیں۔

1880 کی دہائی میں رسل نے لکھا کہ عبرانیوں کے ہاتھوں بڑے حرمِ مصر کی تعمیر دراصل بائبل کا ’پتھر سے تیار کردہ‘ اضافی اور خفیہ حصہ ہے جو شریعت موسوی کے اصل پتھر پر کنندہ 10 احکامات کی طرح ہے، بس ایک فرق کے ساتھ کہ یہ بڑے پیمانے پر ہے۔

عظیم الشان اہرام کا خفیہ پیغام دنیا کے خاتمے پر ہونے معرکہ خیر و شر کی اصل تاریخ ہے۔ اہرام کی عین بلندی پانچ ہزار 460 انچ ہے۔

رسل نے ہر انچ کے لیے ایک سال مخصوص کیا جس میں نیچے سے صفر سال کا آغاز (صفر انچ، صفر سال) اور اہرام کی چوٹی پانچ ہزار 460 (جس کے بعد کوئی انچ نہیں کوئی سال نہیں) پر اختتام ہوا۔

عبرانی کیلنڈر میں 5460 کا مطلب ہے جولین کیلنڈر میں سال 1914، جس میں اگر آپ وہ 13 برس بھی شامل کریں جو رسل کے مطابق اہرام کی تعمیر پر خرچ ہوئے۔

اس نظریے کو چند فوری اور متوقع اعتراضات کا سامنا کرنا پڑا۔ قدیم عبرانی لوگ انچوں سے پیمائش کیسے کر سکتے تھے جب اس وقت یہ پیمانہ دریافت ہی نہیں کیا گیا تھا؟

بطور پیمانہ (ایک کے بعد ایک کر کے جو کے رکھے گئے تین دانوں کے برابر) انچ کا ذکر پہلی بار 14ویں صدی کے انگلینڈ میں ملتا ہے۔

اس کے باوجود رسل کے قارئین کی ایک کثیر تعداد اور ہزار سالہ تاریخ پر یقین رکھنے والے عیسائیوں (Millennial Christians) نے اس کو سنجیدگی سے لیا جو 1890 کی دہائی میں توہم پرستی کے ہاتھوں پہلے ہی 1900 کے راؤنڈ نمبر کے بارے میں تذبذب کا شکار تھے۔

شکوک و شبہات کا اظہار کرنے والوں کے خلاف رسل کے پاس جواب تھا۔ خدا نے انسانوں کو انچوں اور پیمائش کے درست پیمانوں کی عطا سے پہلے ’آخری نسل‘ کا انتظار کیا سو اس طرح راز ’ہمارے اپنے زمانے‘ میں ہی افشا ہوا ہو گا۔

(اس خوش فہمی پر ایک ضرب ممکنہ پیمائشی نظام بائیو میٹرکس سے پڑتی ہے جس نے انقلاب فرانس کی کوکھ سے جنم لیا لیکن اسے باآسانی نظر انداز کیا جا سکتا ہے کیوں کہ رسل کے بقول اس انقلاب کا محرک شیطان تھا۔)

 بہرحال زیادہ اہم چیز معجزاتی روٹی اور رسل کے کتابچوں کے ناختم ہونے والے سلسلے کی صورت میں ہوبہو اس کی دوسری شکل سے فیض یاب ہونا تھا جو ’بائبل پر مبنی‘ سنسی خیز لیکن عوامی انداز کے تھے۔

یہ انٹرنیٹ پر دلچسپ کہانیوں والے باتصویر اخبارات سے پہلے سادہ وقتوں کی بات ہے سو یہ پڑھنے کے لیے مزے دار چیز تھی اور اس کے سوا کچھ زیادہ مواد میسر نہ تھا۔

1914 میں رسل کو جس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا اسے شاید لنڈیل کی مشکل سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ متعین کردہ سال آ گیا۔

یقیناً یورپ میں جنگ کی شروعات کی وجہ سے یہ برا سال تھا۔ لیکن پھر بھی کم از کم قیامت کا سال نہیں تھا۔ دو سال بعد رسل کی موت واقع ہو گئی اور انہیں اہرام کی شکل جیسی ایک شاندار قبر میں دفن کیا گیا۔

بعض لوگوں نے کہا کہ قیامت صحیح وقت پر 1914 سے شروع ہو چکی ہے لیکن یہ جنگ چلتی رہے گی اور دنیا کے حالات بد سے بدتر ہوتے جائیں گے اور بالآخر ’عالمی افراتفری‘ کی صورت میں دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا۔

ایک دھماکے سے ہر چیز کے خاتمے کے بجائے رسل کی پیشین گوئی کے سال ایک عہد کا خاتمہ ہوا۔ کچھ دیگر افراد نے کہا کہ انہیں حساب کتاب میں غلطی لگی تھی اور اب 1918 کے سال پر بات لے گئے۔

تاہم بعض لوگوں کے مطابق ان کی اہرام جیسی قبر سے پتہ چلتا ہے کہ وہ فری میسن نامی تنظیم سے تعلق رکھتے تھے اور شیطان کے ایما پر اندر اندر سے عیسائیت کی جڑیں کھوکھلی کر رہے تھے۔

جب 1918 آیا اور گزر گیا تو تاریخ 1920 اور پھر 1925 اور پھر 1931 کر دی گئی۔ ہر بار جب تاریخ خالی گزر جاتی تو بائبل سٹوڈنٹس موومنٹ کے اندر آپس میں بحث مباحثہ ہوتا اور مزید دراڑیں پڑ جاتیں۔

پرمیڈالوجی کو خاموشی سے ترک کیا گیا اور تیزی سے پھیلتی صیہونی تحریک پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اسرائیلی ریاست کے دوبارہ قیام کے لیے عالمی سطح پر کی جانے والی جدوجہد کے متعلق کہا گیا کہ یہ دنیا کے خاتمے اور اس خاتمے کے مقررہ وقت پر دلالت کرتی ہے۔

تاہم رسل کے پیروکاروں کے ایک اور دھڑے نے ان کے رسالے The Watchtower کی اشاعت جاری رکھی اور خود کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ یا آج کل JW.org or JW کے نام سے دوبارہ منظر عام پر لے آئے۔

عہد حاضر کے واچ ٹاور دعویٰٰ ہے کہ اس کی سرکولیشن دنیا بھر میں نو کروڑ سے زائد ہے اور انفرادی مضامین رسل کی اصطلاح میں ’روحانی غذا‘ ہیں۔

1931 میں یہواہ کے گواہوں نے رسل کی پیشین گوئیوں کو ازسرنو ترتیب دیا اور یہ دعویٰ شروع کیا کہ بیسویں صدی کے اختتام سے پہلے یا کم سے کم 1914 یا اس سے پہلے پیدا ہونے والے آخری شخص کی موت سے پہلے قیامت واقع ہو کر رہے گی۔

تنظیم کے مطابق قیامت پیش آنے کا ممکنہ برس 1975 بنتا ہے کیوں کہ بائبل سے ان کے اخذ کردہ نتائج کے مطابق یہ دنیا کی تخلیق کی چھ ہزارویں سالگرہ تھی۔

JW.Org  کے مطابق انسان اور خداوند کا وقت مختلف ہے جو کسی حد تک کتوں کی عمر کا کتوں کے کیلنڈر کے مطابق ماپ کر تناسب نکالنے جیسا ہے۔ خدا کے لیے ایک سال انسانوں کے ہزار سال کے برابر ہے۔

انہوں نے کہا کہ 1975 میں ناقابل گرفت آگ لگے گی (ایٹمی جنگ، سیارچوں کی تباہی، آتش فشاں، زلزلے، ٹڈیوں کے حملے، خون کے دریا وغیرہ) جو سب کو ملیا میٹ کر دے گی سوائے چند ہزار اہل ایمان کے جو بعد میں سب کچھ صاف کر کے ایک ہزار سال تک (جو خدا کے وقت کے مطابق ایک معمولی اتوار کے دن جیسا ہے) جنت ارضی پر رہیں گے۔

کوئی بھی بدقسمت اہل ایمان جو کینسر یا کار کے حادثے کی وجہ سے 1975 میں برپا ہونے والی قیامت سے پہلے مر جائے تو وہ عیسیٰ علیہ السلام کے ہزار سالہ جنت ارضی کی وعدے سے محروم رہ جائے گا جسے یہواہ کے گواہوں کے ادب میں 1950 کی دہائی والے سوئٹزرلینڈ کے مضافات میں بسنے والے لوگوں کے کثیر نسلی نفسیاتی رنگ میں نہایت شان و شوکت سے پیش کیا گیا، جہاں پراسرار مسکراہٹ سجائے لکڑی کے گھروں میں رہنے اور شفاف آبشاروں تلے گھومتے پھرتے لوگ ہوں گے۔

جان لیوا سانپ اور کیڑے اپنے زہر سے محروم ہوں گے، چیتے اور دیگر خطرناک جانور جنت کے باغ کی طرح یہاں بھی سبزی خور ہوں گے اور اب نہ وہ خطرناک ہوں گے نہ جانی دشمن۔

رغبت میں اضافے کے لیے یہ بھی کہا گیا کہ پریوں کی غیر حقیقی آسمانی جنت نہیں بلکہ اسی پاک صاف زمین پر ہر کوئی ایک ہزار سال تک زندہ رہے گا جہاں مفت میں ملنے والی توانائی سے بھرپور معجزاتی گندم اور جادوئی پھل کھانے کے باوجود آپ کے دانت سلامت اور جسم 22 سالہ ایتھلیٹ جیسا ہو گا۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ اہل ایمان کو اس بات کے علم سے اطمینان ہو گا کہ ایمان نہ رکھنے والے لوگوں کو موت شدید تکلیف کے عالم میں آئی کیونکہ وہ ان کی جلی کٹی لاکھوں لاشیں زمین صاف کرتے ہوئے اپنے ہاتھ سے اٹھا چکے ہوں گے۔

جے ڈبلیو والے 60 اور 70 کی دہائی میں ’75 تک زندہ رہو‘ کا لوگو بیچتے رہے۔ قیامت کے دن کی آمد تک اراکین کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ چکی تھی۔

لیکن 1975 آیا اور چلا گیا۔ موسیقی کے طائفے کوین نے  Bohemian Rhapsodyنامی گیت جاری کیا۔ برائن کلو کو فٹبال کلب لیڈز یونائیٹڈ سے نکال دیا گیا، برطانیہ اور آئس لینڈ کے درمیان سرد جنگ چھڑ گئی۔

یہ سب واقعات پریشان کن تھے لیکن سیاروں کے تصادم، ابلتے ہوئے خون سے سمندروں کا بھرنا یا حتی کہ زہریلے مینڈکوں کی بارش جیسی کوئی بھی چیز پیش نہ آئی۔

ناکام پیشین گوئی کے بدلے JW.org کو عوامی انحراف اور الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ دل گردے والے کچھ لوگوں نے تسلیم کیا کہ انہوں نے 1975 میں سالگرہ والی بات کی اہمیت پر ’ضرورت سے زیادہ زور‘ دیا۔

اس کے باوجود قیامت اس وقت تک برپا ہو کر رہنی تھی جب تک 1914 والی نسل کے آخری فرد کی موت واقع نہ ہو جائے جس کا مطلب ہے آج جو شخص 108 سالہ یا اس سے بڑا ہے جب تک وہ مر نہیں جاتا۔ چنانچہ یہواہ کے گواہوں کے اراکین جنہیں آپ اکثر راہ چلتے افراد میں کتابیں بانٹتا دیکھتے ہیں وہ متذبذب نظر آتے ہیں۔

وہ واقعی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دنیا بہت جلد ختم ہونے والی ہے حتی کہ عین ممکن ہے آپ یہ مضمون بھی پورا نہ پڑھ سکیں۔

دیگر شدت پسند کلیساؤں میں سے اکثر نے دنیا کے خاتمے کے لیے مخصوص تاریخ دینے کا خیال ترک کر دیا ہے اگرچہ بعض کا دعویٰ ہے کہ دنیا پہلے ہی ختم ہو چکی ہے اور ہم دنیا ختم ہو رہی ہے کی غیر حقیقی پرفریب حالت انتظار میں پھنس چکے ہیں۔

مخصوص دن کا تعین کرنے والوں میں سے ایک شدت پسند فیملی ریڈیو آرگنائزیشن اور اس کے روحانی پیشوا ہیرلڈ کیمپنگ  تھے۔

کثیر تعداد میں فلپائنیوں سمیت جہاں امریکہ کی مذہبی براڈ کاسٹنگ خاص طور پر بہت مقبول ہے دنیا بھر میں اپنے لاکھوں سامعین کو فیملی ریڈیو نے باخبر کیا کہ 21 مئی، 2011 کے دن کیلیفورنیا کے وقت کے مطابق شام کے پانچ بج کر 59 منٹ پر دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا۔

فوری طور پر اسی وقت تمام سچے اہل ایمان عالم وجد میں سیدھے جنت منتقل کر دیے جائیں گے۔ گناہ گار زمین پر رہ جائیں گے جہاں انہیں ہر طرح کی ویسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا جن کا اکثر و بیشتر ذکر میڈ میکس جیسی فلموں کے اندر دیکھنے کو ملتا ہے لیکن ٹینا ٹرنر کی بجائے جسمانی اذیت اور ہم جنس خوری کی مزید سفاکی کے ساتھ، جس کے نتیجے میں کرہ ارض کا وجود مکمل تباہ ہو جائے گا اور سزا سے نہ بچ سکنے والے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آگ کے حوالے کر دیے جائیں گے۔

دنیا کے خاتمے کا وقت آ کر چلا گیا مگر کچھ نہ ہوا، سوائے یہ کہ جو فلپائنی اس پر یقین رکھتے تھے انہوں نے چھپنے کے لیے جنگلوں کا رخ کیا اور اس وجہ سے ان علاقوں میں عوامی انتشار کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑا۔

کیمپنگ نے اعلان کیا کہ ظاہری علامات متضاد ہونے کے باوجود حقیقت میں قیامت برپا ہو چکی ہے لیکن یہ ’خفیہ وقوعہ‘ تھا جس کا مقصد آزمائش تھا اور فی الحقیقت اس سے اہل ایمان کا عقیدہ مزید مضبوط ہوا ہے۔ دنیا کا ’ظاہری‘ خاتمہ اسی سال اکتوبر میں دوبارہ رکھ دیا گیا۔ اکتوبر آیا اور چلا گیا۔

جب پیشین گوئی دوسری بارغلط ثابت ہوئی کیمپنگ شکست تسلیم کرنے پر آمادہ نظر آئے، جرات مندی سے کام لیتے ہوئے انہوں نے ایک ٹی وی نیوز رپورٹر سے کہا ’میرا خیال ہے اب مجھے جا کر خود کو گولی مار لینی چاہیے یا اوپر والے کمرے میں گھس کر تب تک شراب کے نشے میں غرق رہنا چاہیے جب تک موت نہ آ لے۔‘

پہلے والی پیشین گوئیاں اگر پیش نظر ہوں تو اس بار نسبتاً خاصی درست ثابت ہوئی اور دو سال بعد کیمپنگ مر گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مائیک لنڈیل اور ٹرمپ کی صدارت سے متعلق ان کی غلط پیش گوئی کے متعلق کیا خیال ہے؟

رائے شماری سے پتہ چلتا ہے کہ رپبلکن پارٹی کے 80 فیصد حمایتی ابھی تک یہ سمجھتے ہیں کہ 2020 کے الیکشن ’چوری کیے گئے‘ کے حامی ہیں، اور حتی کہ لنڈیل کے سمپوزیم کی ناکامی کے بعد بھی رائے شماری کے مطابق ان میں سے تیسرے حصے کو یقین ہے کہ اس سال ٹرمپ دوبارہ منصب صدارت پر براجمان ہوں گے۔

یہ کم از کم تیسری بار تھی جب 2020 کے انتخابی نتائج الٹ جانے کی متعین تاریخ کے ساتھ پیش گوئی کی گئی۔

 قائم کیے گئے مفروضے کے مطابق پہلی 20 جنوری 2021 کے ’عظیم بیداری کے دن‘ تھی جس دن اتفاق سے جو بائیڈن وطن سے وفاداری کا حلف اٹھا رہے تھے۔

جب کچھ نہ ہوا تو یوم الحساب چار مارچ مقرر کیا گیا جو ایک بار پھر غلط ثابت ہوا۔

اس کے بعد دوبارہ 13 اگست بروز جمعہ کی تاریخ رکھی گئی تھی اور اب کہا جا رہا ہے کہ ’اس سال کے اواخر میں‘ اور یوں سلسلہ جاری ہے جو ایسا لگتا ہے قیامت کے دن تک جاری رہے گا اور شاید اس کے بعد بھی۔             

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا