سائبر فلیشنگ ہراسانی کیسے روکی جائے؟

آن لائن ہراسانی کی باقی اقسام میں دھمکی آمیز پیغامات، تصاویر یا وڈیوز بھیجنا شامل ہیں ۔سائبر فلیشنگ کا مقصد متاثرہ شخص کی تذلیل اور اس میں ڈر پیدا کرنا ہے۔ نا معلوم رہنے کا عنصر اس کا واضح ثبوت ہے۔

سائبر فلیشنگ میں کسی کو بلوٹوتھ یا ائیر ڈراپ کے ذریعے نازیبا تصاویر بھیجنا شامل ہے(اے ایف پی)۔

تصور کریں کہ آپ 14 سال کی لڑکی ہیں اور ایک ٹرین پر سکول سے گھر واپس جا رہی ہیں۔ اور آپ کو فون پر ایک نازیبا تصویر موصول ہوتی ہے۔ تعجب ہے نا؟ آپ سائبرفلیشنگ کا شکار ہوچکی ہیں۔

یہ ہراسانی کی ایسی قسم ہے جو آج سے چند سال قبل تک وجود نہیں رکھتی تھی۔ یہ تیزی سے ارتقا پذیر ڈیجیٹل دنیا کا وہ کردار ہے جس سے نوعمروں کو جلد سمجھوتہ کرنا ہوگا ان تمام مسائل کے ساتھ جو بالغ ہوتے ہی انہیں بھگتنے ہونگے۔ سائبر فلیشنگ میں کسی کو بلوٹوتھ یا ائیر ڈراپ کے ذریعے نازیبا تصاویر بھیجنا شامل ہے۔

ڈیجیٹل تیز دور سے پہلے فلیشنگ کرنے والے شخص کی شناخت کرنا آسان تھی کیونکہ وہ آپ کے سامنے ہوتا تھا، لیکن سائبر فلیشنگ میں ایسا کرنے والا نامعلوم ہی رہتا ہے۔ ایسا کرنے والا خود کو کہیں بھی موجود پاکر تین کلو میٹر کے ریڈیس میں کوئی بھی تصویر بھیج سکتا ہے چاہے وہ کسی شاپنگ سینٹر میں ہو کسی کھیل کے میدان میں یا کسی بھی عوامی مقام پر موجود ہو۔

یہ تصویر کسی کو بھی موصول ہوسکتی ہے چاہے وہ کوئی نوعمر ہو، یا کوئی بالغ فرد یا اپنی ماں کا فون تھامے تین سالا بچہ۔ تصویر موصول کرنے والا متاثرہ شخص تصویر بھیجنے والے کی شناخت کی کھوج لگانے کی کوشش کر سکتا ہے لیکن ایسا کرنا صرف اندازوں پر مبنی ہو گا کیونکہ آپ کی حد نگاہ میں موجود کوئی بھی فرد یہ کام کر سکتا ہے۔

آن لائن ہراسانی کی باقی اقسام میں دھمکی آمیز پیغامات، تصاویر یا ویڈیوز بھیجنا شامل ہیں۔ سائبر فلیشنگ کا مقصد متاثرہ شخص کی تذلیل اور اس میں ڈر پیدا کرنا ہے۔ نا معلوم رہنے کا عنصر اس کا واضح ثبوت ہے۔

اوپر ذکر کی گئی 14 سالہ لڑکی کے کیس میں اس کے پاس ہراساں کرنے والے کی شناخت جاننے، انصاف حاصل کرنے یا کم سے کم اس شخص کو معافی منگوانے کا کوئی طریقہ نہیں ہوگا۔ یہ اس کو ممکنہ طور پر کمزور، پریشان اور مستقبل میں مزید ایسے واقعات سے خوفزدہ کر سکتا ہے۔

ڈیجیٹل ڈیوائسز اس بات کا تعین کرتی ہیں کہ ہم کہاں، کب، کیسے اور کیوں دوسروں سے رابطہ کرتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے اب معمول کی بات ہے کہ ہم دن میں کئی بار ڈیجیٹل پیغامات کے ذریعے یہ بتاتے ہیں کہ ہم کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ آپ ایسا اپنے شریک حیات، دوست یا سوشل میڈیا پر موجود افراد کے لیے کر سکتے ہیں جو آپ کے مطابق یہ سب جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ روزانہ کی بنیاد پر 50 پیغامات تک ہو سکتے ہیں۔

بیس سال پہلے رابطے کی یہ قسم ناممکن اور غیر معمولی سمجھی جاتی۔

ٹیکنالوجی کی مدد سے رابطہ کرنے کی بدلتی صلاحیت نے والدین اور ان کے بچوں کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ خاص طور پر وہ جو اس کو محفوظ اور مثبت انداز میں استعمال کرنے کے خواہش مند ہیں۔ حال ہی تک والدین اس بارے میں آگاہ نہیں تھے کہ وہ سائبر فلیشنگ سے نمٹنے کے لیے اپنے بچوں کو کیا طریقہ کار سکھائیں۔

کچھ عوامی شخصیت نے کہا ہے کہ بچوں کو محفوظ رکھنے کا واحد طریقہ ان کے ٹیکنالوجی آلات کی ضبطی ہے۔ لیکن یہ مشورہ قابل عمل اور مددگار ثابت نہیں ہو سکتا۔ ایسا کرنا قدامت پسندی کی علامت  ہو گا۔ تیر کمان سے نکل چکا ہے، اب ٹیکنالوجی موجودہ دنیا کا سب سے اہم حصہ بن چکی ہے۔ نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد سمارٹ فونز استعمال کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے رابطے رکھنا ترجیح بن چکا ہے۔ ڈیجیٹل دور کے تقاضوں کو سمجھنا اور نوجوانوں کو محفوظ رکھنا ہوگا۔ اس معاملے کو نظر انداز کرنا اب ممکن نہیں رہا۔

عمر رسیدہ افراد کی جانب سے سوشل میڈیا کو نوجوانوں کی زندگی خراب کرنے کا ذمہ دار گردانا جاتا ہے لیکن نوجوان اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ بحرحال 27 فی صد نوجوان اس بات کے قائل ہیں کہ سوشل میڈیا پر بولینگ اور افواہوں کے پھیلاو میں اضافہ ہو چکا ہے۔ انسانوں کے درمیان حقیقی رابطے کا فقدان بھی بڑھ چکا ہے۔ 31 فیصد سوشل میڈیا کو زندگی پر مثبت اثرات کا باعث مانتے ہیں۔ نوعمر افراد کے مطابق سوشل میڈیا خاندان اور دوستوں سے رابطوں، نئے لوگوں سے ملنے، اپنے خیالات کے اظہار اور دوسروں کی مدد کو آسان بناتا ہے۔

زیادہ تر لوگوں کے لیے سوشل میڈیا منفی یا مثبت نہیں بس زندگی کا ایک حصہ ہے ۔ اور ایسا سمجھنے والے نوجوانوں کی تعداد 45 فیصد ہے۔ آن لائن سیفٹی کئی مختلف وجوہات کی وجہ سے مسائل کا شکار رہتی ہے۔ ٹیکنالوجی میں ارتقا، اس کے استعمال میں ہماری بڑھتی مہارت، آف لائن اور آن لائن زندگی میں کم ہوتا فرق ہراسانی کے واقعات میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔

لیکن ہراسانی صرف ٹیکنالوجی کا مسئلہ نہیں ہے یہ انسانی اقدار کی بات بھی ہے۔ یہ انسان کی صنف اور اس کی جنسیت پر مبنی شناخت پر بھی منحصر ہے۔ اس کے علاوہ اس کا انحصار کسی انسان کی ذات میں پائی جانے والی منفی عادات پر بھی ہے۔ ان میں ضدی پن، خود پر قابو نہ رکھ پانا، غصے کا غلط انداز میں اظہار اور عزت نفس کا نہ ہونا شامل ہیں۔

سکول میں بولینگ اور دھمکی کے رجحان کے مقابلے میں اس کی آن لائن وجوہات کے درمیان نسبت قائم کرنا مشکل کام ہے۔ آن لائن بولینگ کی وجوہات زیادہ طاقتور خیال کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر والدین کی جانب سے کسی بچے پر حد سے زیادہ کنٹرول اس کے آن لائن بُولینگ کا متاثر ہونے کے امکانات کو بڑھا دیتا ہے۔ سماجی طور پر الگ تھلگ رہنا بھی اس کی ایک وجہ بن سکتا ہے۔

ہماری ڈیجیٹل زندگی بھی انسانی زندگی ہی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم نوجوانوں کو محفوظ محسوس کروانے کے لیے اقدامات اٹھائیں۔ ڈیجیٹل رابطوں میں ہونے والے ارتقا کے ساتھ بڑھتے خطرات سے نمٹنا سکھائیں۔

نوجوانی میں انسان کئی تبدیلیوں سے گزر رہا ہوتا اور بچوں میں میڈیا کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں ممکنہ آن لائن ہراسانی کے مقابلے کے لیے بچے کو ذہنی طور پر مضبوط بنانے میں والدین کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

تحقیق کے مطابق آن لائن ہراسانی کے شکار ہر دو میں سے ایک فرد اس تجربے سے گزرنے کے بعد کسی کو کچھ نہیں بتاتا۔ اس کی وجہ ڈر، شرمندگی یا حمایت کا نہ ملنا ہو سکتا ہے۔ والدین کے ساتھ بچوں کا مضبوط تعلق، صحت مندانہ ماحول میں بات چیت اور مشاورت ہر گھرانے کی حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیئں۔

بچوں میں خود اعتمادی کا فروغ  ہو تاکہ وہ ایسے واقعات پر کھل کر بات کر سکیں اور سائبر فلیشنگ یا آن لائن ہراسانی کے متعلق بتا سکیں۔ ان کی ڈیجیٹل زندگی پر قدغن لگانا یا انہیں سمجھے بغیر فیصلے صادر کرنا اس بارے میں مددگار ثابت نہیں ہو سکتے۔

 

جواین آورلینڈو ویسٹرن سڈنی یونیورسٹی میں ریسرچر ہیں۔ 

 

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی