بھارت کی افغانستان میں بے بسی؟

بھارت کے انٹیلیجنس اثاثوں کو افغانستان سے جانا پڑا ہے۔ انہوں نے قندھار میں اپنا قونصل خانہ بند کر دیا ہے۔ جلال آ باد میں بھی بہت عرصے سے قونصل خانہ بند ہے اور وہاں سے بھی لوگ چلے گئے ہیں۔

بھارت نئی افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ چنائی میں بھارتی اکیڈمی میں زیر تربیت افغان خواتین (اے ایف پی فائل)

افغان صدر اشرف غنی کی پوزیشن اس وقت بہت کمزور ہے۔ ان کے خیال میں جیسے ہی حالات بگڑیں گے، جیسے ہی طالبان اپنی عسکری قوت دکھائیں گے، علاقوں پر قبضہ کریں گے تو افغانستان کے طالبان سے نالاں ہیں متنفر لوگ اشرف غنی کے گرد جمع ہو جائیں گے اور ان کا ساتھ دیں گے، تاہم ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیا۔

آنے والے دنوں میں اشرف غنی کو شاید وہاں کے لوگ ایک بوجھ ہی سمجھیں، کوئی ایسا سیاسی رہنما نہیں جس کے ارد گرد افغانستان کے لوگ جو طالبان کے خلاف ہیں وہ جمع ہوسکیں۔ جہاں تک طالبان کی بات ہے اس میں بھی وقت ہی بتائے گا کہ وہ آگے کس طریقے سے بڑھتے ہیں اور اس کے نتیجے میں افغانستان کے لوگوں کا کیا ردعمل سامنے آتا ہے۔

صدر اشرف غنی کا جو خیال تھا ان کی توقعات تھیں وہ غلط ثابت ہوئیں۔ وہ نہ کوئی بڑے رہنما بنے اور نہ ہی کوئی وار ٹائم ہیرو۔ ان کی طالبان کی جنگ، ان کی یلغار اور پیش قدمی ہے اس کے نتیجے میں ان کا کوئی سیاسی قد کاٹھ نہیں بڑھا۔

دوسرا یہ کہ جو افغانستان کی فوج، پولیس، عسکری طاقتیں اور عسکری ادارے ہیں وہ اشرف غنی کے لیے جنگ لڑنے کو تیار نہیں۔ کسی کو اشرف غنی کوئی لیڈر دکھائی دیتے ہیں جن کی بات سے، ان کی سوچ یا ویژن کے نتیجے میں افغان فوج، افغان عسکری ادارے یا سپاہی ہے وہ لڑ بھڑ جائے گا۔ وہ اپنی جان دینے کو تیار ہو گا۔ ایسا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔

اس کے برعکس خبریں تو یہ آ رہی ہیں کہ افغان نیشنل آرمی کی جانب سے جگہ جگہ ہتھیار ڈالے جا رہے ہیں۔ جہاں ان کو زیادہ طالبان نظر آتے ہیں وہ بالکل ڈر کے یا غائب ہو جاتے ہیں یا طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔

پاکستان نے تو یہ دیکھا کہ باجوڑ میں نوا پاس کے علاقے میں یکم اور دو جولائی کی رات کوئی 40 کے قریب افغان سپاہی باڈر چیک پوسٹ کراس کر کے ادھر آ گئے۔ وہ بڑی بری حالت میں تھے اور لگتا تھا کہ کافی سختی جھیلی ہے۔ نہ کھانے کو نہ پینے کو بہت برے حال میں تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس وقت پاکستان کے مقامی کمانڈر نے افغان لوکل کمانڈر سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی تو پہلے تو رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ بہرحال پھر رابطہ ہوا۔ ان 40 کے قریب افغان فوجیوں کو کھانا کھلا کر واپس کراس اوور کروا کے افغان کمانڈر کے سپرد کر دیا۔ افغان فوج کا یہ نفسیاتی حال ہے۔ شروع میں بھی ہم نے دیکھا تھا کہ ہزار کے قریب فوجی تاجکستان بارڈر پار کر کے چلے گئے تھے۔

دوسری جانب افغانستان میں بھارت کی صورت حال دلچسپ ہے۔ بھارت طالبان کے ساتھ اپنے رابطے قائم کرے گا۔ ظاہر ہے ان کے اپنے لوگ ہیں وہاں ان کے اثاثے ہیں۔ طالبان سے ان کے پرانے رابطے ہیں۔ تو انہی رابطوں کو اسطوار کریں گے ان کو بڑھائیں گے۔

اشرف غنی  کی حکومت خاص طور پر ان کے کچھ لوگ جیسے کہ عمراللہ صالح بھارت کی پاکستان مخالف پروپیگینڈا پالیسی کا حصہ بن سکتے ہیں۔ بھارت کی اپنی کہانی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ پاکستان اور طالبان مل کہ بھارت میں دہشت گردی پھیلا سکتے ہیں، پاکستان طالبان کو یہاں تک لے کر آیا کیونکہ اسلام آباد کابل پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تو اس بیانیے کو آگے بڑھاوا دے سکتے ہیں۔

وہ نفسیاتی طور پر پاکستان پر زور ڈال سکتے ہیں۔ بھارت کا میڈیا یہ کہانیاں آگے بڑھا سکتا ہے جو پاکستان کے خلاف جائیں اور جو پاکستان کو ایک منفی کردار میں دکھائیں۔ اس سے بڑھ کر بھارت کے بس میں کچھ نہیں ہے کیونکہ نہ اس کے پاس وہاں کوئی اپنی فوج موجود ہے نہ اسلحہ ہے۔

ارد گرد کے ریجنل ممالک یا ایکسٹنڈڈ ٹرائیکا جس میں پاکستان، چین، امریکہ اور روس شامل ہے وہ بھی نہیں سمجھتے کہ بھارت کی کوئی اہمیت ہے۔ وہ اسے ایک بڑا رول دینے کو تیار نہیں ہیں۔ تو بس بھارت پروپیگینڈا میں ہی زیادہ متحرک ہو سکتا ہے۔ یہی کردار ہے فل الحال بھارت کا۔ جو ان کے وہاں اثاثے موجود تھے، ان کے پاس جو لوگ تھے یا انٹیلیجنس کے ایسٹس تھے ان کو وہاں سے جانا پڑا ہے کیونکہ ان پر ایک خوف کی کیفیت ہے۔ انہوں نے قندھار میں اپنا قونصل خانہ بند کر دیا ہے۔ جلال آباد میں بھی بہت عرصے سے قونصل خانہ بند ہے اور وہاں سے بھی لوگ چلے گئے ہیں۔

اب شاید بھارتی شہری بھی نکل جائیں کیونکہ جنگ کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ بھارت کا اس وقت افغانستان میں گڑبڑ پھیلانے کی بجائے زیادہ فوکس اس پر ہے کہ وہ اپنے آپ کو کس طرح بچا کے رکھے۔ البتہ سفارتی سطح پر ان کی ملاقاتوں، بات چیت اور رابطوں میں بہت تیزی اختیار کر لی ہے۔ دہلی اور کابل کی حکومتوں کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے اس سے بڑھ کر بھارت کا اس وقت رول نہیں بنتا اور نہ دکھائی دیتا ہے۔

پاکستان کے لیے اس وقت جو بڑا سوال ہے وہ یہی ہے کہ افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے خطے میں کس طریقے سے اجتماعی طور پر آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ دوحہ میں جو کابل حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے سیاسی سطح پر وہ ایک مصنوعی چیز ہے کیوںکہ جو اصل بات چیت ہو رہی ہے وہ دراصل میدان جنگ میں ہو رہی ہے۔ آن دا گراونڈ تو اس میں بہت تیزی آئی ہے۔ طالبان کی پیش قدمی اصل حقیقت ہے۔ دوحہ بات چیت سے کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلنے والا۔

اس وقت طالبان نے تقریباً تمام بارڈرز کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے، جہاں سے ریوینیو آتا ہے جہاں سے پیسہ آتا ہے وہ سب طالبان کے پاس ہے علاوہ طورخم کے جو کہ کابل کے کنٹرول میں ہے۔ آنے والے دنوں میں لگتا ہے کہ طالبان کا ہی زور ہو گا، انہی کی پیش قدمی ہو گی۔ ایک دفعہ امریکہ کی فوج کا 30 اگست تک انخلا مکمل ہو جائے اس کے بعد دیکھیں گے کہ بات کس طرف بڑھتی ہے۔

 

نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ