کابل حملے میں داعش کے خود کش حملہ آوروں کو نشانہ بنایا: امریکی حکام

امریکی فوجی عہدے دار کا کہنا تھا کہ اتوار کو کیے گئے حملے کے بعد مزید دھماکوں کی آوازیں سنی گئی جس کا مطلب ہے کہ گاڑی میں کافی مقدار میں دھماکہ خیز مواد موجود تھا۔

افغان دارالحکومت کابل میں ہوائی اڈے کے قریب اتوار کو راکٹ حملہ کیا گیا۔ امریکی حکام کے مطابق ڈرون کی مدد سے ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جس میں ہوائی اڈے کی طرف جانے والے داعش کے خود کش بمبار سوار تھے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی فوجی عہدے دار کا کہنا تھا کہ اتوار کو کیے گئے حملے کے بعد مزید دھماکوں کی آوازیں سنی گئی جس کا مطلب ہے کہ گاڑی میں کافی مقدار میں دھماکہ خیز مواد موجود تھا۔

دو سینیئر امریکی حکام نے کہا ہے کہ امریکہ کا ماننا ہے کہ حملہ کامیاب رہا اور ہدف کو درست طور نشانہ بنایا گیا۔ واضح رہے کہ یہ اس عسکریت پسند گروپ کے خلاف دوسرا امریکی حملہ ہے جس نے جمعرات کو کابل ایئر پورٹ پر اس خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں 13 امریکی فوجیوں سمیت طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد ملک سے چھوڑنے کی کوششوں میں مصروف درجنوں افغان شہری ہلاک ہو گئے تھے۔

حکام نے اتوار کو کہا ہے کہ ابتدائی اطلاعات سے اشارہ ملتا ہے کہ تازہ فضائی حملے میں کوئی افغان شہری ہلاک نہیں ہوا۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی اضافی نقصان کی اطلاعات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ اس سے پہلے کابل ہوائی اڈے کے قریب واقع ایک مکان میں دھماکے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں لیکن یہ واضح نہیں ہو سکا تھا کہ دو دھماکوں کا آپس میں کوئی تعلق ہے۔

افغان پولیس سربراہ کے مطابق امریکی انخلا کے دوران کابل ایئرپورٹ کے شمال مغرب میں راکٹ حملے میں ایک بچہ ہلاک ہوگیا۔

افغان خبر رساں ایجنسی اسواکا کے مطابق ابتدائی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ اس حملے میں کم از کم دو افراد ہلاک اور تین زخمی ہوئے ہیں۔

گذشتہ روز امریکی صدر جوبائیڈن نے ایک بار پھر کابل ائیرپورٹ پر حملے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ ان کا کہنا تھاکہ کابل ائیرپورٹ پر 24 سے 36 گھنٹوں کے دوران نئے حملے کا خدشہ ہے۔

یہ دھماکہ کابل ائیرپورٹ کے باہر داعش کے اس حملے کے تین دن بعد ہوا جب تیرہ امریکی فوجی اہلکاروں سمیت 170 سے زائد افراد ہلاک ہوئے جو افغان طالبان کی حکومت سے فرار ہونے کی کوششوں میں جمع تھے۔

امریکہ نے ایک ڈرون حملے کی صورت اس حملے کا جواب دیا تھا جس میں ان کا کہنا ہے کہ داعش کے دو سرکردہ ارکان مارے گئے تھے۔


افغان جامعات کے سابق حکام اور لیکچررز نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ نیا نظام تعلیم متعارف کروانے کی بجائے موجودہ نظام کو ہی برقرار رکھتے ہوئے اسے بہتر بنائیں۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق افغانستان ہائر ایجوکیشن کے سابق وزیر عباس بصیر نے اتوار کو طالبان کے زیر اہتمام اعلیٰ تعلیم پر ہونے والی ایک کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ  ہر شے کو نئے سرے سے شروع کرنا سابقہ حکومتوں کی غلطی تھی۔

عباس بصیر کے بقول: ’نئے نظام کا آغاز کرتے ہوئے ہمیں ہر چیز مسترد نہیں کر دینی چاہیے۔ ہمیں اسی پر کام کرنا چاہیے جو ہمارے پاس پہلے سے موجود ہے۔‘

طالبان کے نگران وزیر تعلیم عبدالباقی حقانی نے افغانستان کے اس موجودہ نظام تعلیم کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا جس کی بنیاد عالمی برداری نے رکھی۔ نگران وزیر کا کہنا تھا کہ عالمی برداری نے دینی تعلیم کو اہمیت نہیں دی۔

خواتین کی تعلیم سے متعلق طالبان کی پالیسی واضح نہیں ہے لیکن ایک نجی یونیورسٹی کے چانسلر طارق کمال کا کہنا ہے کہ خواتین اعلیٰ تعلیم کے بعض شعبوں میں بہت دلچسپی رکھتی ہیں۔ کانفرنس میں افغانستان کی پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’ہمیں خواتین کی تعلیم کے معاملے میں طالبان کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔‘


انجینیئرز کابل ایئرپورٹ کا انتظام سنبھالنے کے لیے تیار ہیں: طالبان

افغان طالبان کے ایک عہدے دار نے کہا ہے کہ امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد ان کا گروپ کابل ایئرپورٹ کا مکمل کنٹرول سنبھالنے کے لیے تیار ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق طالبان عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ ‘ہم امریکیوں کے اشارے کے منتظر ہیں تاکہ ہم کابل کے ہوائی اڈے کا انتظام سنبھال سکیں۔ ہم دونوں یہی چاہتے ہیں کہ یہ کام جلدی ہو جائے۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ہمارے انجینیئرز اور تکنیکی عملہ ایئرپورٹ کے انتظامات سنبھالنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔’

دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ وہ منگل تک انخلا کی اعلان کردہ تاریخ پر عمل پیرا ہیں۔

امریکہ سے معاہدے کے تحت طالبان کا کہنا ہے کہ وہ غیر ملکی اور افغان شہریوں کو ملک سے جانے کی اجازت دیں گے۔

گذشتہ دو ہفتے کے دوران امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان سے ایک لاکھ 13 ہزار سے زائد افراد کا انخلا کیا ہے لیکن اب بھی دسیوں ہزار افراد ایسے ہیں جو ڈیڈ لائن ختم ہونے پر پیچھے رہ جائیں گے۔

ایک امریکی عہدے دار کے مطابق ہفتے تک کابل کے ہوائی اڈے پر چار ہزار سے بھی کم امریکی فوجی موجود ہیں۔ یاد رہے انخلا کے دوران ان فوجیوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد 5800 تھی۔


کابل ہوائی اڈے پر ایک اور حملے کا ’مصدقہ خطرہ‘: امریکہ

تین روز قبل کابل میں ہوائی اڈے پر ہونے والے جان لیوا حملے کے بعد امریکہ نے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے قریب ایک ’مخصوص اور مصدقہ خطرے‘ کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے اپنے شہریوں سے یہ علاقہ چھوڑنے کی اپیل کی ہے۔

دہشت گردی کے خطرات نے امریکی فوج کی زیر نگرانی انخلا کی کوششوں کو متاثر کیا ہے اور جمعرات کو داعش خراسان گروپ کے حملے، جس میں 13 امریکی اہلکاروں سمیت درجنوں افغان شہری ہلاک ہو گئے تھے، کے بعد واشنگٹن طالبان کے ساتھ قریبی سیکورٹی تعاون پر مجبور ہو گیا ہے تاکہ ایسے واقعے کو دوبارہ رونما ہونے سے روکا جا سکے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ کابل میں امریکی سفارت خانے نے ایک سیکورٹی الرٹ میں کہا: ’ایک مخصوص اور مصدقہ خطرے کی وجہ سے امریکی شہریوں کو کابل ایئرپورٹ کے اطراف تمام علاقے فوری طور پر چھوڑ دینے چاہیں۔‘

اپنے انتباہ میں امریکی سفارت خانے نے ایئرپورٹ سرکل کے جنوبی گیٹ، وزارت داخلہ کے نئے دفتر اور ہوائی اڈے کے شمال مغرب کی جانب پنجشیر پٹرول سٹیشن کے قریب گیٹ کو خطرے والا علاقہ قرار دیا۔

اس سے قبل ہفتے کو ہی امریکی صدر جو بائیڈن نے صورت حال کو ’انتہائی خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ ان کے فوجی کمانڈروں کا خیال ہے کہ ایک نیا حملہ اگلے 24 سے 36 گھنٹوں کے دوران کیا جا سکتا ہے۔

داعش کے خراسان گروپ نے جمعرات کو کابل ہوائی اڈے پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس کے بعد امریکہ نے جوابی کارروائی میں اس گروپ کے ’منصوبہ ساز‘ کو ڈرون حملے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔


برطانیہ نے افغانستان سے انخلا کا مشن مکمل کر لیا

برطانیہ نے ہفتے کو انخلا کا عمل مکمل کرتے ہوئے افغانستان سے اپنے آخری فوجی کو بھی نکال لیا۔

تاہم برطانیہ کے لیے کام کرنے والے اور برطانیہ میں آبادکاری کے اہل سینکڑوں افغان شہریوں کو پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے۔

اے ایف پی کے مطابق برطانوی وزارت دفاع نے اپنی ٹویٹ میں ایک طیارے میں داخل ہونے والے اور تھکے ہوئے فوجیوں کی تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے بتایا: ’برطانیہ کی مسلح افواج کے جوانوں کو لے کر آخری پرواز کابل سے روانہ ہو گئی۔‘

وزارت نے فوجیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا: ’ان تمام لوگوں کا شکریہ جنہوں نے انتہائی دباؤ اور خوف ناک حالات میں انتہائی بہادری سے خدمات انجام دیں تاکہ کمزور شہریوں کو محفوظ طریقے سے نکالا جا سکے۔‘

ہفتے کو برطانیہ نے اپنا آخری طیارہ افغانستان بھیجا تھا جس میں صرف برطانوی شہریوں کو نکالا گیا کیونکہ لندن نے 31 اگست کی امریکی فوج کے انخلا کے لیے طالبان کے ساتھ طے شدہ آخری تاریخ سے پہلے اپنے شہریوں، سفارت کاروں اور فوجیوں کے انخلا کا آپریشن مکمل کر لیا تھا۔

وزیر اعظم بورس جانسن نے ریسکیو آپریشن میں کام کرنے والے اہلکاروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دو ہفتوں سے بھی کم عرصے میں 15 ہزار سے زائد لوگوں کی مدد کی۔

جانسن نے سوشل میڈیا پر جاری ایک پیغام میں کہا: ’میں اس مشن میں شامل ہر ایک اور ان ہزاروں اہلکاروں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے گذشتہ دو دہائیوں کے دوران (افغانستان میں) خدمات انجام دیں۔‘

وزیر دفاع بین والیس نے کہا کہ برطانیہ کے فوجیوں نے ’ہزاروں افراد کے بہتر مستقبل اور ان حفاظت میں مدد دی۔

 

تاہم انخلا کے عمل کو مکمل کرنے کا اعلان کرنے والے برطانیہ نے ان سینکڑوں افغان شہریوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جنہوں نے 20 سالہ جنگ میں برطانیہ سے تعاون کیا اور جن کو برطانیہ میں آباد کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

برطانوی مسلح افواج کے سربراہ جنرل سر نک کارٹر نے ہفتے کو بی بی سی کو بتایا کہ انخلا آپریشن مکمل کر لیا گیا ہے لیکن انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ ’دل دہلا دینے والی حقیقت‘ ہے کہ ہم سب کو باہر نہیں نکال سکے۔‘

مسلح افواج کے سربراہ نے آباد کاری کے اہل ان افغان شہریوں کی تعداد کا تخمینہ سینکڑوں میں لگایا جن کو افغانستان سے نکالا نہیں جا سکا۔

تاہم انہوں نے زور دیا کہ برطانیہ ان کا خیرمقدم کرے گا اگر وہ ڈیڈ لائن کے بعد تیسرے ممالک کی مدد یا دیگر طریقوں سے افغانستان سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا