لداخ میں احتجاجی مظاہرین پر انڈین پولیس کی فائرنگ، پانچ اموات

احتجاج کے دوران لہہ شہر میں انڈیا کی حمکران جماعت بی جے پی کے دفتر کو آگ لگا دی گئی۔

24 ستمبر 2025 کو لیہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دفتر کے قریب سڑک پر مظاہرین کی طرف سے نذر آتش کی گئی پولیس کی گاڑی کی تصویر ہے۔ پولیس نے لداخ میں خود مختاری کا مطالبہ کرنے والے سینکڑوں مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا (سیوانگ رگزن / اے ایف پی)

انڈیا کے ہمالیائی علاقے لداخ میں برسوں سے جاری کشیدگی بدھ کو شدت اختیار کر گئی جب خودمختاری اور ریاستی درجہ کے مطالبے کے لیے احتجاج نے پرتشدد شکل اختیار کر لی ہے۔

پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں پانچ افراد جان کھو بیٹھے اور 50 سے زائد زخمی ہو گئے۔ اس دوران لیہ شہر میں بی جے پی کے دفتر کو بھی آگ لگا دی گئی۔

یہ تشدد مذاکرات سے پہلے ہوا جو کہ 6 اکتوبر کو مرکز اور لیہ اپیکس باڈی کے درمیان ہونے تھے، جو چار ماہ کے وقفے کے بعد ہونے تھے۔ 

مظاہرین نے پولیس کی ایک گاڑی اور وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے دفاتر کو آگ لگا دی، پولیس نے اشک آور گیس اور لاٹھیاں استعمال کرتے ہوئے ہجوم کو منتشر کیا۔ 

لہہ کی ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ احتجاج کے دوران پانچ افراد مارے گئے جبکہ زخمیوں کی تعداد درجنوں میں ہے۔ 

ایک اور پولیس اہلکار ریگزن سانگڈپ کے مطابق، ’کئی لوگ زخمی ہوئے ہیں جن میں کچھ پولیس والے بھی شامل ہیں۔‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مقامی انتظامیہ نے بعد میں چار سے زائد افراد کے جمع ہونے پر پابندی عائد کر دی۔ 

لداخ، جو کہ تقریباً 3 لاکھ آبادی پر مشتمل ہے، چین اور پاکستان کی سرحدوں کے قریب واقع ایک بلند پہاڑی صحرائی علاقہ ہے۔ 

اس کے رہائشیوں میں تقریباً نصف مسلمان اور 40 فیصد بدھ مت کے پیروکار ہیں۔ 

اس علاقے کی ’یونین ٹیریٹری‘ کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے، یعنی یہاں سے قانون ساز قومی پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوتے ہیں لیکن اس پر نئی دہلی براہِ راست حکومت کرتا ہے۔ 

یہ احتجاج مشہور کارکن سونم وانگچک کے ساتھ یکجہتی میں کیا گیا تھا، جو دو ہفتے سے بھوک ہڑتال پر ہیں۔ 

وانگچک کا مطالبہ ہے کہ یا تو لداخ کو مکمل ریاست کا درجہ دیا جائے یا اس کے قبائلی علاقوں، زمین اور حساس ماحول کے لیے آئینی تحفظات فراہم کیے جائیں۔ 

ان کا کہنا ہے کہ ’جب نوجوانوں کو بے روزگار رکھا جائے اور ان کے جمہوری حقوق سے محروم کیا جائے تو سماجی بے چینی جنم لیتی ہے۔‘ 

انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ حالات چاہے جیسے بھی ہوں، پرتشدد اقدامات سے گریز کریں۔ 

انڈیا کی فوج کا لداخ میں بڑی تعداد میں تعینات ہے، جہاں چین کے ساتھ متنازعہ سرحدی علاقے بھی شامل ہیں۔ 

2020 میں دونوں ممالک کے فوجی یہاں لڑ چکی ہیں جن میں کم از کم 20 انڈین اور چار چینی فوجی مارے گئے تھے۔ 

مودی حکومت نے 2019 میں لداخ پر بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر سے الگ کر کے براہِ راست حکمرانی عائد کی تھی۔ 

اب تک نئی دہلی نے لداخ کو انڈیا کے آئین کے چھٹے شیڈول میں شامل کرنے کا وعدہ پورا نہیں کیا، جو قبائلی علاقوں کو خود مختاری فراہم کرتا ہے۔ 

وانگچک نے کہا، ’آج یہاں جمہوریت کا کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں ہے۔ حتیٰ کہ چھٹا شیڈول بھی، جو وعدہ کیا گیا تھا، نافذ نہیں کیا گیا۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا