انڈیا کے سرکاری نشریاتی ادارے ڈی ڈی نیوز نے اپنے لوگو کا رنگ روبی سرخ سے زعفرانی رنگ میں تبدیل کر دیا ہے جس پر حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے شدید برہمی کا اظہار کیا ہے، ایسا اس دوران ہوا جب ملک کے انتہائی اہم انتخابات ہو رہے ہیں۔
ڈی ڈی نیوز چلانے والی سرپرست تنظیم براڈکاسٹر پرسار بھارتی کے اس اقدام سے ملک میں کم ہوتی پریس کی آزادی کے متعلق تشویش پیدا ہو گئی ہے۔
نشریاتی ادارے نے منگل کو باضابطہ طور پر نیا لوگو متعارف کرایا اور اس اقدام کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری اقدار وہی ہیں۔‘
انہوں نے سوشل میڈیا ویب سائٹ ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ’اگرچہ ہماری اقدار وہی ہیں، لیکن اب ہم ایک نئے روپ میں دستیاب ہیں۔ پہلے سے مختلف خبروں کے سفر کے لیے تیار ہو جائیں.. بالکل نئے ڈی ڈی نیوز کا تجربہ کریں!‘
انہوں نے کہا، ’ہمارے پاس: رفتار کی بجائے درستگی، دعوؤں کی بجائے حقائق، سنسنی خیزی کی بجائے سچائی، پیش کرنے کی جرات ہے، کیونکہ اگر یہ ڈی ڈی نیوز پر ہے تو یہ سچ ہے۔‘
زعفرانی رنگ کے نئے لوگو پر حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے برہمی کا اظہار کیا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ یہ ملک اور اس کے اہم اداروں کو زعفرانی رنگ دینے کی کوشش ہے۔
زعفرانی رنگ کو حکمراں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ساتھ جوڑا جاتا ہے جس نے اسے اپنے جماعتی رنگ کے طور پر اپنایا اور اسے پارٹی جھنڈوں، بینرز، سکارف اور لباس میں استعمال کیا ہے۔ ہندوؤں میں بھی یہ رنگ مذہبی اہمیت کا حامل ہے۔
پرسار بھارتی وفاقی حکومت کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن میڈیا اداروں کو چلاتی ہے جو کہ بالترتیب آکاش وانی آل انڈیا ریڈیو اور دوردرشن (ڈی ڈی) ٹی وی ہیں۔
مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ اور آل انڈیا ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کی صدر ممتا بینرجی نے کہا کہ ’ملک بھر میں قومی انتخابات کے دوران دوردرشن لوگو کی اچانک تبدیلی اور زعفرانی رنگ پر وہ حیران ہیں۔‘
بنرجی نے کہا کہ ’یہ بالکل غیر اخلاقی، سراسر غیر قانونی ہے، اور قومی عوامی نشریاتی ادارے کے بی جے پی کی طرف واضح جھکاؤ کو ظاہر کرتا ہے!‘
انہوں نے اسے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دیا کیونکہ انتخابات جاری ہیں اور الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر پہلے والا لوگو واپس لایا جائے۔
پرسار بھارتی کے سابق سی ای او جوہر سرکار نے کہا کہ وہ ڈی ڈی کے ’زعفرانی نگ کو خطرہ‘ سمجھتے ہیں۔
سرکار، جو اپوزیشن ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) پارٹی کے رکن پارلیمنٹ بھی ہیں کے بقول، ’صرف لوگو ہی نہیں، اب پبلک براڈکاسٹر کا سب کچھ زعفرانی ہے۔ برسراقتدار پارٹی کے پروگراموں اور تقریبات کو زیادہ سے زیادہ ایئر ٹائم ملتا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کو اب شاید ہی کوئی جگہ ملتی ہے۔
ناقدین نے اس فیصلے کے وقت پر بھی سوال اٹھایا ہے کیونکہ ملک میں قومی انتخابات 19 اپریل کو شروع ہوئے تھے اور وزیراعظم نریندر مودی تیسری مدت کے لیے انتخاب لڑ رہے ہیں۔
ترنمول کانگریس پارٹی کے ترجمان شوبھنکر بھٹاچاریہ نے کہا کہ ’انہیں ڈر ہے کہ انڈیا کے ترنگے کو بھی حکمران جماعت سے خطرہ ہے جو پورے ملک کو ایک خاص رنگ میں رنگنا چاہتی ہے اور وہ زعفرانی ہے۔‘
انہوں نے ٹائمز ناؤ پر کہا کہ’ اس کی کیا ضرورت تھی؟ یہ صرف لوگوں کے سامنے اپنی طاقت ثابت کرنے کے لیے ہے۔ وہ دکھا رہے ہیں کہ یا تو آپ جھک جائیں گے یا پھر ہم آپ کو زبردستی جھکائیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک انڈیا سوشل میڈیا صارف کا کہنا تھا کہ یہ چینل سرکاری ملکیت ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ عوامی ملکیت ہے اور سیاسی جماعتوں کو اس طرح کا ’متعصبانہ فیصلہ لینے کا حق نہیں ہونا چاہیے۔‘
پرسار بھارتی کے سی ای او گورو دویدی نے اس تشویش پر بات کرتے ہوئے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ نئے لوگو کا ’نارنجی رنگ پرکشش‘ ہے اور اس فیصلے بنیاد خالصتا چینل کی ری برانڈنگ ہے۔
انہوں نے کہا کہ چند ماہ قبل جی 20 سربراہ اجلاس سے قبل ہم نے ڈی ڈی انڈیا میں تبدیلیاں کیں اور اس چینل کے لیے بصری زبان کے طور پر گرافکس کا ایک سیٹ منتخب کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’روشن اور دلکش رنگ استعمال کرنے کا تعلق خالصتا چینل کی برانڈنگ اور بصری جمالیات سے ہے، اور اگر کسی کو اس میں کچھ اور نظر آ رہا ہے تو یہ بدقسمتی کی بات ہے۔
’یہ صرف ایک نیا لوگو نہیں ہے، پوری شکل اور ماحول کو اپ گریڈ کیا گیا ہے - ہمارے پاس ایک نیا سیٹ، نئی لائٹنگ، بیٹھنے کا انتظام اور سامان ہے۔‘
گذشتہ سال انڈیا کے سرکاری نشریاتی ادارے نے حکمراں دائیں بازو کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی نظریاتی سرپرست تنظیم کی حمایت یافتہ نیوز ایجنسی کے ساتھ دو سالہ معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
پبلک براڈکاسٹر نے اپنی روزانہ کی نیوز فیڈ کے لیے ہندوستان سماچار کے ساتھ ایک خصوصی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ ہندوستان سماچار کو مبینہ طور پر حکمراں بی جے پی کی نظریاتی سرپرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی حمایت حاصل ہے۔
گذشتہ سال مئی میں جاری ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق انڈیا کی درجہ بندی 180 ممالک میں سے 150 ہو گئی ہے، جو پچھلے سال 142 پر تھی۔
© The Independent