نئی دہلی کی یونیورسٹی جس کی رگوں میں فیض کی شاعری ہے

دہلی کی ایک یونیورسٹی جس میں کوئی بھی تحریک چل رہی ہو، اس میں فیض اور جالب کے اشعار پیٹرول کی طرح کام کرتے ہیں۔

یکم جون 2020 کو جواہر لال یونیورسٹی کے طلبہ کا احتجاجی مظاہرہ (اے ایف پی)

گذشتہ روز فیض احمد فیض کا 112واں جنم دن منایا گیا، صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ اس سلسلے میں ہر سال کی طرح اس سال بھی نئی دہلی میں موجود جواہر لال نہرو یونیورسٹی، میں مختلف طلبہ تنظیموں نے بھی۔ 

بھارت کی راجدھانی، نئی دہلی میں موجود جواہر لال نہرو یونیورسٹی وہ ادارہ ہے جہاں دیگر انقلابی مصنفین کے ساتھ اردو شعرا فیض احمد فیض اور حبیب جالب کو بھی کثرت سے پڑھا جاتا ہے، جس سے یہ بات سچی ثابت ہوتی ہے کہ ادب کا کوئی مذہب اور سرحد نہیں ہوتی۔

فیض اور جالب کے انقلابی اشعار یونیورسٹی کی دیواروں، پتھروں نیز فرش پر جا بجا لکھے مل جاتے ہیں۔ 

جواہر لال نہرو یونیورسٹی نئی دہلی بھارت کی اعلیٰ ترین جامعات میں شمار ہوتی ہے جہاں لگ بھگ بھارت کی ہر ریاست کا طالب علم مل جاتا ہے۔ یہ جامعہ نہ صرف معیاری ریسرچ کے حوالے سے جانی جاتی ہے بلکہ ایکٹیویزم اور اوپن ڈیبیٹ یعنی کھلے کھلم بحث و مباحثہ یہاں کے کلچر کا حصہ ہیں۔ فانی کے اس شعر کہ ’کتاب بند سہی حرف تر کھلا رکھنا، مباحثے کا ہمیشہ سے در کھلا رکھنا‘ کی یہاں پر صحیح عکاسی نظر آتی ہے۔ لیکن یہاں پر کبھی کتاب بھی بند نہیں ہوتی اور علمی مباحثوں کے در بھی کھلے رہتے ہیں۔ 

ہوسٹلوں کے میس کے ٹیبلز پر ایک ہی وقت میں ایک ہی موضوع پر مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کے پمفلٹ پڑھنے کو ملیں گے۔ اور ہر طالب علم سبھی کو پڑھتا ہے، کھلے مباحثے ہوتے ہیں۔ یہ جے این یو کا وہ کلچر ہے جو بھارت کی باقی جامعات کو کم ہی میسر ہے۔ 

 ملک میں ہونے والی سرگرمیوں پر بھی جے این یو کی گہری نظر رہتی ہے۔ مظلوموں کی آواز کو سہارا دینے میں یہ ادارہ ہمیشہ پیش پیش رہتا ہے یہی وجہ کہ دائیں بازو کے ارباب اقتدار نے پچھلے چند سالوں میں ادارے کو بدنام کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ 

کوئی بھی تحریک ہو اس میں فیض اور جالب کے اشعار پیٹرول کی طرح کام کرتے ہیں۔ یہ اشعار طلبہ کو نئی جان دیتے ہیں اور جس انداز سے اشعار کو نعروں میں بدلا جاتا ہے وہ مردوں میں بھی جان پیدا کر دیتا ہے۔ گو کہ یہ دونوں شعرا اردو کے تھے جبکہ جے این یو ایک ایسا ادارہ ہے جہاں درجنوں زبانیں بولنے والے ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ بھی فیض کی شاعری پڑھتے ہیں۔ 

جے این یو میں فیض احمد فیض کو پڑھنے کی سب سے بڑی وجہ ان کی انقلابی شاعری ہے جو خالصتا مظلوموں کی آواز ہے۔ دوسری بات یہ کہ جے این یو روشن خیال سوچ کا حامل ادارہ ہے اور فیض بھی اسی سوچ کے انسان تھے۔

جے این یو کے ایک سابق طالب علم ڈاکٹر ابھے کمار جو اب صحافی، تجزیہ کار اور کالم نویس ہیں سے میں نے یہ سوال کیا کہ ’فیض چونکہ اردو شاعر تھے اس کے باوجود وہ یہاں بہت زیادہ پڑھے جاتے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے جواب میں انہوں نے کہا، ’جے این یو ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ فیض کی شاعری میں محکوموں، محنت کشوں اور سماج کے دبے کچلے طبقات کی آواز ہے۔ اسی طرح فیض اور جالب نے اپنی شاعری سر محلات میں بیٹھ کے نہیں کی بلکہ کئی بار حق کہنے کی پاداش میں جیلوں کی صعوبتیں بھی برداشت کیں تھیں۔ ان کی شاعری میں ایک حقیقی درد ہوتا ہے جو ہر ذی شعور کے رونگٹے کھڑی کر دیتی ہیں۔ بقول ڈاکٹر ابھے فیض کی شاعری اردو میں ہے اور دہلی بھی لکھنؤ، دکن اور لاہور وغیرہ کی طرح اردو کا ایک دبستان رہا ہے۔ جو بھی طالب علم یہاں آتا ہے اس کو بھلے ہی اردو نہ آتی ہو لیکن فیض کی شاعری سیکھ لیتا ہے۔‘

ڈاکٹر ابھے نے بائیں بازو کے سیاستدانوں اور سماجی کارکنوں سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ’فیض اور ان جیسے لوگوں کو پڑھا تو جاتا ہے لیکن ان کے افکار پر زیادہ عمل نہیں کیا جاتا۔‘

’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے،‘ ’آوارہ کتے‘ اور’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘ یہ وہ نظمیں ہیں جو کیمپس میں سب سے زیادہ گائی جاتی ہیں۔ 

فیض کے علاوہ جالب دوسرے اردو شاعر ہیں جو یہاں اچھے خاصے پڑھے اور گائے جاتے ہیں۔ 2019 میں یونیورسٹی کے طلبہ یونین انتخابات کے دوران جالب کی نظم ’دستور‘ ششی بھوشن سمد نامی ایک طالب علم نے گائی تھی جس کو ہندو پاک دونوں ممالک میں بہت زیادہ پسند کیا گیا تھا۔

ششی بھوشن ہاسٹل میں میرے بغل والے کمرے میں ہی رہتے تھے۔ اکثر میرے کمرے پر ان سے چائے، کافی پر فیض، ساحر لدھیانوی اور جالب سننے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ سمد ایم اے تاریخ کے طالب علم تھے جو اب اپنا کورس مکمل کر چکے ہیں۔ 2019 میں جب یونیورسٹی کی فیسوں میں اندھا دھند اضافہ کیا گیا تو طلبہ پروٹسٹ کے دوران وہ دہلی پولیس کی لاٹھیوں کا نشانہ بھی بنے تھے جس کے بعد ’دستور‘ نظم والی ویڈیو زیادہ وائرل ہوئی تھی۔ سمد آنکھوں کی بینائی سے محروم ہیں لیکن کمال کا گاتے ہیں۔ 

کسی نے سچ ہی کہا تھا کہ شاعر جو لکھتا ہے وہ کئی صدیوں پر محیط ہوتا ہے۔ جالب کی زیادہ تر شاعری مارشل لا ڈکٹیٹروں کے خلاف ہے لیکن آج بھی جہاں ظلم ہو رہا ہو تو ہندو۔پاک دونوں ممالک میں ان کی شاعری ایسے لگتی جیسے اسی مخصوص واقعے کے لیے لکھی گئی ہو۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ادب