انڈیا: لداخ میں آئینی حقوق کے لیے دو ماہ سے احتجاج جاری

گذشتہ دو ماہ سے لداخ کے مرکزی شہر لہہ میں مظاہرین نے انڈیا کی مرکزی حکومت سے مزید خودمختاری کا مطالبہ کرنے کے لیے احتجاج شروع کر رکھا ہے۔

ہمالیہ کے پہاڑوں اور چین کی سرحد سے منسلک انڈیا کا خطہ لداخ ایک خوبصورت علاقہ ہے جس میں بادل سے گھری پہاڑی چوٹیاں، سرسبز گھاس کی چراگاہیں اور ہزاروں گلیشیئرز واقع ہیں۔

گذشتہ دو ماہ سے لداخ کے مرکزی شہر لہہ میں مظاہرین نے انڈیا کی مرکزی حکومت سے مزید خودمختاری کا مطالبہ کرنے کے لیے احتجاج شروع کر رکھا ہے۔

اس احتجاج دوران فروری میں کئی شامیں اور راتیں ایسی بھی آئیں جب درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے تھا لیکن لداخ کے لوگوں کا احتجاج جاری رہا۔

یہاں کے رہنے والے ٹیسرنگ ڈولما کا کہنا ہے کہ: ’لداخی یہاں اپنے حقوق مانگنے کے لیے آئے ہیں جو ہمارے آئین کے تحت ہیں اسی لیے ہم یہاں احتجاج کر رہے ہیں۔ ہم لداخی آج بھی پچھلے 75 سالوں سے سب کچھ کھو رہے ہیں۔ ہمیں پچھلے 75 سالوں میں ابھی تک کچھ حاصل نہیں ہوا۔‘

لداخ کا علاقہ اگست 2019 سے پہلے ریاست جموں و کشمیر کے زیر انتظام تھا۔

2019 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکزی حکومت نے کشمیر کی ریاست کی خود مختار حیثیت کو منسوخ کر دیا اور لداخ کو انڈیا کی یونین کا ایک خطہ قرار دیا۔ تب سے یہ براہ راست مرکزی حکومت کے زیر انتظام ہے۔

سطح سمندر سے بلندی پر واقعہ یہ خطہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا شکار ہے جس نے موسم کے دورانیے بھی تبدیل کر دیے ہیں۔ گلیشیئرز پگھل رہے ہیں، سیلاب آ رہے ہیں اور خشک سالی بڑھ رہی ہے۔

اس تمام صورت حال میں لہہ میں دو ماہ سے احتجاج جاری ہے جس کی قیادت لہہ کی سماجی تنظیم اور کارگل جمہوری اتحاد کے رہنما مشترکہ طور پر کر رہے ہیں۔

سونم وانگچک، اس احتجاجی تحریک کے ایک نامور رہنما بن کر ابھرے ہیں۔

مارچ میں سونم وانگچک نے اس مسئلے کی طرف توجہ مبذول کروانے کے لیے انڈیا کی تحریک آزادی کے چوٹی کے رہنما مہاتما گاندھی کی مشہور بھوک ہڑتال کی نقل کرتے ہوئے منجمد درجہ حرارت میں 21 دن کی بھوک ہڑتال کی۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے اندازہ تھا کہ 21 دن مشکل اور جان لیوا ہوں گے۔ میری بھوک ہڑتال کے دوران یہاں تقریباً 42 ہزار لوگ آئے ہیں اور جمہوری عمل سے حمایت کی ہے۔ ہم گاندھی جی کے بتائے ہوئے پر امن راستے پر چلتے ہوئے اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔‘

اس وقت لداخ براہ راست انڈیا کی مرکزی حکومت کے زیر انتظام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فیصلہ سازی کے عمل میں مقامی نمائندوں کی شرکت محدود ہے۔ لیکن ایک ریاست کی حیثیت سے اس کی اپنی مقننہ اور وزیر اعلی ہوں گے۔

ٹیسرنگ ڈولما اس احتجاج میں شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہاں موسمیاتی تبدیلی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ہم نے اپنے ملک انڈیا کا ہر پہلو سے دفاع کیا ہے۔ ہم شہری اپنے ملک کو دشمنوں سے بچانے کے لیے دفاع کے ساتھ رہے اور اب ہم اپنی ثقافت اور ماحول کا بھی تحفظ چاہتے ہیں۔‘

لداخ کے گلیشیئر پانی کا ایک اہم ذریعہ ہیں اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور کم ہوتی بارشوں کی وجہ سے خطے میں پانی کی قلت کا مسئلہ بن گیا ہے۔

ایسے میں خطے میں موجود روایتی بکروال جو پشمینا بکروں اور بکریوں کی افزائش نسل کرتے ہیں، پریشان ہیں۔

مظاہرین نے سات اپریل کو پشمینا بکروالوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کا دن منایا۔

ان بکروں اور بکریوں سے حاصل ہونے والی پشمینا سے دنیا کے بہترین کوٹوں میں سے ایک کوٹ اور شالوں میں سے ایک شال بنتی ہے۔ لیکن ان بکروالوں کے مسائل سننے کو کوئی تیار نہیں۔

چین اور انڈیا کے درمیان سرحدی تنازعے اور اکثر اوقات جاری رہنے والی مسلحہ لڑائیوں کی وجہ سے یہ بکروال اپنی قدرتی اور روایتی چراگاہوں سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سرحدی تنازعے سے دور چراگاہیں مرکزی حکومت کی جانب سے صنعتی ترقی کے فروغ کے لیے قائم کیے جانے والے سولر پارکس کی نظر ہو رہی ہیں اور رہی سہی کسر موسمیاتی تبدیلی نے نکال دی ہے۔

ایسے میں لداخ میں ملازمتوں کا بھی فقدان ہے جس سے نوجوانوں میں بے روزگاری بھی بڑھ رہی ہے۔

ایسے ہی مسائل کے حل کا مطالبہ لیے جب لداخی رہنماؤں کا یہ نمائندہ وفد نئی دہلی گیا تو انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ سے ملاقات ہوئی۔

دی ہندو اخبار کی رپورٹ کے مطابق مارچ کے آغاز میں ہونے والی اس ملاقات کا ’کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا۔‘

تاہم انڈیا کی وزارت داخلہ کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق ’امت شاہ نے وفد کو یقین دلایا کہ انڈیا کی مرکزی حکومت لداخ کو ضروری آئینی تحفظات فراہم کرنے کے لیے پر عزم ہے۔‘

لداخی افراد کی ایک فکر یہ بھی ہے کہ اگست 2019 کے بعد سے یہاں پر باہر کے افراد اور کمپنیاں زمین خرید رہی ہیں۔

مقامی افراد کی اس تشویش پر انڈپینڈنٹ اردو نے لداخ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ جمیانگ سیرنگ سے بھی ان کی رائے لینے کی کوشش کی تاہم انہوں نے اپنا موقف سے انکار کر دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا