انڈیا میں عام انتخابات، پہلے مرحلے میں 21 ریاستوں میں پولنگ

دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں تقریباً ایک ارب ووٹرز پر مشتمل یہ انتخابات سات مرحلوں میں یکم جون تک جاری رہیں گے اور ووٹوں کی گنتی چار جون کو ہو گی۔

انڈیا میں جمعے کو دنیا کے سب سے بڑے عام انتخابات كے لیے ووٹنگ كا آغاز ہو چکا ہے جہاں وزیر اعظم نریندر مودی کے اپنی ذاتی مقبولیت اور ہندو قوم پرستی کی بنیاد پر تیسری مدت کے لیے وزیر اعظم منتخب ہونے كی توقع كی جا رہی ہے۔

ان انتخابات میں مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) دو درجن اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کے خلاف تنہا مقابلہ کر رہی ہے جن كا كہنا ہے کہ ’جمہوری اداروں کو مودی کی آمرانہ حکومت سے بچانے کی ضرورت ہے۔‘

دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں تقریباً ایک ارب ووٹرز پر مشتمل یہ انتخابات سات مرحلوں میں یکم جون تک جاری رہیں گے اور ووٹوں کی گنتی چار جون کو ہو گی۔

جمعہ کو سب سے بڑے مرحلے میں 21 ریاستوں اور وفاقی خطوں کے 102 حلقوں میں ساڑھے 16 كروڑ سے زیادہ ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال كر رہے ہیں جن میں جنوب میں تامل ناڈو، چین کے ساتھ ہمالیہ کی سرحد پر واقع اروناچل پردیش اور شمال میں سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش شامل ہے۔

ووٹنگ كا عمل مقامی وقت كے مطابق صبح 7:00 بجے شروع ہوا جب كہ پولنگ سٹیشن کے کھلنے سے بہت پہلے ہی سخت سکیورٹی کے دوران قطاریں لگانا شروع ہو گئیں جن میں بزرگ شہری بھی شامل ہیں۔

اتر پردیش کے کیرانہ ضلع سے تعلق ركھنے والے 32 سالہ عبدالستار نامی ووٹر نے كہا: ’مودی اقتدار میں واپس آئیں گے، کیونکہ مذہبی دباؤ کے علاوہ انہوں نے ملكی سكیورٹی كے لیے كام كیا ہے۔‘

ایک 60 سالہ ڈرائیور اور آٹھ بچوں کے والد محمد شبیر نے کہا کہ ان کے لیے بے روزگاری سب سے بڑا مسئلہ ہے کیونکہ ان کے بچوں میں سے کسی کے پاس باقاعدہ ملازمت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس الیکشن میں ہندو قوم پرستی کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ ہندو بھی ملازمت کی کمی سے متاثر ہیں۔

سروے بتاتے ہیں کہ بی جے پی آسانی سے اکثریت حاصل کر لے گی حالانکہ ووٹرز کو دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی بڑی معیشت میں بے روزگاری، مہنگائی اور دیہی مسائل کے بارے میں شدید خدشات ہیں۔

مودی نے بی جے پی کے انتخابی منشور میں لکھا ہے كہ ’اگلے پانچ سالوں میں، ہم اپنی قوم کو دنیا کی سب سے بڑی تین معیشتوں میں لے جائیں گے، غربت کے خلاف حتمی اور فیصلہ کن لڑائی شروع کریں گے، ترقی کی نئی راہیں کھولیں گے، اصلاحات اور بہت سے اقدامات کریں گے۔‘

مودی نے پولنگ شروع ہونے سے چند منٹ قبل ایكس پر پوسٹ میں لكھا: ’میں ووٹ دینے والے تمام لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ریکارڈ تعداد میں اپنا حق رائے دہی استعمال کریں۔‘

انہوں نے کہا: ’میں خاص طور پر نوجوان اور پہلی بار ووٹ ڈالنے والوں سے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کا مطالبہ کرتا ہوں۔ آخرکار، ہر ووٹ کا شمار ہوتا ہے اور ہر آواز اہمیت رکھتی ہے۔‘

اگر مودی جیت جاتے ہیں تو آزادی کے بعد کے رہنما جواہر لال نہرو کے بعد وہ مسلسل تین بار منتخب ہونے والے صرف دوسرے انڈین وزیر اعظم ہوں گے۔

مودی کا کہنا ہے کہ ان كی تیسری میعاد میں اہم کام انجام دیے جائیں گے۔ مختلف قصبوں اور شہروں میں بی جے پی کے ہورڈنگز پر چاند کے جنوبی قطب پر انڈیا کی تاریخی لینڈنگ اور بدعنوانی سے لڑنا واضح كیا گیا ہے۔

لیكن ہندو قوم پرستی ایک اہم موضوع ہے۔ مودی کی حکومت اور بی جے پی پر تنقید کرنے والوں کا الزام ہے کہ وہ انڈیا کے 20 كروڑ اقلیتی مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کر رہے ہیں یا اپنے سخت گیر ہندو ووٹرز کو خوش کرنے کے لیے انہیں نشانہ بنا رہے ہیں۔ ملک میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان وقفے وقفے سے تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کا کہنا ہے کہ یہ الیکشن ایک نظریاتی جنگ ہے جو بی جے پی کو آئینی اور جمہوری نظام کو ختم کرنے سے روکنے کے لیے لڑی جا رہی ہے۔

مرکزی اپوزیشن کانگریس پارٹی کے رہنما راہل گاندھی نے کہا کہ بی جے پی ہمیشہ بے روزگاری اور مہنگائی جیسے بڑے مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرتی ہے۔

اپوزیشن كی اتحادی جماعتوں نے بی جے پی کے خلاف مشترکہ امیدوار کھڑے كیے ہیں اور اس نے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ بدعنوانی کے معاملات میں اپوزیشن لیڈروں کو گرفتار کر کے اور ووٹ سے پہلے ٹیکس کے بڑے مطالبات کر کے اسے برابری کے میدان سے محروم کر رہی ہے۔

دہلی کے ہندو کالج میں سیاست پڑھانے والے چندرچور سنگھ نے کہا کہ بی جے پی کے پاس واضح برتری ہے لیکن اسے حقیقی چیلنجوں کا بھی سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ ایسے الیکشن نہیں ہیں جہاں کوئی مسائل نہ ہوں۔ ایسے مسائل ہیں جن کی وجہ سے حکومت مخالف ہوا چل سکتی تھی۔ لیکن یہ وہ چیز ہے جس کو ایک بکھری ہوئی، منقسم، کمزور اپوزیشن استعمال نہیں كر رہی اور یہی وجہ ہے کہ رائے دہندگان میں ایک طرح سے مایوسی پھیل رہی ہے اور بی جے پی کو آگے بڑھنے کا موقع مل رہا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا