لداخ میں احتجاج کرنے والی جنریشن زی کے مطالبات کیا ہیں؟

احتجاجی تحریک کے مرکزی کردار سونم وانگچک کئی سال سے علاقائی شناخت، روزگار اور وسائل کے منصفانہ استعمال کے لیے برسوں مہم چلا رہے ہیں۔

پولیس اور مظاہرین کے درمیان پرتشدد جھڑپوں کے بعد 25 ستمبر 2025 کو لہہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دفتر کے باہر انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کی ایک پوسٹر میں تصویر مسخ کی گئی ہے (توصیف مصطفیٰ/اے ایف پی)

جنریشن زی کے احتجاج کی لہر نے انڈیا کے ہمالیائی علاقے لداخ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ نوجوان خودمختاری اور خطے کو ریاست کا درجہ دینے کے مطالبہ کر رہے ہیں۔

الجزیرہ ڈاٹ کام کے مطابق گذشتہ چھ برس سے مقامی شہری اداروں کی قیادت میں لوگ انڈیا سے ریاست کے درجہ اور آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت خصوصی تحفظات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

بدھ کو مایوس نوجوان گروہ مرکزی احتجاجی دھارے سے الگ ہو گئے اور لہہ شہر کی سڑکوں پر سخت مزاحمت سامنے آئی۔ پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس میں کم از کم پانچ مظاہرین مارے گئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔

حکام کے مطابق سکیورٹی فورسز کے بھی بہت سے اہلکار زخمی ہوئے۔ جمعرات کو شہر میں کرفیو نافذ رہا اور فضا سوگوار رہی۔ جان سے جانے والے مظاہرین افراد کی لاشیں اہل خانہ کے حوالے کر دی گئیں۔

احتجاج کے مرکزی کردار سونم وانگچک کون ہیں؟

مطالبات کے حق میں ہونے والے احتجاج کا مرکزی کردار ماحولیاتی کارکن اور سونم وانگچک  لداخ کے سرکرده تعلیمی اصلاح کار اور تحفظ ماحول کے لیے سرگرم کارکن ہیں۔

انہوں نے علاقائی شناخت، روزگار اور وسائل کے منصفانہ استعمال کے لیے برسوں مہم چلائی اور حالیہ ہفتوں میں ریاستی درجہ اور چھٹے شیڈول میں شمولیت کے مطالبات پر مرکز کے ساتھ لہہ دہلی مکالمہ آگے بڑھانے کی غرض سے سلسلہ وار بھوک ہڑتالوں کی قیادت کی۔

گذشتہ روز ہونے والے احتجاج کے حوالے سے وانگچک نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ ’یہ نوجوانوں کی بھڑاس تھی۔ ایک طرح کی جنریشن زی بغاوت جو انہیں سڑکوں پر لے آئی۔‘

وہ جنوبی ایشیائی ممالک میں حالیہ بغاوتوں کا حوالہ دے رہے تھے جن میں قبل ازیں رواں ماہ نیپال میں نوجوانوں کی احتجاجی تحریک بھی شامل ہے جس کے نتیجے میں وزیر اعظم کے پی شرما اولی کی حکومت ختم ہو گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈین اخبار دی ہندو کے مطابق مرکزی وزارت نے الزام عائد کیا کہ نیپال میں حالیہ جنریشن زی کے احتجاج کے حوالے سے وانگچک کے بعض بیانات بدھ کو ’ہجوم‘ کے ہاتھوں ہونے والے تشدد کے ذمہ دار تھے۔

وانگچک نے وزارت داخلہ کے  بیان پر اپنے ردعمل میں کہا کہ ’یہ خود واقعے جتنا ہی افسوسناک ہے۔ وہ اس معاملے سے جس بچکانہ انداز میں نمٹ رہے ہیں۔‘

 ان کا کہنا تھا کہ حکام الزام تراشی کا کھیل کھیل رہے ہیں اور انہیں ’قربانی کا بکرا‘ بنا رہے ہیں۔ یہ زخم بھرنے کا طریقہ نہیں۔ اس سے صورت حال مزید بگڑے گی۔ نوجوان مزید ناراض ہوں گے۔ یہ سب کچھ ہمارے ساتھ کرنے کے بعد۔ چھ سال کی بے روزگاری اور پورے نہ کیے جانے والے وعدوں کے بعد، اب وہ ہر بات کا الزام مجھ پر لگا رہے ہیں۔‘

حزب اختلاف کا ردعمل

دوسری جانب حزب مخالف کی جماعت کانگریس کا کہنا ہے کہ لداخ کا بحران بی جے پی حکومت کی اپنی پیدا کردہ صورت حال ہے۔

کانگریس کے میڈیا اور تشہیر کے شعبے کے سربراہ پون کھیڑا نے کہا کہ ’وادی میں معمولات بحال کرنے سے کوسوں دور، مرکز کی کوتاہ نظری نے جموں اور لداخ کو بھی تشدد کی بھٹی میں دھکیل دیا ہے۔ یہ بحران بی جے پی حکومت کی اپنی پیدا کردہ صورت حال ہے جسے وہ اب ناانصافی کرتے ہوئے نظر انداز کرنا چاہتی ہے۔‘

دی ہندو نے اپنے اداریے میں لکھا: ’لداخ کا مطالبہ کہ اسے چھٹے شیڈول کے تحت شامل کیا جائے، وقار ملے اور اس کی شناخت کا تحفظ ہو، جائز اور برحق ہے۔ اسے نظرانداز کرنا نہیں، ہمدردی اور دور اندیشی درکار ہے۔‘

اخبار کے مطابق زیر بحث معاملات اور آئندہ لائحہ عمل پر مظاہرین اور مرکز کی سوچ میں واضح خلیج موجود ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل