عراق: سات سال سے نسل کشی کا شکار یزیدی آج کس حال میں ہیں؟

داعش کے حملے کو سات سال گزر چکے ہیں لیکن عراق کا یزیدی گروہ اب بھی انہی بنیادی مسائل سے دوچار ہے جس کی جڑیں فرقہ وارانہ تقسیم اور 2014 کی نسل کشی میں پیوست ہیں۔ 

نو دسمبر 2021 کو سنجر ضلع کے شمالی عراقی گاؤں میں داعش کے یزیدی متاثرین اجتماعی جنازے میں شریک (فائل تصویر: اے ایف پی)

شمالی عراق میں موجود ایک نسلی مذہبی گروہ عراقی یزیدی ہر سال دسمبر کے دوسرے ہفتے میں روجیت آذری کا تہوار مناتے ہیں جو تین دن کے روزوں کے بعد آتا ہے۔

(یاد رہے کہ اس مذہب کا یزید بن معاویہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ یزید قدیم فارسی لفظ ’ایزد‘ یا ’یزد‘ سے نکلا ہے جو خدا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں بھی ایزدی لفظ استعمال ہوتا ہے، مثال کے طور پر مشیتِ ایزدی، یا تائیدِ ایزدی، یعنی خدا کی تائید اور خدا کی مشیت۔)

2019 میں عراقی کردستان کے ایک پناہ گزین کیمپ میں اپنی نسلی جغرافیائی  تحقیق کے عملی مشاہدے کے دوران میں نے دیکھا کہ کس طرح یہ تہوار بے گھر یزیدیوں کے لیے خوشی کا باعث بنتا ہے جب وہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ جشن مناتے اور تہوار کے لباس میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ روزے کا تہوار دکھ اور سوگواری سے بھرا ہوتا ہے۔

دو لاکھ سے زائد عراق کے بے گھر یزیدی پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے ہیں جہاں مفلسی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ بہت سے خاندان اب بھی تقریباً تین ہزار یزیدی خواتین اور بچوں کو تلاش کر رہے ہیں جنہیں 2014 میں داعش نے اغوا کر لیا تھا۔ شمالی عراق میں یزیدی گروہ کا آبائی علاقہ سنجار بدستور جنگ زدہ علاقہ ہے کیونکہ عراق میں اقتصادی اور سیاسی استحکام کا امکان ابھی تک نظر نہیں آتا۔ 

یزیدی کون ہیں اور یہاں تک کہ سات سال گزرنے کے بعد بھی وہ معمول کی زندگی کی طرف کیوں نہیں لوٹ سکے؟ 

یزیدی عقائد

 بول چال کی زبان میں ’ملکِ طاؤس والے لوگ‘ کہے جانے والے یزیدی توحیدی مذہب کے پیروکار ہیں۔ اگرچہ یزیدیوں کے مذہبی عقائد زرتشت، عیسائیت اور اسلام جیسے دیگر مذاہب کے عقائد سے ملتے جلتے ہیں لیکن ان کی تشریحات اور عملی طور طریقے بالکل الگ طرح کے ہیں۔

یزیدیوں کا عقیدہ ہے کہ خدا، جسے وہ ژوید Xwedê  کہتے ہیں، نے دنیا کے معاملات سات مقدس ہستیوں کے سپرد کر رکھے ہیں جنہیں ہفت سِر کہا جاتا ہے۔ ملکِ طاؤس یاPeacock angel  یا ان مقدس ہستیوں میں نمایاں ہستی ہیں اور انہیں روئے زمین پر خدا کا مرکزی نمائندہ مانا جاتا ہے۔

غلطی سے یورپی اور اسلامی محقیقین کئی صدیوں تک ملکِ طاؤس کی شکل کو ابراہیمی مذاہب میں موجود شیطان سے ملاتے رہے اس غلط فہمی کی وجہ سے یزیدیوں کو غلطی سے شیطان پرست کہا جانے لگا۔ 

شمالی عراق میں یزیدی برادری کی تاریخ ظلم و تشدد سے بھری پڑی ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے 1299 سے 1922 تک کے تقریباً چھ سو سال تک یزیدیوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد برطانوی فوج نے بیسویں صدی کے اوائل میں شمالی عراق کے یزیدی اور دیگر نسلی گروہوں پر مظالم ڈھائے۔ 

یزیدیوں کے خلاف پرتشدد مہمات کا سلسلہ 1968 سے 2003 تک اقتدار میں رہنے والی بعث پارٹی کی حکومت کے دوران جاری رہا۔ اس دوران یزیدی گروہ کی آبادیوں پر مشتمل دیہاتوں کی تباہی سے بڑے پیمانے پر انہیں بے گھر ہونا پڑا۔  2007 میں عراق پر امریکی حملے کے چند سال بعد یزیدی برادری نے صدام کے بعد کے عراق میں مہلک ترین کار بم حملوں میں سے ایک کا سامنا کیا۔ 

یزیدی گروہ کے روایتی قصے تاریخ میں ہونے والے 74 ظلم و ستم کی تصدیق کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک خطہ جس کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں

’یوم سیاہ‘ یا Roja Res کے نام سے معروف 2014 میں داعش کا حملہ سنجر کے زوال اور یزیدی برادری کے بڑے پیمانے پر دربدی کا باعث بنا اور یہ اپنی طرز کا کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں تھا۔ بلکہ اس کی جڑیں 2003 میں عراق پر ہونے والے حملے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی طاقت کی رسہ کشی میں پیوست تھیں۔ 

امریکی حملے کے بعد سنجر کا علاقہ ’متنازع علاقوں‘ کی فہرست میں آ گیا۔ زیادہ تر تیل کی دولت سے مالا مال یہ علاقے طویل عرصے سے عراق میں عرب کرد تنازعے کا مرکز رہے ہیں۔ امریکی حملے سے پہلے یہ علاقے زیادہ تر عراقی فوج کے کنٹرول میں تھے۔ تاہم 2003 میں صدام حسین کے زوال کے بعد امریکی فوج کی مدد سے کردستان کی علاقائی حکومت نے سنجر سمیت ان علاقوں کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا۔ فرقہ وارانہ ماحول اور صدام کے زوال کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی خلا نے خطے میں داعش کے عروج میں اہم کردار ادا کیا۔ 

2014 میں دہشت گردانہ حملے کے موقع پر ہزاروں یزیدیوں نے کرد حکام کی جانب سے کیے جانے والے تحفظ کے وعدوں سے امیدیں وابستہ کیں۔ تاہم کرد افواج کے جلد بازی پر مبنی انخلا نے پورے خطے کو اپنے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ 

داعش کے علاقے پر قبضہ کرتے ہی لاکھوں یزیدی شدید گرمی میں سنجر پہاڑ کی طرف فرار ہو گئے۔ یزیدیوں کی اکثریت کو بالآخر عراقی کردستان کے پناہ گزین کیمپوں میں دوبارہ آباد کیا گیا، جہاں میں نے اپنی عملی تحقیق کی۔

کرونا کی وبا اور مایوسی

داعش کے حملے کو سات سال گزر چکے ہیں لیکن عراق کا یزیدی گروہ اب بھی انہی بنیادی مسائل سے دوچار ہے جس کی جڑیں فرقہ وارانہ تقسیم اور 2014 کی نسل کشی میں پیوست ہیں۔ 

میں نے خود دیکھا ہے کہ کس طرح بے گھر یزیدی گروہ نے بجلی اور صاف پانی جیسی بنیادی سہولیات تک رسائی کے لیے جدوجہد کی ہے۔ صحت کی بنیادی ضروریات پورا کرنے کے لیے مہنگا علاج ان کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے یا اگر وہ پورا کرتے بھی ہیں تو یہ ان کے لیے شدید مالی مشکلات کا باعث بنتا ہے۔ 

سنجر کے علاقے میں امن و امان کی بحالی کے لیے کردستان اور عراقی حکومت کے درمیان 2020 میں کیے گئے معاہدے پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا۔ یہ معاہدہ خطے کے تمام مسلح گروہوں کی ملک بدری، تخفیف اسلحہ اور بے گھر یزیدیوں کو اپنے وطن واپس جانے کے خدوخال متعین کرتا ہے۔

کرونا کی وبا نے بے گھر یزیدیوں کو مزید مایوسیوں کے اندھیرے میں دھکیل دیا ہے اور پناہ گزین کیمپوں میں ان کی گزر بسر کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ بہت سے لوگوں کو کیمپوں میں رہنے، طویل لاک ڈاؤن کو برداشت کرنے اور اپنا روزگار کھونے یا اپنے گھروں کو لوٹنے کی راہ میں درپیش سیاسی و عسکری تشدد کے خطرات میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑا ہے۔ 

2019 میں روزے کے تہوار کے دوران جب میں اپنی عملی تحقیق کر رہا تھا اس وقت میں نے یزیدی گروہ کے بچوں کو دیکھا جو نئے کپڑوں میں ملبوس، مسکراتے چہروں کے ساتھ خوشی خوشی ایک ایک کیمپ میں جا کر اپنے لیے ٹافیاں اکٹھی کر رہے تھے۔

تاہم عین اسی وقت ان کے والدین اس رنج و الم سے لڑ رہے تھے کہ وہ ایسے مقام پر قیام پذیر ہیں جہاں انہیں اجنبی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جیسا کہ عملی تحقیق کے دوران ایک یزیدی نے مجھ سے کہا ’ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ اپنی ہی سرزمین میں اجنبی بن کر رہ گئے ہوں۔‘        

-----

یہ تحریر ’دا کنورسیشن‘ کی اجازت سے چھاپی گئی ہے۔ اس کے مصنف ہمان اولیائی امریکی ریاست میساچوسٹس میں برینڈیس یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا