پاکستان کا ایک اور امتحان: افغانستان میں خطرناک عدم استحکام

پاکستان کو یہ سمجھنا ہے کہ جب تک وہ افغانستان کے اندر طالبان سمیت مختلف گروہوں کے ساتھ مفاہمتی رویے کو بڑھاوا نہیں دیتا تو یہ اس کے لیے سب سے خطرناک ہو گا۔

وزیر اعظم عمران خان اور افغان صدر اشرف غنی 19 نومبر، 2020 کو کابل کے صدارتی محل میں اپنی مشترکہ پریس کانفرنس سے قبل گارڈ آف آنر کا معائنہ کرتے ہوئے (اے ایف پی)

افغانستان میں طالبان کے بڑھتے ہوئے عسکری قدم اور اس کے مقابلے میں صدر اشرف غنی کا اپنے کو ہر حال میں ایک جائز حکومت کے طور پر منوانا ایک ایسی صورت حال ہے جو پاکستان کے لیے بہت سے نئے چیلنجز پیدا کر رہی ہے۔

اب تک کی خبروں کے مطابق طالبان تقریبا 70 سے 80 فیصد علاقہ پر قابض ہوگئے ہیں اور ترکمانستان، تاجکستان اور ایران کے سرحد پر کچھ اہم علاقے اپنے قبضے میں لے لیے ہیں۔

کچھ خبریں ہرات کے حوالے سے بھی آرہی ہیں۔ تو اس وقت طالبان کی پیش قدمی سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔

مختلف جنگجو ملیشیا جو کچھ عرصے سے خاموشی اختیار کیے ہوئے تھے وہ بھی متحرک ہوگئے ہیں۔ ان میں پنجشیر کے شیر احمد شاہ مسعود کے بیٹے، رشید دوستم، اسماعیل خان  اور عطا محمد نور شامل ہیں۔ کہیں ان کا مقابلہ طالبان سےشروع ہے اور کہیں مقابلے کی تیاری ہو رہی ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ آنے والےدنوں میں طالبان عسکری طور پر مزید کیا کامیابیاں حاصل کرتے ہیں۔ ابھی طالبان باآسانی آگے بڑھ رہے ہیں۔

دوحہ معاہدہ میں ایک بات جو امریکیوں کے ساتھ طے پائی تھی لیکن اسے منظرعام پر نہیں لایا گیا تھا وہ کہا جاتا ہے کہ یہ ہے کہ طالبان شہروں پر زبردستی قابض نہیں ہوں گے اور شہری علاقوں کے باہر رک جائیں گے۔

یہ بھی کسی حد تک کہا گیا تھا کہ کابل کو یہ لوگ جنگ کر کے نہیں لیں گے اور دارالحکومت میں داخل نہیں ہوں گے۔

دیکھنا یہ ہوگا کہ زمینی صورت حال کیسے تبدیل ہوتی ہے اور اگر 2001 کا موازنہ کریں تو اس وقت طالبان پر شمالی اتحاد اور احمد شاہ مسعود کی ملیشیا نےدھاوا بولا تھا اور انہیں امریکہ کی مدد بھی ملنا شروع ہوگئی تھی۔ جب جنگی صورت حال بڑھ جائے تو معاہدے وغیرہ کا کوئی پاس نہیں رکھتا۔

اس وقت امریکہ اور نیٹو افواج کا 90 فیصد سے زیادہ انخلا مکمل ہو چکا ہے۔ ایک عجب طریقے سے امریکہ افغانستان سے نکلا ہے۔

بگرام ایئر بیس بہت اہم اڈا تھا جس میں امریکہ نے اپنی ایک دنیا بسائی تھی۔ ایک طرف اسلحہ کی بھرمار تھی تو دوسری طرف سوئمنگ پول اور مکڈونلڈ تھے۔

دو تاریخ کی رات کو امریکی افواج اور ان سے منسلک تمام لوگ یکدم غائب ہوئے ہیں۔ افغان حکومت اور فوج کو بھی اطلاع نہیں تھی۔ دوسری طرف جرمنی کے جہاں جہاں قونصل خانے تھے مزار شریف میں وہ بھی وہاں سے نکل گئے ہیں۔ بھارت بھی جلال آباد سے نکل گیا ہے۔

امریکی صدر تو ببانگ دہل یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنی اگلی نسل کو افغانستان کی جنگ میں نہیں جھونکنے والے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ لگتا نہیں کہ افغانستان کی حکومت اپنی حکومت سنبھال سکے گی۔ آخر تاجکستان کی سرحد پر ایک ہزار افغان فوجی بھاگ گئے۔

تو شروعات ایسی ہیں کہ اگر طالبان کے ساتھ کوئی مضبوط مزاحمت نہیں ہوگی، کوئی مقابلہ نہیں کرے گا تو طالبان آگے بڑھتے جائیں گے۔

طالبان کے آگے بڑھنےکا انحصار اس پر ہے کہ دوحہ میں بات چیت کیسے آگے بڑھتی ہے۔ کابل حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت کا دور پھر سےشروع ہونے والا ہے جس میں شرکت کے لیے امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد بھی پہنچ رہے ہیں۔

اس تمام صورت حال کا سب سے زیادہ افغانستان کے بعد جس ملک پر اثر ہوگا اور جس کو یقینا اسی وجہ سے پریشانی لاحق ہے وہ ہے پاکستان۔

پاکستان نے 30 لاکھ افغان پناہ گزینوں کو تین دہائیوں سے زیادہ مہمان بنا کر رکھا لیکن اس وقت پاکستان جس کو انگریزی میں کہا جائے کہ Favourite flogging horse ہے ہر ملک کا جہاں بھی کوئی مسئلہ ہوگا افغانستان کے حوالے سے یہ کوئی بھی بات نہیں کرے گا کہ آخر کار افغانستان میں سوویت یونین کی 1979 کا حملہ تھا یا پھر 2001 میں امریکہ کا یہاں اپنی فوجیں لانا، نیٹو فورسز کا یہاں آنا تھا یہ سب جو فیصلے تھے ان کے نتیجے میں آج افغانستان یہاں کھڑا ہے پاکستان کا اپنا کردار رہا ہوگا۔

بہرحال سب کو چھوڑ کر پاکستان ہی کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ طالبان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات اور حمایت کی شروعات جو بھی ہوں لیکن اس کے بعد طالبان کے ہر ملک کے ساتھ چاہے روس، ایران، چین ہو رابطے اور اچھے تعلقات ہیں۔

امریکہ نے تو بہرحال دوحہ معاہدہ کر کےطالبان کو بین الاقوامی طور پر افغانستان کی ایک قوت منوایا ہے۔

اس صورت حال میں پاکستان کو دو بڑے مسائل درپیش ہیں۔ ایک پناہ گزینوں کی آمد سے پاکستان کی امن اور سلامتی کو سخت خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

دوسرا اگر افغانستان میں خانہ جنگی ہوئی تو اس کا اثر پاکستان پر سب سے زیادہ ہوگا۔ پناہ گزینوں اور خانہ جنگی کے اثرات گذشتہ 40 سال میں ہم دیکھ چکے ہیں۔

80 اور 90 کی دہائی میں پاکستان نے خود اپنے آپ کو عملی طور پر افغان ’جہاد‘ کا حصہ بنایا لیکن جب اس صورت حال کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ تبدیل نہیں ہوئی۔

2000 کے بعد بھی جو بھی صورت حال افغانستان کے اندر ہوتی تھی اس کا اثر پاکستان پر ہی ہوا۔ پاکستان میں دہشت گردی بڑھی، امن اور سالمیت کے حوالے سے مسائل بڑھے۔

آج پاکستان کو یہ سمجھنا ہے کہ جب تک وہ افغانستان کے اندر طالبان سمیت مختلف گروہ ہیں ان میں اگر ایک مفاہمتی رویئے کو بڑھاوا نہیں دیتا تو یہ پاکستان کے لیے سب سے خطرناک چیز ہے۔

اور اس وقت جو زمینی حقائق ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ طالبان کس سطح پر ہیں، باقی گروہ کس سطح پر ہیں ،افغان حکومت کہاں ہے لیکن اس سب کے باوجود پاکستان بار بار جو اعلامیہ جاری کر رہا ہے جو پالیسی بیان دے رہا ہے اس میں یہ کہہ رہا ہے کہ ہر صورت ہم چاہتے ہیں کہ سب افغان مل کر آگے بڑھیں اور مفاہمتی پالیسی اختیار کریں۔

پاکستان کو عملی طور پر اس کو آگے بڑھانا ہوگا اور اس کو آگے بڑھانے کا طریقہ یہی ہے کہ ایک علاقائی سوچ کو لے کر آگے بڑھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خطے کے ممالک ہیں خاص طور پر ایران، ترکی، چین، روس، تاجکستان اور ازبکستان یہ ممالک جب تک علاقائی حکمت عملی اختیار نہیں کرتے اس وقت تک افغانستان خانہ جنگی کی آگ میں جلتا رہے گا اور پاکستان کو بھی اس  آگ سے نقصان پہنچے گا۔

پاکستان اس وقت ترکی، چین، ایران اور امریکہ کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔ جو بھی ملک یا ادارے مثلا ایس سی او یا اقوام متحدہ ہے جو بھی علاقائی حکمت عملی کو آگے بڑھا رہے ہیں پاکستان کو یقینی طور پر ان کے ساتھ ایک بہت متحرک کردار ادا کرنا ہوگا۔

پاکستان نے پناہ گزینوں کے حوالے سے یہ طے کر لیا ہے کہ اگر وہ آئیں گے تو ان کو سرحد کے قریب رکھیں گے بجائے کہ ان کو ملک کے اندر آنے دیں۔

ساتھ ساتھ پاکستان نے افغانستان کی جب نئی حکومت آئے گی اسے تسلیم بھی ایک علاقائی سوچ کے تحت کیا جائے گا۔

پاکستان نے طے کر لیا ہے کہ 1997 میں پاکستان طالبان کی ریکگنیشن کے حوالے سے جس طریقے سے اپنے طور پرپالیسی کو لے کر گیا تھا اب وہ غلطیاں کسی صورت نہیں کرے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ