اے عورت، تم نے کامیاب ہونے کی جرات کیسے کی؟

عین ممکن ہے سوشل میڈیا پہ انگوٹھا چلاتے چلاتے تمہیں اچانک اپنے خلاف کچھ ایسا بھی نظر آ جائے کہ تم بے ساختہ رو پڑو، شدید غصے میں آ جاؤ یا انتہائی گہرے دکھ کا شکار ہو جاؤ۔

اگر تم کامیاب مرد ہو تو تمہارے پچاس دشمن ہوں گے لیکن اگر تم ایک کامیاب عورت ہو تو تمہارے دشمن پچاس ہزار ہونے کا امکان ہے۔

تم نے جرات ہی کیسے کر لی باقیوں سے آگے آنے کی؟ اور جب ان ڈھیر سارے باقیوں میں ایک چنگی بھلی تعداد مردوں کی بھی ہے!

اب تم بس ہر طرح کے نفرت بھرے رویوں کے لیے تیار رہو۔ عین ممکن ہے سوشل میڈیا پہ انگوٹھا چلاتے چلاتے تمہیں اچانک اپنے خلاف کچھ ایسا بھی نظر آ جائے کہ تم بے ساختہ رو پڑو، شدید غصے میں آ جاؤ یا انتہائی گہرے دکھ کا شکار ہو جاؤ۔

یہ سب کچھ تو ہو گا۔ آخر تم نے کامیاب ہونے کی کوشش کی اور دوسروں کو پیچھے دھکیل کر خود آگے نکل بھی گئیں۔ تو یہ بہرحال ایک قابل مواخذہ جرم ہے اور بار بار تمہیں اس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔

اے مشہور اور کامیاب خاتون۔ کوشش کرو کہ عام لوگوں کے درمیان گھومتے ہوئے تمہاری اوڑھنی تمہارے سر سے نہ ڈھلکے۔ تمہارے کپڑے ہرگز فٹنگ والے نہ ہوں۔ تم نے بال تو بالکل چھوٹے نہ کٹوائے ہوں۔ بالوں میں اگر سنہری رنگ جھانکے گا تو وہ بھی تمہارے کردار پر ایک سوالیہ نشان کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ کوشش کرو کہ شدید گرمی کے موسم میں بھی لان کی قمیض کے نیچے ایک اور مکمل قمیص پہنو، تم سے نفرت کرنے والے بھی اس موقعے پر تمہیں پلس پوائنٹ دیں گے۔ تم نے ایڑھی والی جوتی پہن کے اپنا قد مردوں کے برابر بالکل نہیں کرنا۔ اس سے تو ان کو تم سے خاص چڑ ہو جائے گی۔ تم اگر کسی سے ہنس کے بات کرو گی تو اسے تمہارے کردار کی خرابی گنا جائے گا۔ اس کے برعکس اگر تم کسی سے بات ہی نہیں کرتی تو وہ بھی ساتھ والوں کے لیے ایک قابل اعتراض مزاج سمجھا جائے گا۔ تم تو سرخی پاوڈر بھی زیادہ دل کھول کے مت لگانا، وہ سمجھیں گے کہ تم ان کے لیے تیار ہوتی ہو۔

اچھا بات سنو۔ تمہارے ہاتھ میں سگریٹ کبھی کسی کو نظر نہیں آنا چاہیے۔ ہو سکے تو ایک تسبیح رکھ لو، دشمنوں کو تو افاقہ رہے گا ہی، دوستوں کو بھی ٹھنڈ پڑی رہے گی۔ ایک اور بات یاد رکھنا۔ تمہارے دوست بھلے جتنے ہی لوگوں سے بدتمیزی کرتے رہیں، دوسروں پہ ہاتھ اٹھائیں، سڑک پہ رش میں پھنس کے اگلے گاڑی والے کو گالیاں دیں، کسی ملازم کو ٹھیک کام نہ کرنے پہ زبردست جھاڑ پلائیں، کسی ریڑھی پہ کھڑے چھوٹے سے کچھ غلط ہو جائے تو اسے ایک آدھ چماٹ لگ دیں، استاد ہو کر شاگردوں کو ماریں اور شاگرد ہو کے ایک دوسرے کے ماتھے پھوڑیں، میاں بیوی آپس میں لڑائی کریں، پڑوسیوں سے جھگڑیں یا اپنی اولاد کو جوتے ماریں، کچھ بھی کرتے رہیں، انہیں سب معاف ہے۔ یاد رکھو، تمہیں کچھ معاف نہیں ہے! چوں کہ تم ایک کامیاب عورت ہو۔ تم ایک سلیبریٹی ہو۔ تم مردوں کے معاشرے میں سر اٹھا کے چلتی ہو۔ تم کسی کے گھر سے نہیں کھاتی۔ تم اپنے گھر والوں کو کھلاتی ہو۔ تو بس ان کی انا کے لیے تم ایک بوجھ ہو۔

تم چاہے بے نظیر ہو جاؤ، ملالہ بنو، عاصمہ جہانگیر بن جاؤ، چاہے تم قندیل بلوچ ہو، متھیرا ہو، ریما ہو، میرا ہو، تم مہر بخاری بن جاؤ، عاصمہ شیرازی ہو جاؤ، غریدہ فاروقی بن جاؤ، رابعہ انعم بن جاؤ، کہیں نہ کہیں، کبھی نہ کبھی تمہیں گھیر گھار کے کٹہرے میں لایا ضرور جائے گا۔ تمہیں چار چوٹ کی ایسی مار دی جائے گی کہ تم کبھی کچھ کرنے کے قابل نہ رہو۔

تمہاری صرف ایک لغزش ساری عمر کے لیے تمہارے گلے کا پھندا بنا دی جائے گی۔ کیوں؟ کیوں کہ تم میڈیا پرسن ہو، تم کامیاب ہو اور تمہاری وہ غلطی لوگوں کے سامنے آ چکی ہے۔ خود اپنے گھروں میں ساری عمر وہ جو کچھ مرضی کرتے رہے ہوں، چوں کہ تمہاری ایک غلطی ان کے ہاتھ آ چکی ہے (بے شک تم اس کا ازالہ کر بھی چکی ہو) اس لیے تمام عمر اب تم نے اسی کا سٹیکر منہ پہ لگا کر گھومنا ہے! تمہاری ساری محنت ضائع، تمہاری ساری جدوجہد پانی!ً وہ مذہبی طبقہ ہو یا لبرل، تم ان کے نزدیک اب یقینا قابل سزا ہو۔

تو اے کامیاب عورت۔ ان لوگوں کی باتوں پر توجہ مت دو۔ منزل تک صرف ایک راستہ لے کے جاتا ہے، اگر تم اس پر موجود ہو تو بس جمی رہو۔ حکیم لقمان نے بھی یہی کہا تھا، ’کچھ تو لوگ کہیں گے، لوگوں کا کام ہے کہنا!‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: مندرجہ بالا تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ