سقوط ڈھاکہ کے مرکزی کردار جنرل نیازی کون تھے؟

جنرل نیازی نے کہا تھا کہ ہماری فوج عزت کے ساتھ زندہ رہے گی یا اپنے مقصد کے لیے جان دے دے گی، مگر صرف چار دن بعد ایسا کیا ہوا کہ انہیں بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہونا پڑا؟

 (پبلک ڈومین)1971 میں جنگ کے دوران جنرل نیازی 

سقوط ڈھاکہ کو نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا مگر پاکستانیوں کے دل و دماغ پر آج بھی وہ منظر زخم کی طرح نقش ہے جب مشرقی کمان کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے ہندوستان کے لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کیے تھے۔

آج انہی جنرل نیازی کی 18 ویں برسی ہے۔

امیر عبداللہ خان نیازی 1915 میں پیدا ہوئے تھے۔ 1932 میں انہوں نے برٹش آرمی میں بطور سپاہی شمولیت اختیار کی۔ 1942 میں انہیں کنگز کمیشن ایوارڈ دیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم میں انہیں برما کے محاذ پر دلیرانہ کارکردگی دکھانے پر محاذ جنگ پر ہی ملٹری کراس دیے جانے کا اعلان ہوا اور 161 انفنٹری کمانڈ کے کمانڈر کے بریگیڈیئر ڈی ایف ڈبلیو وارن نے انہیں ’ٹائیگر‘ کا خطاب دیا۔

1947 میں انہوں نے پاکستان کی بری فوج میں شمولیت اختیار کی اور دو مرتبہ ہلال جرأت کا اعزاز حاصل کیا۔

امیر عبداللہ خان نیازی تین ستمبر 1971 کو پاکستان کی مشرقی کمان کے کمانڈر اور مشرقی پاکستان کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیے گئے تھے۔ 22 نومبر 1971 کو جب بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا تو وہ انہی عہدوں پر فائز تھے۔ 16 دسمبر 1971 کو انہوں نے کمانڈر چیف اور صدر پاکستان جنرل محمد یحییٰ خان کے حکم پر بھارت اور بنگلہ دیش کی مشترکہ ایسٹرن کمانڈر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔

ہتھیار ڈالنے کے بعد جنرل نیازی جنگی قیدی بنا لیے گئے۔ دسمبر 1971 میں ذوالفقار علی بھٹو نے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد سقوط ڈھاکہ کے اسباب کا جائزہ لینے کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس حمود الرحمٰن کی سرکردگی میں ایک کمیشن مقرر کیا جس میں سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس طفیل علی عبدالرحمٰن اور پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس انوار الحق شامل تھے۔

کمیشن کا دائرہ کار بہت محدود رکھا گیا اور کہا گیا کہ کمیشن ان حالات کی تحقیق کرے گا جن میں مشرقی کمان کے کمانڈر اور اس کے زیر کمک مسلح افواج کے ارکان نے ہتھیار ڈالے۔ اس کمیشن نے اپنی عبوری رپورٹ 12 جولائی 1972 کو صدر پاکستان کی خدمت میں پیش کی۔ کہا گیا کہ حتمی رپورٹ اس وقت پیش کی جائے گی جب بھارت سے جنگی قیدیوں کی واپسی مکمل ہوجائے گی اوروہاں قید اہم جنرلوں کے بیانات قلم بند کر لیے جائیں گے۔

30 اپریل 1974 میں جنگی قیدیوں کی یہ واپسی مکمل ہوئی۔ وطن واپس آنے والے جنگی قیدیوں کے آخری گروپ میں سرفہرست نام لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کا تھا۔ حمود الرحمٰن کمیشن نے ان جنگی قیدیوں کے بیانات قلم بند کیے اور اپنی حتمی رپورٹ صدر مملکت کی خدمت میں پیش کر دی۔ تاہم 2000 تک اس رپورٹ کو عوام کے لیے جاری نہیں کیا گیا، حتیٰ کہ اگست 2000 میں بھارتی اخبار ’انڈیا ٹو ڈے‘ میں اس رپورٹ کے اقتباسات شائع ہوئے جس کے بعد حکومت پاکستان کو بھی اس رپورٹ کو جاری کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ جنرل نیازی کوڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، تاہم انہیں یہ اجازت دی گئی تھی کہ اگر وہ ضروری سمجھیں تو ہتھیار ڈال سکتے ہیں اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ڈھاکہ کا دفاع کر سکتے ہیں تو ایسے کسی حکم کی خلاف ورزی بھی کر سکتے ہیں۔ ڈھاکہ میں ان کے پاس 26400 فوجیوں کی نفری تھی جن کی مدد سے وہ کم از کم دو ہفتے تک دشمن کو روک سکتے تھے۔ اس دوران اگر جنرل نیازی کی جان چلی جاتی تو وہ تاریخ کا حصہ بن جاتے اور آئندہ نسلیں انہیں ہیرو اور شہید کے طور پر یاد رکھتیں۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جنرل نیازی نے ہتھیار ڈالنے کی تقریب اور معاہدے کے دوران جو رویہ اختیار کیا وہ بھی شرمناک تھا۔

12  دسمبر1971 کو لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے اعلان کیا تھا کہ ڈھاکہ تک پہنچنے کے لیے دشمن کو میرے سینے پر ٹینک چلانا ہو گا۔ انہوں نے یہ بات ڈھاکہ کے ہوائی اڈے پر غیر ملکی باشندوں کے سامنے کہی جو ڈھاکہ سے انخلا کے لیے یہاں جمع تھے۔ انہوں نے ہتھیار ڈالنے کے متعلق ایک سوال پر کہا کہ ہماری فوج عزت کے ساتھ زندہ رہے گی یا اپنے مقصد کے لیے جان دے دے گی، مگر صرف چار دن بعد ایسا کیا ہوا کہ انہیں بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہونا پڑا؟

سقوط ڈھاکہ کے ربع صدی بعد لیفٹیننٹ جنرل (ر) امیر عبداللہ خان نیازی کی آپ بیتی The Betrayal of East Pakistan کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ ’سانحہ مشرقی پاکستان: تصویر کا دوسرا رخ‘ کے نام سے چھپا۔ اس کتاب کی اشاعت سے پہلے بھی جنرل نیازی مختلف انٹرویوز اور بیانات میں بتاتے رہے تھے کہ ان کا اور ان کی ماتحت فوج کا جذبہ بہت بلند تھا۔ انہوں نے13 دسمبر کو ’آخری گولی، آخری آدمی‘ کا حکم دیا تھا، جو فوجی کے لیے موت کا وارنٹ ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میرے تمام ساتھیوں نے اس پر لبیک کہا تھا، تاہم اس موقع پر فوج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان نے ان کے اس عزم کا ساتھ نہیں دیا اور اسی رات مجھے جنرل حمید کا حکم ملا کہ مغربی پاکستان خطرے میں ہے آپ ہتھیار ڈال دیں، اگر مغربی پاکستان ہی نہیں رہے گا تو ہم مشرقی پاکستان کا کیا کریں گے، لہٰذا بحیثیت ایک فوجی، سربراہ مملکت کا حکم ماننا میرا فرض تھا۔‘

جنرل نیازی یہ بھی بتاتے تھے کہ مشرقی پاکستان میں تین ہزار مربع میل کے دفاع کے لیے 45 ہزار فوج مختص کی گئی تھی جبکہ انہیں بھارت کی پانچ لاکھ فوج کا سامنا تھا، اس کے برعکس مغربی پاکستان میں ساڑھے چار لاکھ فوج موجود تھی جس میں پانچ ڈویژن فوج اس لیے رکھی گئی تھی کہ اسے بوقت ضرورت مشرقی پاکستان بھیجا جائے گا مگر یہ نوبت کبھی نہیں آئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جنرل نیازی کا کہنا تھا کہ اگر اس پانچ ڈویژن فوج میں سے مجھے صرف دو ڈویژن فوج مل جاتی تو میں مشرقی پاکستان کا بہتر دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ آسام بھی فتح کر کے دکھا دیتا۔ جب بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا تو میں نے 26 دن تک بھارتی فوج کو روکے رکھا۔ مغربی پاکستان نے، جہاں سب سے زیادہ فوج تھی، بھارت پر 13 دن تک حملہ نہ کیا۔ وہ اقوام متحدہ میں بھی نہیں گیا، وہ مشرقی پاکستان کھونا چاہتے تھے۔ یہ فوجی نہیں سیاسی شکست تھی۔

حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ڈھاکہ میں صورت حال اس قدر مایوس کن نہیں تھی کہ فوری طور پر ہتھیار ڈال دیے جاتے۔ یہ ممکن تھا کہ بھارتی فوج کو چند روز تک روکے رکھا جاتا لیکن پورے مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کی حالت ایسی نہ تھی کہ اسے شکست سے بچایا جا سکتا۔

پاکستانی فوج کے عقب میں مکتی باہنی انتہائی متحرک ہو چکی تھی حتیٰ کہ سول آبادی کو بھی یہ یقین ہو چلا تھا کہ پاکستانی فوج کو شکست ہونے والی ہے جس کے نتیجے میں ان کا رویہ فوج کی طرف سے جارحانہ ہو چکا تھا۔ پاکستانی فوج کے پاس اس پھندے سے بچنے کا کوئی راستہ نہ تھا جو بڑھتی ہوئی بھارتی فوج اگلے چند روز میں اس کے گلے میں ڈال دیتی۔ سرحدوں پر موجود افواج پسپا ہو کر قلعہ بند ہو چکی تھیں اور بھارتی فوج نے ان کے تمام راستے مسدود کر دیے تھے۔

اس صورت حال میں کمانڈر مشرقی کمان (جنرل نیازی) کے پاس صرف دو راستے تھے یا تو وہ آخری سپاہی اور آخری گولی تک لڑتے اور تاریخ میں نام رقم کروا لیتے یا پھر شکست تسلیم کرتے ہوئے ہتھیار ڈال دیتے۔

پہلا فیصلہ یقینا انتہائی باعزت اور آبرومندانہ تھا اور یہی ہماری ماضی کی روایات بھی ہیں، لیکن کمانڈر مشرقی کمان نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ ان کی فوج پچھلے کئی مہینوں سے دشمن سے نبرد آزما تھی اور تھک کر چور ہو چکی تھی۔ انہیں نہ تو مقامی آبادی کی تائید و حمایت حاصل تھی اور نہ ہی دنیا کا کوئی ملک ان کی مدد کرنے کو تیار تھا۔ وہ بیرونی دنیا سے مکمل طور پر کٹ چکے تھے، ان کا مورال بری طرح سے متاثر ہو چکا تھا۔ اس وقت آخری سپاہی تک لڑنے کا فیصلہ کیا جاتا تو اس کا نتیجہ مکمل تباہی کی صورت میں نکلتا۔

13 اور 14 دسمبر کی درمیانی رات انہیںجی ایچ کیو سے آخری سگنل موصول ہوا، جس میں کہا گیا تھا کہ آپ ایک ایسی سٹیج پر پہنچ چکے ہیں جس میں مزید مزاحمت انسانی بس میں نہیں اور اس سے مزید جانی نقصان اور تباہی کے سوا کچھ نہیں ملے گا، لہٰذا اب آپ کو وہ تمام ممکن حربے اختیار کرنے چاہییں جن سے فوج اور اس سے ملحقہ افراد نیز پاکستان کے حامی افراد کی جانیں بچائی جا سکیں۔

15 دسمبر 1971 کو بی بی سی نے اعلان کیا کہ بھارت لیفٹیننٹ جنرل نیازی کی درخواست پر 16 دسمبر کو فائر بندی پر آمادہ ہو گیا ہے۔

16 دسمبر 1971 کو دوپہر کے وقت بھارتی فوج کے کمانڈر ان چیف جنرل مانک شا کی ہدایت پر بھارتی فوج کی ایسٹرن کمانڈ کا یہودی چیف آف اسٹاف میجر جنرل جیکب ڈھاکہ پہنچا۔ اس کا استقبال اس کے پاکستانی مدمقابل بریگیڈیئر باقر صدیقی نے کیا۔ یہودی جنرل اپنے ساتھ ایک دستاویز لایا تھا جسے سقوط کی دستاویز (Instrument of Surrender) کہا جاتا ہے۔ جنرل نیازی اسے جنگ بندی کا مسودہ کہنا پسند کرتے تھے۔

جیکب نے یہ کاغذات پاکستانی حکام کے حوالے کیے۔ جنرل فرمان نے کہا، ’یہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کی مشترکہ کمان‘ کیا چیز ہے؟ ہم اسے تسلیم نہیں کرتے۔‘

جنرل جیکب نے کہا، ’مجھے اس میں ردوبدل کا اختیار نہیں۔‘ انڈین ملٹری انٹیلی جنس کے کرنل کھیرا نے، جو پاس ہی کھڑے تھے، لقمہ دیا، ’یہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے، جہاں تک آپ کا تعلق ہے آپ صرف ہندوستانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں۔‘

جنرل جیکب نے بہت عرصے بعد دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’میں نے نیازی اور ان کے ساتھیوں سے کہا کہ ہم نے آپ کو یہ بہت اچھی پیشکش کی ہے اور اس سے بہتر پیشکش نہیں کر سکتے۔ ہم آپ کی اور آپ کے خاندانوں کی حفاظت کی ضمانت دیتے ہیں لیکن اگر آپ اس پیشکش کو نہیں مانتے تو پھر ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہو گی۔ اس پر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔‘

جنرل جیکب نے مزید بتایا کہ ’میں نے ان سے کہا کہ میں آپ کو 30 منٹ دیتا ہوں اگر آپ نہیں مانتے تو میں پھر سے جنگ شروع کرنے اور ڈھاکہ پر بمباری کا حکم دے دوں گا۔ یہ کہہ کر میں باہر چلا گیا اور دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ یہ میں نے کیا کر دیا، میرے پاس کچھ بھی نہیں اور ان کے پاس ڈھاکہ میں 26400 فوجی ہیں اور ہمارے پاس صرف تین ہزار اور وہ بھی ڈھاکہ سے 30 کلو میٹر باہر، اگر وہ نہ کر دیتے ہیں تو میں کیا کروں گا۔‘

جنرل فرمان نے کاغذات جنرل نیازی کے آگے سرکا دیے۔ جنرل نیازی جو ساری گفتگو سن رہے تھے، خاموش رہے۔ اسی خاموشی کو ان کی مکمل رضا سمجھا گیا۔

لوگوں کے ہجوم کے اندر تقریب کے لیے تھوڑی سی جگہ باقی تھی جہاں ایک چھوٹی سی میز پر بیٹھ کر جنرل جگجیت سنگھ اروڑا اور جنرل نیازی نے سقوط مشرقی پاکستان کی دستاویز پر دستخط کر دیے۔ اس کے بعد نیازی نے اپنا ریوالور نکال کر اروڑہ کو پیش کر دیا اور یوں سقوط ڈھاکہ پر آخری مہر ثبت کر دی۔

تھوڑی دیر بعد نیازی، بھارت اور بنگلہ دیش کی مشترکہ ایسٹرن کمانڈ کے کمانڈر، لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کو لینے ڈھاکہ ایرپورٹ گئے، بھارتی کمانڈر اپنی فتح کی خوشی میں اپنی بیوی کو بھی ساتھ لایا تھا۔ جونہی یہ میاں بیوی ہیلی کاپٹر سے اترے، بنگالی مردوں اور عورتوں نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ان کو پھولوں کے ہار پہنائے، گلے لگایا ، بوسے دیے اور تشکر بھرے جذبات سے انہیں خوش آمدید کہا۔ جنرل نیازی نے بڑھ کر فوجی انداز میں سلیوٹ کیا، پھر ہاتھ ملایا۔ یہ نہایت دلدوز منظر تھا۔ فاتح اور مفتوح ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے تھے۔

جنرل نیازی اور جنرل اروڑا وہاں سے سیدھے رمنا ریس کورس گراؤنڈ پہنچے جہاں سرعام جنرل نیازی سے ہتھیار ڈلوانے کی تقریب منعقد کی گئی۔ تقریب کا نظارہ کرنے کے لیے ہزاروں بنگالی موجود تھے جنہیں بھارتی سپاہیوں نے آگے آنے سے روک رکھا تھا۔

لوگوں کے ہجوم کے اندر تقریب کے لیے تھوڑی سی جگہ باقی تھی جہاں ایک چھوٹی سی میز پر بیٹھ کر جنرل جگجیت سنگھ اروڑا اور جنرل نیازی نے سقوط مشرقی پاکستان کی دستاویز پر دستخط کر دیے۔ اس کے بعد نیازی نے اپنا ریوالور نکال کر اروڑہ کو پیش کر دیا اور یوں سقوط ڈھاکہ پر آخری مہر ثبت کر دی۔

اس موقعے پر جنرل اروڑہ نے پاکستانی سپاہیوں کے گارڈ آف آنر کا معائنہ کیا جو اس بات کی علامت تھا کہ اب وہی گارڈ ہیں اور وہی آنر کے مستق۔

اسی شام جنرل یحییٰ خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’کسی ایک محاذ پر وقتی طور پر پیچھے ہٹنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لڑائی ختم ہو گئی ہے۔ اب یہ جنگ کھیتوں میں کارخانوں میں اور گھروں میں لڑی جائے گی، آخری فتح ان شاء اللہ ہماری ہو گی۔‘

سقوطِ ڈھاکہ کے بعد کی زندگی

جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے بھارت سے وطن واپس آ کر سیاسی سرگرمیوں میں فعال حصہ لیا اور ’جماعتِ عالیہ مجاہدین` کے نام سے اپنی جماعت بنائی۔ ان کی جماعت نے مارچ 1977 کے قومی اتخابات میں انتخابی نشان پگڑی کے ساتھ حصہ لیا۔ انھیں جمعیت علمائے پاکستان کے کوٹے سے قومی اسمبلی کے الیکشن کا ٹکٹ ملا جس کے وہ نائب صدر رہے۔ جب قومی اتحاد نے بھٹوحکومت کےخلاف تحریک شروع کی توجنرل نیازی سر پر میانوالی سٹائل پگڑی باندھے سٹیج پر موجود ہوتے تھے۔ وہ بار بار اپنے کورٹ مارشل کا مطالبہ کیا کرتے تھے۔ قومی اتحاد کے کسی لیڈر نے کبھی یہ نہیں کہا کہ مشرقی پاکستان میں شکست کے ذمہ دار جنرل موصوف ہیں بلکہ وہ سبھی ان کی بہادری کے گن گایا کرتے تھے۔

جنرل نیازی نے بار بار درخواست کی کہ ان کا کورٹ مارشل کیا جائے تاکہ وہ عوام کو آگاہ کر سکیں کہ اس جنگ کی اور ان کے ہتھیار ڈالنے کی اصل وجہ کیا تھی اور اس شکست کا اصل ذمہ دار کون تھا مگر ان کی یہ درخواست ہر بار رد کر دی گئی۔ انہوں نے1998 میں ایک کتاب The Betrayal of East Pakistan تحریر کی۔جس میں اس شکست کے اسباب بیان کیے گئے ہیں۔ جنرل نیازی کی اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی ’سانحہ مشرقی پاکستان: تصویر کا دوسرا رخ‘ کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ