افغانستان میں مہلک ترین حملے کرنے والی تنظیم ’داعش خراسان‘ کیا ہے؟

اس گروپ کی قیادت ایک سابق طالبان کمانڈر شہاب المہاجر کر رہے ہیں جو طالبان کے القاعدہ سے منسلک حقانی نیٹ ورک کے سابق رکن ہیں۔

ماہرین کے مطابق داعش کی خراسان شاخ اس گروپ کے کم از کم ایک درجن یا اس سے زیادہ عسکریت پسند دھڑوں میں سے ایک ہے جو داعش کی چھتری  تلے سرحدوں کے پار ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں(فائل فوٹو: اے ایف پی)

ویسے تو طالبان افغان حکومتی افواج اور ان کے امریکی سرپرستوں کے خلاف بر سر پیکار رہے ہیں لیکن صوبہ ننگرہار میں یہ حریف کبھی کبھار اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر اپنی توپوں کا رخ اپنے مشترکہ دشمن یعنی ’آئی ایس آئی ایس کے‘ یا داعش کی خراسان شاخ کی طرف موڑ دیتے تھے۔

اس عالمی دہشت گرد تنظیم نے دنیا بھر سے جنگجو جمع کرکے انہیں پاکستان افغان سرحد سے متصل ممنوعہ پہاڑوں میں چھپا رکھا تھا۔

یہ کئی سال پہلے کی بات ہے جب آئی ایس آئی ایس کی اس مقامی شاخ کی طرف سے پورے جنوبی ایشیا کو لاحق خطرہ بالآخر واشنگٹن اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے لیے ایک بڑا محرک ثابت ہوا۔

داعش خراسان نے جمعرات کو کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے باہر ہونے والے دہشت گردانہ بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے جس میں بچوں سمیت کم از کم 60 افراد ہلاک ہوئے۔ اس حملے سے افغانستان میں استحکام اور ریاست کی تعمیر نو کے لیے تقریباً 20 سالہ ناکام کوششوں کے بعد بین الاقوامی افواج کے حتمی انخلا کے موقع پر افراتفری اور مایوسی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

لندن میں قائم تھنک ٹینک ’انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹجک سٹڈیز‘ میں جنوبی ایشیا کے امور کے ماہر اور محقق ویراج سولنکی نے کہا: ’اس حملے سے جس اہم بات کا اشارہ ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ایسے موقع پر جب طالبان ترجمان کہہ رہے ہیں کہ جنگ ختم ہوچکی ہے، یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی اب بھی موجود ہے اور یہ طالبان کے دور حکومت میں بھی جاری رہے گی، جہاں افغان شہریوں کی زندگیاں خطرے میں رہیں گی۔‘

2015 میں داعش کی جانب سے جنوبی ایشیا، جسے وہ صوبہ خراسان کہتے ہیں، کے لیے باضابطہ طور پر اپنی اس مقامی شاخ کا اعلان کیا گیا تھا، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ گروپ افغانستان میں شیعہ مساجد اور ان کے اداروں پر بمباری سمیت ملک میں ہونے والے بدترین حملوں کی ذمہ دار ہے، ان حملوں سے پہلے ہی جنگ کے شکار ملک میں فرقہ وارانہ خلیج میں اضافہ ہوا ہے۔

اس گروپ نے پاکستان کے اندر بھی حملہ کیے جہاں سرکاری فورسز کے ساتھ ساتھ ملک کی صوفی اقلیت کے ارکان کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

داعش سے وابستہ دہشت گرد سری لنکا میں اب تک کے بدترین دہشت گردانہ حملے کے ذمہ دار تھے جب اپریل 2019 میں ایسٹر کے موقع پر آٹھ خودکش حملہ آوروں نے گرجا گھروں پر مربوط حملوں میں 250 سے زائد افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

ماہرین کے مطابق داعش کی خراسان شاخ اس گروپ کے کم از کم ایک درجن یا اس سے زیادہ عسکریت پسند دھڑوں میں سے ایک ہے جو داعش کی چھتری کے نچے سرحدوں کے پار ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔

امریکہ کی ملٹری اکیڈمی ’ویسٹ پوائنٹ‘ کے کمبیٹنگ ٹیررازم سینٹر کے لیے امیرہ جدون کی جانب سے مرتب کی گئی 2018 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’دونوں ممالک (پاکستان اور افغانستان) میں داعش خراسان کے حملوں کی نوعیت اور وقت میں پائی جانے والی مماثلتیں اور تفصیلات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ پاکستان افغان خطے میں اس شاخ کی سرگرمیاں کافی حد مربوط ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ داعش کی اس شاخ کے پاس دو سے پانچ ہزار کے درمیان جنگجو ہیں، جن میں سے نصف کا تعلق جنوبی ایشیا سے باہر سے ہے جو ’پرتشدد جہاد‘ کی طرف راغب ہو کر اس خطے میں چلے آئے۔

اس گروپ کی قیادت ایک سابق طالبان کمانڈر شہاب المہاجر کر رہے ہیں جو طالبان کے القاعدہ سے منسلک حقانی نیٹ ورک کے سابق رکن ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ حقانی نیٹ ورک نے اب جزوی طور پر کابل کی سکیورٹی سنبھال رکھی ہے۔

اصل داعش القاعدہ کی ایک شاخ کے طور پر تشکیل پائی تھی جو بالآخر عراق اور شام میں اتنی منہ زور ہو گئی کہ اس نے اپنے پیش رو گروپ کو زیر کرلیا اور لیونت خطے میں پھیلی ہوئی وسیع پٹی پر ایک خود ساختہ خلافت کا اعلان کر دیا۔

لیکن جنوبی ایشیا، جہاں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی مجموعی مسلم آبادی سے زیادہ مسلمان آباد ہیں، ہمیشہ اس گروپ کی نگاہوں میں رہا۔

خلافت کی بنیاد رکھنے والے داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی افغانستان، پاکستان اور بھارت پر مشتمل علاقے، جسے وہ خراسان صوبہ مانتے ہیں، کو اپنے گروپ کے عزائم کے لیے اہم تصور کرتے تھے۔

بغدادی کے الفاظ اور خلافت کی ابتدائی کامیابیوں نے دنیا بھر میں جنوبی ایشیا کی شاخ سمیت کئی تحریکوں کو متاثر کیا اور اس گروپ سے وابستہ شاخوں نے عراق اور شام میں داعش کی مرکزی قیادت کے پہنچنے والے نقصانات کے باوجود خود کو بہت مؤثر ثابت کیا ہے۔

واشنگٹن میں قائم سکیورٹی کنسلٹنسی ’سوفان گروپ‘ میں پالیسی اور تحقیق کے ڈائریکٹر کولن کلارک نے کہا: ’یہ ایک ایسا گروہ ہے جس کی شمالی افریقہ سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا تک شاخیں موجود ہیں لیکن اس کی افغانستان میں شاخ سب سے زیادہ طاقتور ہے۔ اپنی تشکیل کے وقت سے ہی داعش کا جنوبی ایشیا سے وابستہ گروہ (خراسان شاخ) مضبوط ہو رہا ہے کیونکہ مسلسل امریکی فضائی حملوں اور افغان فورسز کے ساتھ ساتھ طالبان کے حملوں کے باوجود اس کی ہلاکت خیز حملوں کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔‘

جبکہ دنیا بھر کے دیگر جہادی گروپوں نے کابل پر طالبان کی فتح پر خوشی کا اظہار کیا اور امریکی قیادت میں لڑنے والی نیٹو فورس کو شکست دینے پر ان کی ستائش کی ہے لیکن داعش نے افغانستان کے نئے آقاؤں کی واشنگٹن کودھوکہ دینے پر مذمت کی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

داعش کے ایک حامی نے میسجنگ پلیٹ فارم ’ٹیلی گرام‘ پر لکھا: ’طالبان محض ایک سیاسی تحریک ہے جو اسلام کا لبادہ استعمال کرتی ہے۔‘

امریکہ نے افغانستان سے انخلا کا اعلان کیا تو اس نے طالبان کے مضبوط ٹھکانوں پر معمولی حملوں کا دعویٰ جاری رکھا، تاہم کلارک نے کہا کہ 10 یا 11 دن پہلے اچانک یہ حملے تقریباً رک گئے۔ ان کی پریشانی یہ تھی کہ یہ گروپ کوئی بڑا منصوبہ بنا رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’اس طرح کے پیچیدہ حملوں کو ختم کرنے میں وقت، منصوبہ بندی اور تربیت درکار ہوتی ہے۔‘

’یہ ایک معمولی حملہ نہیں تھا۔ اس میں متعدد خودکش بم اور بندوق بردار ملوث تھے۔‘

کابل کے ہوائی اڈے پر حملہ افغانستان کے مستقبل کے لیے اس طرح ثابت ہو سکتا ہے، جس طرح 2003 میں بغداد میں اقوام متحدہ کے کمپاؤنڈ پر بم دھماکے نے عراق کے مستقبل کو تاریک کر دیا تھا۔

ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے طالبان سرمایہ کاری اور تکنیکی مہارت حاصل کرنے اور بین الاقوامی حمایت یا قبولیت حاصل کرنے کی کوششوں میں چین، ترکی، ایران اور روس تک سے رابطے میں ہیں لیکن افغانستان میں داعش کی طاقت ان کوششوں کو کمزور کرسکتی ہے۔

یہ حملہ داعش میں تازہ بھرتیوں کو بھی راغب کر سکتا ہے جس سے گروپ کو مزید مضبوط ہونے میں مدد مل سکتی ہے اور اس طرح افغانستان میں ایک پائیدار حکومت بنانے کے لیے کسی بھی نئی کوشش کا امکان ختم ہو سکتا ہے۔

جیسا کہ کلارک نے کہا: ’یہ داعش خراسان کے لیے دشمن کے بازو میں گولی لگنے کی طرح ہے۔‘

ان کے بقول: ’کامیابی دلکش ہوتی ہے۔ جب آپ اس طرح کا حملہ کرتے ہیں تو یہ توجہ اور نئے جنگجوؤں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اس کے زبردست سیاسی اور نفسیاتی اثرات ہیں۔ میں کسی ایسے حملے کے بارے میں نہیں سوچ سکتا جس کا اتنا بڑا اثر ہوگا۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا