افغانستان میں بھارت کا قد چھوٹا ہو چکا ہے: پروفیسر نہرو یونیورسٹی

امریکہ کے بعد بھارت دوسرا ملک ہے جو افغانستان میں تبدیلی اقتدار سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور بھارت کے ذریعے افغانستان میں بے پناہ سرمایہ کاری اور خطیر رقم پر مشتمل مکمل اور غیرمکمل منصوبوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان کھڑے ہوگئے ہیں۔

17 اگست 2021 کی اس تصویر میں افغان دارالحکومت کابل کی ایک مارکیٹ  میں طالبان جنگجو  ایک پک اپ ٹرک میں سوار ہیں  (تصویر: اے ایف پی)

گذشتہ رات جب زیادہ تر نیوز رومز میں افغانستان کی صورت حال کے حوالے سے خبروں کو سمیٹنے کی تیاری کی جارہی تھی، اس وقت بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر نے پے درپے پانچ ٹویٹس کرکے افغانستان کی سابقہ حکومت کے سقوط پر بھارت کی خاموشی کو توڑنے کی کوشش کی۔

وزیرخارجہ کی ٹویٹس میں بھارت کے اندیشے اور پھونک پھونک کر اگلا قدم اٹھانے کے احساسات صاف محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ وزیر خارجہ جے شنکر نے پہلی ٹویٹ میں بتایا کہ ’بھارت کی جانب سے افغانستان کی صورت حال پر مسلسل سخت نظر رکھی جارہی ہے اور حکومت وہاں پھنسے بھارتی شہریوں کی حفاظت اور ملک کے مفادات کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے وہاں موجود حصہ داروں سے رابطے میں ہے۔ ‘

اس ٹویٹ سے کچھ خاص ظاہر نہیں ہوتا لیکن افغانستان کے حوالے سے وزیر خارجہ جے شنکر کا ردعمل بہت تاخیر سے آیا ہے، جس کے بارے میں یہ اندازہ لگانا غیر فطری نہیں ہوگا کہ بھارتی حکومت افغانستان میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بہت سوجھ بوجھ کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتی ہے۔

افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد جو غیر متوقع صورت حال پیدا ہوئی ہے، اس کا اندازہ سب کو تھا مگر جس تیزی سے سب کچھ ہوا ہے، اس نے افغانستان میں گہری دلچسپی لینے والے ممالک کے حواس باختہ کردیے ہیں۔ امریکہ کے بعد بھارت دوسرا ملک ہے جو افغانستان میں تبدیلی اقتدار سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور بھارت کے ذریعے افغانستان میں بے پناہ سرمایہ کاری اور خطیر رقم پر مشتمل مکمل اور غیرمکمل منصوبوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان کھڑے ہوگئے ہیں۔

بھارت میں بین الاقوامی امور کے ماہرین اس حقیقت کے اظہار سے بالکل نہیں ہچکچا رہے کہ افغانستان میں طالبان کی واپستی نے بھارت کو شدید طور پر متاثر کیا ہے۔ طالبان کے لیے پاکستان کی درون خانہ ہمدردی و مبینہ تعاون نے بھارت کے اس سٹریٹجک منصوبے کو پٹخ دیا ہے، جس میں بھارت نے پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے دیوار سے لگانے کے بارے میں باریک اور ٹھوس پلاننگ کی تھی۔

ان حالات میں بھارت کیا کر رہا ہے ؟ بھارت نے افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری اور نرم سفارتی رشتوں کے ذریعہ جو پسندیدگی قائم کی تھی، وہ برقرار رکھنے یا بحال کرنے یا اس سے کم کچھ صورت حال پر بات بن جانے کی صورت میں بھارت کیا قدم اٹھائے گا؟ اگر صورت حال موافق نہ ہو تو کس طرح کے نقصانات کا اندازہ لگایا جارہا ہے؟

ایسے کئی سوالات ہیں، جس کے حوالے سے واہر بھون (بھارتی وزارت خارجہ کے دفتر) میں واقع افغان ڈیسک میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ وزارت خارجہ اس حوالے سے کوئی اشارے نہیں دے رہا اور اس کا کہنا ہے کہ ابھی افعانستان سے بھارتی شہریوں کی واپسی ترجیحات میں ہے۔

بھارت کے مفادات پر سوالیہ نشان؟

جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سینٹر فار یورپین سٹڈیز سے منسلک پروفیسر گلشن سچ دیوا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’افغانستان میں طالبان کی واپسی بھارتی خارجہ پالیسی کے لیے بڑا سیٹ بیک ہے اور اسی کے ساتھ سلامتی کے خدشات بھی تیزی سے بڑھ گئے ہیں۔ نئی دہلی نے امریکہ کے شانہ بہ شانہ اپنے مفادات کی جو بنیاد ڈالی تھی، اب وہ پوری طرح منہدم ہوچکی ہے۔ ہمارے راستے بھی سکڑ گئے ہیں۔ یہ چیلنجز اتنے بڑے ہیں کہ اس سے نمٹنے میں بے پناہ توانائی صرف ہوگی۔ ‘

گلشن کے مطابق: ’افغانستان کے ساتھ بھارت نے اپنے صدیوں پرانے رشتوں کی بحالی میں 20 سال لگا دیے۔ سارک ممالک میں افغانستان واحد ملک ہے، جس کے شہریوں میں بھارت کے تئیں ہمدردی اور لگاؤ کے جذبات ہیں۔ اسی وجہ سے نئی دہلی نے نائن الیون کے حملوں کے بعد افغانستان سے دوبارہ رشتے بحال کیے اور وہاں بھاری سرمایہ کاری کی۔ ‘

بھارتی وزارت خارجہ کی افغانستان سے متعلق رپورٹ کے مطابق بھارت نے افغانستان میں اہم شاہراہوں، ڈیم، بجلی ٹرانسمیشن اور سب سٹیشن، سکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر میں بڑے پیمانے پر حصہ لیا۔ تعاون اور اشتراک کی شکل میں یہ تمام پروجیکٹس تقریباً تین ارب ڈالرز پر مشتمل ہیں۔

بھارت افغانستان سٹریٹجک پارٹنرشپ 2011 معاہدے کے تحت بھارت نے افعانستان کے تقریباً 34 صوبوں میں تقریباً 400 پروجیکٹس پر کام کیا، جس میں سے کئی مکمل ہوگئے اور آپریشنل ہیں۔ سب سے بڑا پروجیکٹ سلما ڈیم ہے جو ہرات میں ہے۔ اس ڈیم کا افتتاح 2016 میں ہوا اور اسے افغان اور بھارت کی دوستی کی بڑی نشانی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

بھارت کے ذریعے افغانستان میں 218 کلومیٹر پر محیط 150 ملین ڈالر کی لاگت سے ہزارانج دلارام ہائی وے بھی بنایا گیا۔ یہ ہائی وے اس حوالے سے اہم ہے کیوں کہ یہ ایران کی سرحد سے متصل ہے۔ اس کے علاوہ 90 ملین ڈالر کی پارلیمنٹ کی تعمیر جس کا افتتاح خود بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے 2015 میں کیا تھا۔ اسی پارلیمنٹ میں اب طالبان کے مجاہدین بیٹھے دیکھے گئے۔

اسی کے ساتھ بھارت نے افغانستان کو 220 کے وی ڈی سی ٹرانسمیشن لائن، گاندھی انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ، شہری نقل وحمل کے لیے 400 بسیں، 105 بلدیہ کی گاڑیاں، افغان فوج کے لیے 285 فوجی گاڑیاں، سرکاری ہسپتالوں کے لیے 10 ایمبولینسیں، تین ایئر انڈیا کے طیارے، دو ہوائی کاریڈرور، کابل دہلی اور ہرات دہلی کاریڈور سمیت درجنوں تعمیراتی و دیگر پروجیکٹس دیے۔

سب سے زیادہ اہمیت ان پروجیکٹس کی ہے، جو حال ہی میں شروع ہوئے ہیں یا شروع ہونے والے ہیں۔ ان میں دو ملین افغان شہریوں کو پینے کے پانی کی سپلائی کے لیے شہوت ڈیم کی تعمیر، افغان کے قدیمہ ورثے کی تزئین و بحالی کے لیے ایک ملین ڈالر کا آغا خان پروجیکٹ شامل ہے۔

افعانستان میں بھارت کے یہ وہ مفادات ہیں، جو مرئی ہیں اور پوری طرح ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ کئی ایسے غیر مرئی پروجیکٹس بھی ہیں، جو سٹریٹجک ہیں اور سکیورٹی سے جڑے ہیں، جن پر چین، پاکستان اور روس کی موجودگی کی وجہ سے گہرے بادل چھا گئے ہیں۔

چین، پاکستان، روس اور ایران

افغانستان میں نئے نشیب و فراز نے بھارت کو ڈرامائی طور پر تماشائی بنا دیا ہے اور اس کی وجہ ہے چین اور پاکستان کی بتدریج طاقتور موجودگی۔ امریکی بنیاد پر بھارت کی موجودگی اب محو ہوتی نظر آرہی ہے۔ یہ حالات بھارت کو بے چین کر رہے ہیں اور طالبان کے بیجنگ کے دورے، پاکستانی حمایت، روس کی دلچسپی اور ایران کے در پردہ تعاون نے تصویر واضح کردی ہے۔

خود مختار ڈائریکٹوریٹ آف لوکل گورننس افعانستان کی سابق مشیر شانتی میریٹ ڈی سوزا کے مطابق: ’افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک کڑوا گھونٹ ہے، جسے بھارت کو بھی پینا پڑے گا۔ جنگ زدہ ملک کے نئے حکمران طالبان کو جلد سب لوگ تسلیم کرلیں گے، ایسے میں بھارت کو پوری سمجھداری کے ساتھ قدم اٹھانا ہوگا، جس سے وہ چین اور پاکستان کی دخل اندازی کے باوجود اپنے مفادات کا تحفظ کر سکے۔ ‘

بھارت کیا کر رہا ہے؟

فی الحال بھارت دیکھ رہا ہے اور باریکی سے تمام تر حالات کا جائزہ لے رہا ہے۔ دو دن کی خاموشی ٹوٹ گئی ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ افغانستان میں اشرف غنی کو اقتدار سے بے دخل کیے جانے اور وہاں کی غیریقینی صورت حال کے پیش نظر سب سے پہلے بھارتی شہریوں کے انخلا کی کوشش ہو رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایسے بھی کئی افغان شہری ہیں جنہوں نے ترقی، تعلیم اور لوگوں کے درمیان رابطہ بڑھانے میں بھارت کے ساتھ شراکت داری کی تھی، ان کے ساتھ کھڑے رہنے کا نئی دہلی کا فیصلہ آچکا ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں مقیم افغان سکھ اور ہندو کمیونٹی کے شہریوں کی خواہش کے مطابق انہیں بھارت لانے کی بھی کوشش کی جائے گی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت کیا کرے گا؟ اس حوالے سے ابھی تک کوئی واضح ایجنڈہ نہیں دیا گیا، تاہم ماہرین یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ بھارت کے پاس افغانستان کے حوالے سے وہی راستے ہیں جو امریکہ کے پاس ہیں، یعنی حقوق انسانی کے یقینی بنانے کے طالبان کے وعدوں کے ساتھ اسے تسلیم کرنا اور پھر اس کے ساتھ مل کر مفادات کے تحفظ کے لیے قدم اٹھانا، لیکن ان سب میں کیا صورت حال بنے گی اس پر نظر رکھنا ضروری ہے۔

پروفیسر گلشن سچ دیوا کا کہنا ہے کہ ’بھارت کو بہت ہی پرسکون انداز میں قدم اٹھانا چاہیے۔ افغانستان میں اس کا قد اب چھوٹا ہوچکا ہے، جو وہاں رہ گیا ہے اس کی بحالی کے لیے کوشش ہوسکتی ہے مگر ضد نہیں کیوں کہ خطرات اور اندیشے زیادہ ہیں۔ ‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہمارے پاس اب بہت کچھ نہیں بچا ہے۔ سلامتی کے جو خدشات کھڑے ہوئے ہیں، اسے سلجھانے کی سب سے زیادہ ضرورت ہوگی۔ ‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا