جنوری میں گاڑیوں کی فروخت میں کمی کیوں ہوئی؟

پاکستان آٹو موٹیو مینوفکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کے مطابق جنوری 2022 میں گاڑیوں کی فروخت میں 25 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

ایک کار شو روم کا پاکستانی ملازم نئی گاڑیوں کے ڈیلر سینٹر میں قطاروں میں کھڑی گاڑیوں کا معائنہ کر رہا ہے۔ یہ تصویر 12 اکتوبر 2006 کو کراچی میں لی گئی تھی (تصویر: اے ایف پی فائل)

پاکستان میں مہنگائی کی شرح 13 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ شرح سود 9.75 فیصد تک بڑھا دی گئی ہے اور پیٹرول 160 روپے فی لیٹر ہو چکا ہے۔ ان عوامل نے عوام کی قوت خرید کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ جس کے منفی اثرات سے زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوا ہے۔

اشیائے خوردونوش، بجلی، گیس کے مسائل پر اکثر بات کی جاتی ہے لیکن آٹو سیکٹر زیر بحث لانے کا رجحان کم ہے۔ جبکہ عوام کی معاشی حالت کا درست اندازہ لگانے کے لیے گاڑیوں کی خریدوفروخت کے اعدادوشمار کسی حد تک رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں۔ اگر نئے کیلنڈر سال کی بات کی جائے تو شروعات حوصلہ افزا نہیں رہی ہے۔

پاکستان آٹو موٹیو مینوفکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کے مطابق جنوری 2022 میں گاڑیوں کی فروخت میں 25 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان سوزوکی کی گاڑیوں کی فروخت میں سب سے زیادہ کمی دیکھی گئی ہے جو کہ نو ہزار یونٹس کی فروخت کے ساتھ دسمبر 2021 کی نسبت 42 فیصد کم ہیں۔

اسی طرح ہنڈائی نشاط نے 612 گاڑیاں بیچیں جو کہ دسمبر 2021 کی نسبت 20 فیصد کم ہیں۔ ہنڈا اٹلس نے 4 ہزار 46 گاڑیاں بیچیں جو کہ دسمبر 2021 کی نسبت 14 فیصد کم ہیں۔ صرف انڈس موٹرز کی گاڑیوں کی فروخت میں تقریباً 8 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ماہ جنوری میں انڈس موٹرز نے چھ ہزار 800 گاڑیاں بیچیں۔

ان کے علاوہ کیا لکی موٹرز، ایم جی موٹرز، چینگین، پروٹون، الحاج نے کتنی گاڑیاں بیچیں ان کے اعدادوشمار شامل نہیں ہیں کیوں کہ یہ کمپنیز پاما کا حصہ نہیں ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ تقریباً 20 فیصد فروخت کا ریکارڈ موجود نہیں تو غلط نہیں ہو گا۔ لیکن ایک اندازے کے مطابق ان گاڑیوں کی فروخت میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔

فروخت میں کمی کی وجوہات جاننے کے لیے جب میں نے پاک ویلز کے سی ای او سنیل منج صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’حکومت نے منی بجٹ میں گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائیز ڈیوٹی لگائی ہے جس کے باعث جنوری انوائس والی گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ چوں کہ مارکیٹ میں خبر پہلے سے گردش کر رہی تھی اس لیے عوام نے دسمبر کے مہینے میں زیادہ گاڑیاں خریدیں۔‘

عمومی طور پر دسمبر میں گاڑیوں کی فروخت کم اور جنوری میں زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن اس مرتبہ منی بجٹ منظور ہونے کی وجہ سے معاملہ الٹ ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے جنوری میں گاڑیاں کم فروخت ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ اون منی کا بڑھتا ہوا کاروبار بھی گاڑیوں کی فروخت میں کمی کا باعث بن رہا ہے۔ ہزار سی سی والی گاڑیوں پر تین سے چار لاکھ روپے اون مانگا جا رہا ہے۔ حکومت نے اون منی کو روکنے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں۔ وہ گونگلوں پر سے مٹی جھاڑنے کے مترادف ہیں۔

سرکار نے تھرڈ پارٹی سے گاڑی خرید کر اپنے نام پر رجسٹر کروانے پر تقریبا دو لاکھ روپے ٹیکس لگایا ہے۔ اگر تھرڈ پارٹی کے نام گاڑی رجسٹرڈ کروا کر اپنے نام ٹرانسفر کروا لی جائے تو 2 لاکھ روپے اضافی ٹیکس چارج نہیں ہوتا۔

آج کل اسی فارمولے پر عمل کیا جا رہا ہے۔ ڈیلر بھی خوش، انویسٹر بھی خوش اور کار کمپنی بھی خوش لیکن خریدار پریشان ہے۔ خریدار سوچتا ہے کہ چھ یا آٹھ ماہ میں گاڑیوں کی قیمتیں دو مرتبہ ضرور بڑھ جاتی ہیں۔ جب گاڑی خریدی جاتی ہے تو اس کی قیمت تین سے چار لاکھ روپے مزید بڑھ چکی ہوتی ہیں۔ اس سے بہتر یہی سمجھا جاتا ہے کہ دو لاکھ روپے اون ادا کر کے فورا گاڑی لے لی جائے۔ چھ ماہ انتظاربھی نہیں کرنا پڑے گا اور قیمت بھی کم ادا کرنا ہو گی۔

اون منی کا کاروبار کرنے کے لیے جعلی کمپنی بنا کر اس کے نام سینکڑوں گاڑیاں بک کروائی جاتی ہیں۔ جنہیں اون پر بیچا جاتا ہے۔ ایف بی آر کے پاس ان کمپنیز کا مکمل ریکارڈ موجود ہے۔ ان کے نام پر سیلز ٹیکس اور اِنکم ٹیکس انوائسز ہر ماہ ایف بی آر میں رپورٹ ہو رہی ہیں۔ نہ یہ کمپنیاں ای او بی آئی میں رجسٹرڈ ہیں اور نہ ہی ان کے ملازمین ہیں۔ لیکن وہ لیٹر ہیڈ پر یہ درخواست دیتے ہیں کہ کمپنی کو ملازمین کے لیے گاڑیاں چاہییں جو کہ جھوٹ اور فراڈ کے زمرے میں آتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کار ڈیلر شپس ان کے فنانشلز چیک نہیں کرسکتیں۔ یہ ایف بی آر کا کام ہے۔ جس پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ سرکار کو سب سے پہلے اون منی کے کاروبار کو سرکاری طور پر غیر قانونی قرار دینا چاہیے۔ ان سے جڑے لوگوں کے لیے سزائیں تجویز کی جائیں۔ اس کے بعد سینکڑوں گاڑیاں بک کروانے والی جعلی کمپنیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے۔ اسی صورت میں اون منی کا کاروبار رک سکتا ہے۔ گاڑیوں کی قیمتیں کم ہو سکتی ہیں اور ان کی فروخت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

مسابقتی کمیشن پاکستان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ میں نے حال ہی میں ادارے کے اجلاس میں شرکت کی ہے۔ حماد اظہر کا اس ادارے کے ذریعے گاڑیوں کی قیمتیں بڑھنے سے روکنے کا اعلان سیاسی ہے۔ اگر کسی کمپنی کی گاڑی زیادہ ڈیمانڈ میں ہے اور وہ اس کی قیمت بڑھا دیتی ہے تو یہ غیر قانونی نہیں ہے اور نہ ہی یہ سی سی پی کے دائرہ اختیار میں ہے۔

کسٹمرز کے سامنے پوری مارکیٹ ہے۔ اگر کوئی کمپنی زیادہ مہنگی گاڑی بیچ رہی ہے تو وہ بآسانی دوسری گاڑی خرید سکتا ہے۔ کیوں کہ اس وقت تقریباً 13 سے زیادہ کمپنیاں گاڑیاں بیچ رہی ہیں۔ کار کمپنیوں کی پیداواری صلاحیت بڑھانے پر کام ہونا چاہیے۔ اگر ڈیمانڈ کے مطابق گاڑیاں تیار کرنا شروع کر دی جائیں تو اون منی کے خاتمے سے گاڑیوں کی قیمتیں کم ہو سکتی ہیں۔

سنیل منج صاحب کی رائے حقیقت سے قریب دکھائی دیتی ہے۔ سرکار ان کی تجاویز پر عمل کر کے آٹو سیکٹر کو درپیش مسائل پر قابو پا سکتی ہے اور خصوصی طور پر اون منی کی لعنت کو دور کیا جا سکتا ہے۔ 

سوزوکی گاڑیوں کی فروخت میں 42 فیصد کمی کے حوالے سے جاننے کے لیے جب لاہور میں واقع سوزوکی ایک بڑی ڈیلر شپ کے مالک سے رابطہ کیا تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سوزوکی گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ان کی ڈیلر شپ ماہانہ اہداف پورے نہیں کر پا رہی۔ دوسرے برانڈ کی 40 لاکھ روپے مالیت والی گاڑیوں کی قیمت میں ایک لاکھ روپے اضافہ کیا گیا جبکہ سوزوکی نے 19 لاکھ کی گاڑی کی قیمت میں یک مشت تقریباً 4 لاکھ روپے اضافہ کر دیا ہے جو کہ غیر حقیقی دکھائی دیتا ہے جس کے باعث ڈیمانڈ میں کمی واقع ہو گئی ہے۔

یہ متوسط طبقے کی گاڑی تھی جو اب ان کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ اگر سوزوکی کمپنی اسی روش پر قائم رہی تو آنے والے دنوں میں سیل مزید کم ہو سکتی ہے۔ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ سوزوکی ڈیلرشپ چھوڑ کر کسی اور کار کمپنی کی فرنچائز خرید لیں گے۔

ہنڈا گاڑیوں کی فروخت میں کمی ہونے کی کئی وجوہات سامنے آئی ہیں۔ گجرات سے تعلق رکھنے والے ہنڈا کے پرانے کسٹمر عمر نے بتایا کہ میں نے ہنڈا سوک بک کروائی۔ اس دوران ہونڈا نے نیا ماڈل لانچ کر دیا۔ اب مجھے کہا جا رہا ہے کہ مزید 10 لاکھ روپے جمع کرواؤ ورنہ اپنے پیسے واپس لے لو۔ میں نے پیسے واپس لے لیے ہیں۔ میری طرح کئی لوگوں نے فنڈز واپس لیے ہیں۔ جو کہ سیل کم ہونے کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔

مزید وجوہات جاننے کے لیے ہنڈا کے سینیئر سٹاف ممبر منظر زبیر صاحب سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ’کمپنی گاڑی بیچنے سے پہلے کسٹمر سے جو فارم دستخط کرواتی ہے اس پر یہ لکھا ہوتا ہے کہ کمپنی جب چاہے گاڑی کی قیمت، ماڈل، ڈیلیوری ٹائم اور خصوصیات تبدیل کر سکتی ہے۔‘

ان کے مطابق: ’کسٹمرز کا گلہ بے بنیاد ہے۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ ڈالر اور ایف ای ڈی میں اضافے کے باعث قیمتیں بڑھیں اس لیے فروخت کم ہو رہی ہے۔ ڈیمانڈ میں کمی کی ایک وجہ ہنڈا سوک کی قیمت میں یک مشت 10 سے 18 لاکھ روپے اضافہ ہے۔ کمپنی ہنڈا سوک کا نیا ماڈل لانچ کر رہی ہے۔ اگر آج گاڑی بک کروائی جائے تو ڈیلیوری 10 ماہ بعد یعنی کہ نومبر میں ملے گی۔ یہ عارضی گراوٹ ہے۔ آنے والے دنوں میں سیل بہتر ہو جائے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کورونا کی وجہ سے گاڑیوں کے سپیئر پارٹس کی تیاری میں مسائل آ رہے ہیں۔ بروقت خام مال ڈیلیور نہ ہونے کی وجہ سے ڈیمانڈ اور سپلائی کا ایشو بن رہا ہے۔ یہ صورتحال مزید ایک سال تک برقرار رہ سکتی ہے۔

ٹویوٹا کمپنی کی فرنچائز کے مالک کا کہنا تھا کہ گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سرکار کی پالیسیاں ہیں۔ گو کہ ٹویوٹا کی سیل بڑھ رہی ہے لیکن گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی قیمت کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی۔ اس سے کسٹمرز کے علاوہ ڈیلر شپ کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔

کاروبار چلانے کے لیے پہلے سے دو گنا زیادہ سرمایہ لگانا پڑ رہا ہے لیکن منافع کی شرح نہیں بڑھ رہی۔ بجلی کے بلز۔ ملازمین کی تنخواہیں اور گوداموں کے کرائے ڈبل ہو چکے ہیں۔ جس رفتار سے اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ اتنا منافع نہیں مل رہا جو کہ تشویش ناک ہے۔ اگر گاڑیوں کی قیمتیں اسی انداز میں بڑھتی رہیں تو آٹو انڈسڑی مزید زوال کا شکار ہو سکتی ہے۔

گاڑیوں کی لیز کے حوالے سے جاننے کے لیے نجی بینک کے مینیجر ارشد صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ بڑی گاڑیوں کی فروخت میں کمی کی وجہ بینک فنانسگ کی سخت شرائط دکھائی دیتی ہیں۔ ہزار سی سی سے اوپر والی گاڑی کی فنانسگ کے لیے 30 فیصد پیشگی ادئیگی لازمی ہے۔ اس کے علاوہ 30 لاکھ روپے سے زیادہ فنانسگ نہیں کی جا سکتی اور جن گاڑیوں کو لیز کیا جارہا ہے، شرح سود 9.75 فیصد ہونے کی وجہ سے ان کی ماہانہ قسط میں تقریبا 4 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔

امپورٹڈ گاڑیوں کی فنانسگ مکمل بند ہے۔ اس کے علاوہ ہزار سی سی والی گاڑیوں کا ڈیلیوری ٹائم پانچ سے چھ ماہ تک بڑھا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے کسٹمرز گاڑیاں بُک کروانے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ جنوری میں اکثر کسٹمرز نے گاڑیوں کے کیس ہیڈ آفس سے منظور ہونے کے باوجود گاڑیاں لینے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ صورتحال آٹو سیکٹر کے علاوہ بینکنگ سیکٹر کے لیے بھی پریشان کن ہے۔

ماہرین اور سٹیک ہولڈرز کی رائے کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ جب تک سرکار سنجیدہ نہیں ہو گی گاڑیوں کی قیمتوں اور فروخت کے مسائل حل نہیں کیے جا سکتے۔ اس معاملے پر کسی نجی سیکٹر کو مافیا قرار دینا غلط ہوگا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ گاڑیوں کی قیمتیں بڑھنے، فروخت کم ہونے اور اون منی کاروبار میں اضافے کی وجہ سرکار خود ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ