انتخابات کے معاملے پر پی ٹی ایم دو کشتیوں کی سوار

پشتون تحفط موومنٹ دو کشتیوں میں سوار نظر آرہی ہے، ایک طرف گرفتار رہنماؤں کی رہائی کے لیے لائحہ عمل تیار کر رہی ہے اور دوسری طرف صوبائی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے سرگرم عمل ہے۔

خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع (سابقہ فاٹا) میں صوبائی اسمبلی کی 16 نشستوں پر 2 جولائی کو  انتخابات متوقع ہیں (فوٹو فائل، اے ایف پی)

پشتون تحفط موومنٹ دو کشتیوں میں سوار نظر آرہی ہے، ایک طرف گرفتار رہنماؤں کی رہائی کے لیے لائحہ عمل تیار کررہی ہے اور دوسری طرف صوبائی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے سرگرم عمل ہے۔    

خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع (سابقہ فاٹا) میں صوبائی اسمبلی کی 16 نشستوں پر دو جولائی کے انتخابات کے لیے سیاسی پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کے علاوہ پشتون تحفظ موومنٹ کا نام استعمال کرنے والے امیدوار مختلف انتخابی نشانات پر میدان میں کود پڑے ہیں۔

دوسری جانب انتخابات سے پہلے سینٹ کا اجلاس طلب کیے جانے کے اشارے مل رہے ہیں جس پر پہلے سے سیٹوں میں اضافے پر سینٹ میں بل کی منظوری کے حوالے سے اپوزیشن جماعتیں گومگو کا شکار ہیں۔ اگر سینٹ سے بل منظور ہوا تو انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں۔  

واضح رہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے خیبر پختونخوا اسمبلی میں قبائلی اضلاع کی جنرل نشستیں 16 سے 24 جبکہ قومی اسمبلی کی نشستیں چھ سے 12 کر دی گئی ہیں۔

سیٹوں کے اضافے کے لیے جس رکنِ قومی اسمبلی نے بل پیش کیا تھا وہ محسن داوڑ تھے جو اس وقت پشاور جیل میں بند ہیں۔

شمالی وزیرستان خڑ قمر واقعے سے اگر ایک طرف پشتون تحفظ موومنٹ کو زبردست دھچکا پہنچا تو دوسری طرف علی وزیر اور محسن داوڑ کی گرفتاری نے اس کو بےدست و پا کر دیا۔ جنوبی و شمالی وزیرستان کے چار حلقوں میں ان کا کوئی واضح نمائندہ نہیں اور ہر حلقے میں دو دو تین تین امیدوار سامنے آئے ہیں جو خود کو پی ٹی ایم کے امیدوار قرار دیتے ہیں۔

منظور پشتین اور ان کے دیگر ساتھی بظاہر کہتے رہتے ہیں کہ پی ٹی ایم ایک تحریک ہے اور پارلیمانی سیاست سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی وہ قومی یا صوبائی اسمبلی کا رکن بننا چاہتے ہیں۔

پچھلے سال جب پی ٹی ایم کے دو اہم ساتھی علی وزیر اور محسن داوڑ نے عام انتخابات کے لیے کاغذات جمع کروائے تو اس وقت پی ٹی ایم کور کمیٹی کے ایک اہم رہنما ڈاکٹر سید عالم محسود نے ایک اخباری بیان جاری کیا کہ جو عام انتخابات میں امیدوار ہو گا اس کی پی ٹی ایم کور کمیٹی کی رکنیت ختم ہو جائے گی اور پی ٹی ایم سے ان کا کوئی تعلق نہیں رہے گا۔

پی ٹی ایم کور کمیٹی کے فیصلے کے باوجود بھی علی وزیر نے جنوبی وزیرستان اور محسن داوڑ نے شمالی وزیرستان سے عام انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب بھی ہو گئے مگر وہ پی ٹی ایم کا صرف حصہ نہیں رہے بلکہ مرکزی رہنما بنے رہے۔

اب صوبائی اسمبلی خیبر پختونخوا کے لیے پہلی دفعہ قبائلی علاقوں سے انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور پی ٹی ایم کا وہی پرانا بیانیہ ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے گی۔ لیکن پی ٹی ایم کے اہم ساتھی دونوں وزیرستانوں سے امیدوار ہیں اور دوسروں کی نسبت بڑھ چڑ کر حصہ لے رہے ہیں۔ البتہ ان کے کامیاب ہونے کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ ہر حلقے میں وہ خود ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔

جنوبی وزیرستان حلقہ محسود پی کے 113 کے لیے پی ٹی ایم کے تین اہم ساتھی حصہ لے رہے ہیں: حیات پریغال، جمال مالیار اور اقبال لالا۔ حیات پریغال کو پچھلے سال دبئی جاتے ہوئے ہوائی اڈے سے اس الزام میں گرفتار کیا تھا کہ وہ سکیورٹی فورسز کے خلاف لکھ رہے ہیں اور کئی مہینے جیل میں گزارنے کے بعد ان کو رہائی ملی۔ اسی طرح حلقہ وزیر پی کے 114 کے لیے علی وزیر کے چچا زاد بھائی عارف وزیر، ایک بھتیجا اور تیسرا ملک انور انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں میرقلم وزیر، جمال داود اور سہراب خان وزیر کود پڑے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ انتخابات میں پی ٹی ایم کا نام استعمال کرنے والے اکثر امیدواروں کا تعلق عوامی نیشنل پارٹی یا پختونخوا ملی عوامی پارٹی سے بھی رہ چکا ہے۔

پی ٹی ایم کے رکن سید الرحمن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پی ٹی ایم نے کوئی امیدوار صوبائی انتخابات کے لیے میدان میں نہیں اترا ہے اور پی ٹی ایم کے جوان محسن داوڑ اور علی وزیر کی رہائی کے تگ و دو میں مصروف ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کے ساتھی منظور پشتین کے اعلان کے انتظار میں ہیں کہ وہ آگے کیا لائحہ عمل دیں گے۔ سید الرحمن کے مطابق وہ اس وقت تک خاموش رہیں گے جب تک منظور پشتین کوئی لائحہ عمل نہ دیں۔

ان کے مطابق جب تک علی وزیر اور محسن داوڑ رہا نہ ہو جائیں تب تک مشکل ہے کہ کسی جلسے کا انعقاد ہو۔ البتہ دھرنوں کے عمل کے متعلق منظور پشتین ہی بتائیں گے کہ کہاں دھرنا دینا ہے اور کس تاریخ کو دینا ہے۔

وزیراعلی کے مشیر برائے قبائلی اضلاع اجمل وزیر نے خڑ قمر واقعے کے بعد حالات پر قابو پانے کے لیے اہم کردار ادا کیا اور قبائلی عمائدین پر مشتمل اتمانزائی وزیر کا ایک جرگہ تشکیل دیا جس کی وجہ سے حکومت اور پی ٹی ایم کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ چل پڑا۔

اجمل وزیر نے انڈپینڈنٹ  اردوکو بتایا کہ وزیرستان کے حالات بہت زیادہ نازک ہیں جن پر قابو پانے کے لیے وہاں کے رسم و رواج کو مد نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اتمانزائی جرگے کے بعد سے وہاں دھرنا بھی ختم کر دیا گیا ہے اور حالت معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔

اجمل وزیر کے مطابق اب دوبارہ جرگوں کا سلسلہ شروع کیا جائے گا اور امید ہے اس کے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔    

 جنوبی وزیرستان کے سب ڈویژن لدھا میں عید کے تیسرے دن جلسہ بھی ملتوی کرنا پڑا۔ یہ جسلہ محسود قبائلی علاقے میں پشتون تحفظ موومنٹ کا پہلا جلسہ تھا اور تحریک کے سربراہ منظور پشتین کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔

جیسا کہ تحریک طالبان پاکستان کا گڑھ جنوبی و شمالی وزیرستان سمھجا جاتا تھا اسی طرح پی ٹی ایم کا گڑھ بھی جنوبی و شمالی وزیرستان ہی سمجھا جاتا ہے۔

مبصرین کے خیال میں اگر وزیرستان میں پی ٹی ایم کے جوان متحرک رہے تو دوسرے پختون علاقوں کے جوانوں کو بھی اپنے ساتھ کھنچ لا سکتے ہیں اگر وزیرستان خاموش رہا تو دوسرے پختون علاقے بھی خاموش رہیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ