جواہر لال نہرو یونیورسٹی پر حملہ، 30 سے زائد طلبہ اور اساتذہ زخمی

یونیورسٹی طلبہ کا دعویٰ ہے کہ اس حملے میں وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو انتہا پسند جماعت بی جے پی کا سٹوڈنٹ ونگ ملوث ہے۔

نئی دہلی میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی پر  حملے کے بعد طالب علم نعرے بازی کر رہے ہیں (اے ایف پی)

بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں انتہا پسند ہندو کارکنوں کے حملے میں درجنوں طلبہ زخمی ہو گئے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اتوار کی شب ہونے والے حملے کے حوالے سے مقامی پولیس نے بتایا کہ یہ دو مخالف طلبہ تنظیموں کے درمیان جھگڑا تھا۔

تاہم طلبہ کا الزام ہے کہ اس حملے میں وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا سٹوڈنٹ ونگ ملوث ہے۔

سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈنڈوں، لوہے کی راڈوں اور ہتھوڑیوں سے مسلح نقاب پوش حملہ آور کیمپس کے ہاسٹلز پر دھاوا بول رہے ہیں اور طلبہ خوف سے چلا رہے ہیں۔

بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق اس حملے میں 30 سے زیادہ طلبہ اور اساتذہ زخمی ہوئے، جن میں جے این یو سٹوڈنٹ یونین کی صدر آئشی گھوش بھی شامل ہیں۔

اخبار کے مطابق 50 سے 70 حملہ آور ’غداروں کو گولی مارو‘، ’وندے ماترم‘ اور ’جے شری رام‘ جیسے مذہبی نعرے لگاتے ہوئے طلبہ پر لوہے کی راڈوں اور ہتھوڑیوں سے پل پڑے جس کے بعد درجنوں طلبہ کو زخمی حالت میں آل انڈیا انسٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز منقتل کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اے ایف پی کے مطابق دہلی پولیس کے سینیئر افسر نے اتوار کی رات صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’آج دو طلبہ گروہوں کے درمیان جھڑپ میں کچھ طلبہ زخمی ہوئے جس کے بعد یونیورسٹی کی انتظامیہ نے پولیس سے کیمپس میں داخل ہونے کی درخواست کی تھی۔ اب صورت حال قابو میں ہے۔‘

دوسری جانب بائیں بازو کی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سیکرٹری سیتارام یچوری نے الزام لگایا کہ ’حملے کے پیچھے انتہا پسند ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے سٹوڈنٹ ونگ ’اکھل بھارتیہ ودھارتھی پریشاد‘ (اے بی وی پی) کے غنڈوں کا ہاتھ ہے۔‘

سیتارام نے اے ایف پی کو بتایا: ’یہ حملہ اقتدار پر قابض لوگوں نے منصوبہ بندی کے تحت کیا ہے جو یونیورسٹی کی جانب سے طلبہ کو دی گئی اظہارِ رائے کی آزادی سے خائف ہیں۔‘

بھارتی نیوز ویب سائٹ ’دی وائر‘ کے ایڈیٹر سدھارتھ بھاٹیہ نے اپنی ٹویٹ میں حالیہ صورت حال پر ایک اخبار کی ہیڈلائن شیئر کی، جس پر درج تھا: ’(گذشتہ) کل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، آج جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور (آنے والے) کل آپ۔‘

دوسری جانب حکمران جماعت بی جے پی نے واقعے میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کو تشدد کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ بی جے پی کی طلبہ تنظیم ’اکھل بھارتیہ ودھارتھی پریشاد نے ایک بیان میں کہا کہ کیمپس حملے کے دوران اس کے 25 ارکان زخمی ہوئے ہیں۔

بی جے پی نے ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں کہا: ’یہ انتشار ایسی قوتوں کی ایک مایوس کن کوشش ہے جو طلبہ کو توپوں کے ایندھن کے طور پر استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتیں (تاکہ) اپنے سکڑتے ہوئے سیاسی نقوش کو دوبارہ زندہ کر سکیں۔ یونیورسٹیاں تعلیم اور سیکھنے کی جگہ رہنی چاہییں۔‘

دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ ہسپتال میں بیشتر زخمیوں کا علاج جاری ہے۔

حزب اختلاف کی مرکزی جماعت کانگریس پارٹی کے صدر راہول گاندھی نے ٹویٹ میں لکھا: ’نقاب پوش ٹھگوں کے ذریعے جے این یو کے طلبہ اور اساتذہ پر وحشیانہ حملے سے، جس میں متعدد افراد شدید زخمی ہوگئے، ان کو شدید صدمہ پہنچا ہے۔‘

یہ واقعہ پرتشدد جھڑپوں کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے جب کہ دسمبر میں مودی حکومت کے منظور کردہ متنازع شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج کے دوران کم از کم دو درجن افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

دہلی کے دیگر مقامات پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے باہر بھی احتجاج جاری ہے جہاں سینکڑوں نوجوان شہریت کے قانون کے خلاف گذشتہ کئی ہفتوں سے احتجاج کر رہے ہیں۔ 

جواہر لال نہرو یونیورسٹی کا شمار ملک کی سب سے معتبر جامعات میں ہوتا ہے جو اپنے سیکیولر تشخص اور آزادی رائے کے باعث اکثر انتہا پسند ہندوؤں کے نشانے پر رہتی ہے۔

بھارت کے موجودہ وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر، وزیر خزانہ نرملا سیتارامن اور حال ہی میں معاشیات کے لیے نوبیل انعام جیتنے والے ابھیجیت بینرجی سمیت کئی اعلیٰ شخصیات اس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا