کئی عشروں پر محیط افغانستان کا تنازع ہمیشہ سے طالبان اور افغان حکومت یا امریکہ کی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے درمیان تک محدود نہیں تھا۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کوئی ایسا واحد ملک نہیں جہاں آبادی کی اکثریت کسی ایک نظام حکومت کو صحیح مان کر تسلیم کرنے پر آمادہ ہو۔
دارالحکومت کابل سے ہٹ کر مقامی سطح پر مختلف علاقے مختلف دھڑے سرگرم ہیں جہاں ہر کوئی اپنا اثرورسوخ اور مالی مفادات چاہتا ہے، طالبان بھی انہی میں سے ایک ہیں۔
26 اگست کے روز حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے باہر 170 افغانی اور 13 امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا باعث بننے والا داعش خراسان کا خودکش دھماکہ ان مسلح گروہوں کے جانب سے ممکنہ خطرات کی نشان دہی کرتا ہے۔
طالبان ایک قومی حکومت قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر انہوں نے اپنی بنیاد پرستانہ تعبیر کے مطابق حکومت قائم کرنے کی کوشش کی تو ممکنہ طور پر افغان معاشرے کے بہت سے دیگر گروہوں کے حقوق متاثر ہوں گے۔
اور جیسا کہ داعش خراسان کے حملے سے واضح ہے طالبان کی کابل اور ملک کے دیگر علاقوں پر گرفت محفوظ نہیں ہے۔
گرفت کی اس کمزوری اور ممکنہ طور پر برقرار رہنے والی غیر مستحکم اور خطرناک صورت حال کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے طالبان کے داعش خراسان اور حقانی نیٹ ورک سمیت دیگر گروہوں سے تعلقات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
داعش کی خراسان شاخ
داعش 2014 میں نہایت تیزی کے ساتھ عراق اور شام میں اپنے پنجے مضبوط کرنے لگی اور اس کے ’خلافت‘ کے اعلان کے ساتھ ہی اس کی بہت سے دیگر شاخیں پھوٹنے لگیں۔
یہ گروہ مختلف علاقوں کے ماحول کے مطابق مقامی سطح پر پھیلنے لگے لیکن انہیں داعش کا تعاون حاصل رہا اور وہ اسی کے نظریات کی ترویج کرتے رہے۔
انہی گروہوں میں سے ایک داعش کی خراسان شاخ تھی جو جنوری 2015 میں وجود میں آئی اور خود کو ’خراسان‘ کا نام دیا جو آٹھویں صدی میں ایران سے لے کر مغربی ہمالیہ تک پھیلی ہوئی اسلامی ریاست کا ایک حصہ تھا۔
اس گروپ میں زیادہ تر مقامی عسکریت پسند، مزید شدت پسند نظریات کے فروغ اور عمل درآمد کے خواہش مند سابق افغانی اور پاکستانی طالبان اور کچھ سابق القاعدہ اراکین شامل ہیں۔
افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر پھیلے داعش خراسان گروہ کا مرکز افغانستان کے مشرقی علاقے ننگرہار اور کنڑ صوبے ہیں۔
جب طالبان نے افغانستان پر مذاکرات اور عسکری حملوں کے ذریعے حکومت حاصل کرنے کی کوششیں کیں اس وقت داعش خراسان نے عام شہریوں پر تباہ کن حملوں کے ذریعے اپنی تشہیر کی تاکہ مزید افراد ان کے ساتھ شامل ہو جائیں۔
احتجاجی مظاہرے، بچیوں کے سکول اور کابل زچگی ہسپتال ان کے حملوں کے اہداف میں سے تھے۔
افغان سکیورٹی فورسز اور امریکی فضائی کارروائیوں نے بشمول مارچ 2017 میں طاقتور ترین ’تمام بموں کی ماں‘ پھینکنے سے داعش خراسان کی کمر توڑ کر رکھ دی۔
افغانستان سے ہٹ کر شام کے شمالی علاقے میں داعش کے قائد ابو بکر البغدادی کی اکتوبر 2019 میں امریکی حملے میں ہلاکت مزید کاری ضرب ثابت ہوئی۔ اندازے کے مطابق 2020 تک داعش کے اراکین کی تعداد کم ہو کر 1500 اور 2200 کے درمیان رہ گئی تھی۔
لیکن نئے کمانڈر شہاب المہاجر نے مختلف کارروائیوں کے ذریعے دوبارہ اس گروہ میں تازہ روح پھونک دی جس کی ایک مثال کابل کے مغربی جانب سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع جلال آباد جیل پر اگست 2020 کا حملہ تھا جس میں سینکٹروں جنگجو بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
افغانستان کے نائب صدر امر اللہ صالح پر قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا جس میں دس افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔
القاعدہ اور حقانی نیٹ ورک
جب مغربی میڈیا اور ماہرین طالبان کے افغانستان پر قبضے کی بات کرتے ہیں تو اکثر و بیشتر القاعدہ کا ذکر ضرور ہوتا ہے جو غیر متوقع بات نہیں۔
اقوام متحدہ کی جون میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کے 34 میں سے 15 صوبوں میں القاعدہ کے اراکین متحرک ہیں۔
لیکن عملی کارروائیوں اور سیاسی اثرورسوخ کے اعتبار سے یہ تنظیم 2001 کے اپنے اصل ورژن کا خالی ڈھانچہ رہ گئی ہے۔
نائن الیون کے فوری بعد القاعدہ شمال مغربی پاکستان تک محدود ہو کر رہ گئی تھی جس کے سربراہ اسامہ بن لادن بالآخر 2011 میں خصوصی امریکی حملے میں ہلاک ہو گئے۔ دیگر اہم قائدین بھی مارے گئے یا پکڑے گئے۔
اگرچہ عام خیال یہی ہے کہ بن لادن کے جانشین ایمن الظواہری افغانستان میں ہیں لیکن وہ خاموش ہیں اور بعض اطلاعات کے مطابق بری طرح بیمار ہیں۔
اس کے برعکس حقانی نیٹ ورک افغانستان میں طاقت کی رسہ کشی کا ایک اہم کردار ہے۔
جنوب مشرقی افغانستان سے تعلق رکھنے والے جلال الدین حقانی نے اپنے گروہ کی بنیاد 1980 کی دہائی میں رکھی جسے بہت جلد ریگن انتظامیہ اور پاکستانی خفیہ اداروں نے روس کے خلاف لڑنے کے لیے امداد دینی شروع کر دی۔
1996 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد حقانی قبائلی امور کی وزارت قبول کر کے کابینہ کا حصہ بن گئے۔
2001 میں امریکی کوششوں سے طالبان کی اقتدار سے برطرفی کے بعد یہ نیٹ ورک پاکستان میں ازسرنو اپنے آپ کو منظم کرنے پر مجبور ہو گیا لیکن بہت جلد اس نے سرحد پار اپنی کارروائیاں شروع کر دیں۔
یہ نظریاتی ساخت اور تربیتی کیمپ چلانے کے حوالے سے القاعدہ سے بہت مماثلت رکھتا ہے۔
اب طالبان کے نائب سربراہ جلال الدین حقانی کے بیٹے سراج الدین حقانی اس نیٹ ورک کو چلاتے ہیں۔
امریکہ نے ان کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر رکھی ہوئی ہے۔ فروری 2020 میں طالبان کے نمائندے کے طور پر انہوں نے سیاسی مذاکرات کے حوالے سے نیویارک ٹائمز میں لکھا:
’ہم دیگر گروہوں کے ساتھ مل کر مشاورت کے ذریعے ایک ایسے نئے مشترکہ سیاسی نظام کا لائحہ عمل مرتب کرنے کی مخلصانہ کوششوں کے لیے پرعزم ہیں جس میں ہر افغانی کے جذبات کی عکاسی ہو اور کوئی خود کو اس سے محروم نہ سمجھے۔‘
سراج الدین ابھی تک کابل میں نظر نہیں آئے۔ لیکن ان کے چھوٹے بھائی انس حقانی نے طالبان کے دارالحکومت میں داخلے کے چار دن بعد سابق صدر حامد کرزئی، اعلی قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ اور طویل عرصہ تک عسکریت پسندوں کے رہنما اور سابق صدر گلبدن حکمت یار سے ملاقاتیں کی۔
اب۔۔۔ میرے دشمن کا دشمن؟
داعش خراسان کا 26 اگست کو دھماکہ محض امریکی فورسز پر حملہ نہیں تھا۔ یہ طالبان کے لیے بھی کھلے عام چیلنج تھا کہ ’کہاں ہے تمہاری طاقت؟ کہاں ہیں تمہارے حفاظتی انتظامات؟‘
یہ افغانستان میں پنپنے والی نئی صورت حال ہے جو واشنگٹن اور دیگر ممالک کو اپنی سیاسی اور عسکری حکمت عملی ازسرنو مرتب کرنے پر مجبور کر دے گی۔
دہشت گردی کے واقعہ پر بائیڈن کا ردعمل کہ ’ہم آپ کا شکار کریں گے اور آپ کو اس کی قیمت چکانی پڑے گی‘ نئی حکمت عملی کی جلد تشکیل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
امریکہ قطر میں موجود اپنے ایئر بیس العدید اور بحیرہ عرب میں طیارہ بردار بحری جہاز سے فضائی بمباری کی صورت میں جوابی کارروائی کرے گا۔
کابل کے ہوائی اڈے پر حملے کے 36 گھنٹوں کے اندر اندر پینٹاگون نے ڈرون حملے میں داعش خراسان کے دو کارندوں کی موت کا اعلان کیا۔
لیکن موثر فضائی کارروائیوں کے لیے ابھی تک مقامی لوگوں کا تعاون درکار ہو گا تاکہ مطلوبہ اہداف کی شناخت اور تلاش کی جا سکے۔
ایسے مطلوبہ افراد خود مقامی لوگوں کے لیے امریکی انخلا کے بعد اپنی موجودگی کی صورت میں ممکنہ طور پر ایک خطرہ ہیں۔
2001 میں سی آئی اے شمالی اتحاد کے دھڑے کے ساتھ بہت جلد روابط استوار کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
لیکن موجودہ ’مزاحمت کاروں‘ کے سرکردہ رہنما احمد مسعود (اور شمالی اتحاد کے مقتول جنگجو سردار احمد شاہ مسعود کے بیٹے) اور افغانستان کے شمال مشرقی علاقے پنج شیر وادی میں موجود سابق نائب صدر صالح سے امریکہ کے ایسے کسی اتحاد کا امکان نہیں۔
امریکہ پہلے سے طالبان کے ساتھ نہ صرف سیاسی مذاکرات بلکہ عسکری امور پر بھی رابطے میں ہے۔
طالبان کے کابل میں داخلے سے پہلے دونوں کی بات چیت کے نتیجے میں کابل کے سفارت خانوں اور ہوائی اڈے پر انخلائی زون کے گرد حفاظتی بندوست یقینی بنا۔
داعش خراسان کے حملے کے ایک روز بعد اس خطے کے نگران امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کینتھ میکنزی نے کہا کہ حفاظتی انتظامات کے لیے امریکی فورسز طالبان کے ساتھ مل کر کام کریں گی۔
سو افغانستان سے انخلا کے بعد کیا بائیڈن انتظامیہ داعش خراسان کو ہدف بناتے ہوئے طالبان اور اس طرح حقانی نیٹ ورک کے ساتھ مل کر کام جاری رکھے گی؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ تعاون کس قدر آگے جا سکتا ہے؟ کیا امریکہ افغانستان کے مرکزی بینک کے منجمد اثاثوں پر سے پابندی اٹھا لے گا اور اس کے برعکس آئی ایم ایف پر اپنا دباؤ بڑھائے گا جس کی وجہ سے امداد تعطل کا شکار ہوئی؟ کیا یہ طالبان کو سفارتی سطح پر تسلیم کرنے کا راستہ ہو گا؟
یہاں تک کہ کابل کے دھماکے سے پہلے برطانیہ کے چیف آف سٹاف جنرل نک کارٹر نے ایک نکتہ اٹھایا جس پر خوب لے دے ہوئی۔
پاکستانی عسکری قیادت کے قریب سمجھے جانے والے کارٹر نے کہا کہ طالبان کو حکومت کرنے کا ایک موقع دیا جانا چاہیے۔
ان کے بقول طالبان ’دیہاتی لڑکے‘ ہیں جو افغانستان کی روایتی قبائلی طرز زندگی پر قائم ہیں: ’ممکن ہے یہ طالبان لوگوں کی یادداشت میں محفوظ 1990 کی دہائی والے طالبان سے مختلف ہوں۔‘
اس بات کا امکان کم ہے کہ طالبان کے ساتھ مل کر حکمت عملی وضع کرنے کا عمل سرِ عام طے پائے، لیکن واشنگٹن، لندن اور دیگر ممالک کے اشاروں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اگر بیانیہ افغانیوں کی سکیورٹی اور حقوق کی بجائے امریکی اور برطانوی شہریوں کی حفاظت بن جاتا ہے اور اگر افغانیوں کے حالات کی جگہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نعرہ سامنے آ جاتا ہے تو اس سے اشارہ ملے گا کہ مغرب ممکنہ طور پر غیر متوقع ترین اتحادیوں کے ساتھ مل کر مستقل کے کسی تنازعے کا مقابلہ کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر ’دا کنورسیشن‘ کی اجازت سے چھاپی جا رہی ہے۔ اس کے مصنف سکاٹ لوکس یونیورسٹی آف برمنگم میں بین الاقوامی سیاسیات کے پروفیسر ہیں۔ اصل تحریر یہاں دیکھی جا سکتی ہے۔