روس، یوکرین تنازع’دونیتسک اور لوہانسک‘ کا مسئلہ کیا ہے؟

مشرقی یوکرین میں ڈونبیس کا علاقہ صنعتی پاور ہاؤس کے طور پر جانا جاتا تھا، جس میں بھاری کان کنی اور سٹیل پیدا کرنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ کوئلے کے بڑے ذخائر بھی تھے۔

ایک یوکرینی فوجی 19 فروری 2022 کو مشرقی یوکرین کے شہر نوولوہانسکے کے باہر فرنٹ لائن پر گشت کر رہا ہے(فوٹو: اے ایف پی)

مشرقی یوکرین میں ڈونبیس کا علاقہ روس اور یوکرین کے درمیان بڑھتے ہوئے بحران میں ایک متنازع خطہ رہا ہے جو سرحدوں اور سٹریٹجک اثر و رسوخ کے گرد گھومتا ہے۔

اس خطے نے پیر کو اس وقت مزید نازک حیثیت اختیار کرلی جب روسی صدر ولادی میر پوتن نے وہاں ماسکو کی حمایت یافتہ دو علیحدہ خود ساختہ ’ریاستوں‘ کی آزادی کو تسلیم کیا جو خود کو ’دونیتسک عوامی جمہوریہ‘ اور ’لوہانسک عوامی جمہوریہ‘ کہتی ہیں۔

روسی صدر نے ’امن‘ کے مقاصد کے لیے خطے میں فوج کو بھیجنے کا حکم دینے کے احکامات پر بھی دستخط کیے۔ روس کا ان علاقوں کو باضابطہ تسلیم کرنا کشیدگی میں اضافے کی علامت ہے جو ’منسک معاہدے‘ کے نام سے معروف سات سالہ امن معاہدے کے خاتمے کا اشارہ دیتا ہے۔ اسے ایک ایسے اقدام کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے جو روسی رہنما کو یوکرین پر حملہ کرنے کا بہانہ دے سکتا ہے۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق جنگ سے قبل ڈونبیس کا علاقہ صنعتی پاور ہاؤس کے طور پر جانا جاتا تھا، جس میں بھاری کان کنی اور سٹیل پیدا کرنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ کوئلے کے بڑے ذخائر بھی تھے۔

یوکرین میں حکومت مخالف مظاہرے 2013 میں شروع ہوئے تھے۔ اس احتجاجی تحریک کو جس کی وجہ سے یوکرین کے صدر وکٹر یانوکوویچ ملک سے فرار ہو گئے اور یوکرین کا جھکاؤ یورپ کی طرف روس کے مقابلے میں زیادہ ہوگیا تو اسے پوتن نے مغرب کی فسطائی بغاوت قرار دیا۔

اس کے بعد پوتن نے کہا کہ ’ہمارے مغربی شراکت دار حد عبور کر چکے ہیں۔‘ 2014 میں اجتماعی سلامتی معاہدے کی تنظیم کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل جنرل نکولے بوردیوژا نے دعوی ٰ کیا تھا کہ ’بنیادی طور پر عالمی سطح پر انفارمیشن سپیں میں معلوماتی جنگ شروع کر دی گئی ہے۔‘

2014 میں روس کے حملے اور یوکرین کے جزیرہ نما کرائمیا کے الحاق کے بعد سے یہ خطہ مختلف قوتوں کے کنٹرول میں علیحدہ علاقوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ دونیتسک اور لوہانسک اوبلاسٹس کے کیئف کے زیر انتظام حصے اور روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسند دونیتسک اور لوہانسک ’عوامی جمہوریہ‘ جنہیں ’ڈی پی آر‘ اور ’ایل پی آر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

علیحدگی پسند دونیتسک اور لوہانسک کے تمام علاقوں کو اپنا علاقہ قرار دیتے ہیں لیکن وہ روس کے ساتھ سرحد پر بعض اندازوں کے مطابق تقریباً ایک تہائی یعنی تقریباً 6500 مربع میل خطے پر قابض ہیں۔

دونیتسک اور لوہانسک انکلیو 2014 میں لڑائی شروع ہونے کے بعد یوکرین سے بڑی حد تک منقطع ہو چکے ہیں اور پیر کو پوتن نے انہیں آزاد جمہوری ریاستوں کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ ان کی درست آبادی کا تعین کرنا مشکل ہے لیکن کچھ لوگوں کا اندازہ ہے کہ ان میں بالترتیب تقریباً 23 اور 15 لاکھ افراد رہتے ہیں، جن میں سے کئی خطے کی بڑی روسی اور روسی بولنے والی آبادیوں میں شامل ہیں۔

مشرقی یوکرین میں علیحدگی پسندوں اور یوکرینی حکومت کے درمیان لڑائی 2014 سے جاری ہے، جس میں 14,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ تشدد، تقسیم اور معاشی بدحالی نے خطے کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے بعد 20 لاکھ سے زائد افراد فرار ہو چکے ہیں۔

حال ہی میں مشرقی یوکرین میں وسیع پیمانے پر گولہ باری سے مغرب اور کیئف میں حملے کے خدشات بڑھ گئے ہیں کیونکہ روس اپنی افواج میں اضافہ جاری رکھے ہوئے ہے، جو اب یوکرین کے قریب ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہے۔

خطے کی تاریخ اور منسک معاہدہ کیا ہے؟

روس اور یوکرین کے درمیان تاریخی روابط نویں صدی سے ہیں اور پوتن نے بار بار اور حکمت عملی کے ساتھ اس پر وراثت کا مطالبہ کیا ہے۔

2014 کے اوائل میں یوکرین میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کے بعد ماسکو کے حامی صدر کا تختہ الٹنے کے بعد روس نے یوکرین کے جزیرہ نما کرائمیا پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا تھا۔ ماسکو کے حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں نے روس کی سرحد پر دونیتسک اور لوہانسک کے مشرقی صنعتی علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا۔ وہاں باغیوں نے سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر لیا اور نئی ’عوامی جمہوریہ‘ کا اعلان کر دیا۔

یہ بحران بڑھ گیا اور دونیتسک اور لوہانسک میں روس نواز علیحدگی پسندوں نے یوکرین سے آزادی کے فیصلے کے لیے ریفرنڈم کروایا۔ کیئف اور مغرب نے روس پر فوجیوں اور ہتھیاروں سے باغیوں کی حمایت کرنے کا الزام لگایا ہے لیکن روس کا کہنا ہے کہ یہ جنگجو رضاکار ہیں۔ علیحدگی پسندوں اور کیئف کی حمایت یافتہ افواج کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔

2015 میں روس اور یوکرین نے منسک امن معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔ اس معاہدے کو کوششیں فرانس اور جرمنی نے کی تھیں۔ اس معاہدے کے تحت ڈونبس خطے میں کیئف اور روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کے درمیان تنازعہ ختم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت یوکرین دونوں خطوں کو روس کے ساتھ اپنی سرحد پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بدلے ایک خصوصی حیثیت اور اہم خود مختاری دے گا۔

لیکن یہ معاہدہ تعطل کا شکار ہوگیا ہے۔

پوتن نے کہا ہے کہ یوکرین کا معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ یوکرین نے اس معاہدے میں ترمیم کا مطالبہ کیا ہے جس میں فوجی شکست کے بعد مداخلت کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ روسی شرائط پر ایک معاہدے سے ماسکو کو یوکرین کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہونے اور اس کی خودمختاری کو کمزور کرنے کا اختیار ملے گا۔ کیئف حکام نے کہا ہے کہ اگر موجودہ شرائط پر عمل درآمد کیا گیا تو فساد اور افراتفری پھیل جائے گی۔

امریکہ اور دیگر اتحادیوں نے اس معاہدے کی حمایت کا اظہار کیا ہے جبکہ فریقین سے سودے بازی کے اپنے حصوں کو پورا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ماسکو نے علیحدگی پسند علاقوں میں آٹھ لاکھ روسی پاسپورٹ جاری کیے ہیں۔ یوکرینی اور مغربی حکام کا کہنا ہے کہ روس نے علیحدگی پسندوں کو مسلح کیا ہے اور مدد دی ہے لیکن روس اس کی تردید کرتا ہے۔

پوتن ڈونبس سے کیا چاہتے ہیں؟ ڈونبس کے لوگ کیا چاہتے ہیں؟

پوتن نے روسیوں اور یوکرینیوں کو ’ایک لوگ‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے جولائی میں کریملین کی ویب سائٹ پر شیئر کیے گئے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’یوکرین کی حقیقی خودمختاری صرف روس کے اشتراک سے ہی ممکن ہے۔‘

پوتن نے پیر کو ایک تقریر کے دوران سوویت تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یوکرین کو کبھی بھی اپنی مستند ریاست کا درجہ حاصل نہیں رہا۔

2001 میں ہونے والی سرکاری مردم شماری سے پتہ چلا ہے کہ کرائمیا اور دونیتسک کی نصف سے زیادہ آبادی نے روس کو اپنی آبائی زبان کے طور پر ظاہر کیا ہے، لیکن مشرقی یوکرین کو بڑی حد تک روسی بولنے والے اور مغربی اکثریت والے یوکرین کے طور پر دیکھنا اسے ایک حد سے زیادہ آسان بنانے کے طور پر قرار دیا جاسکتا ہے۔ مشرقی دیہی علاقوں میں بہت سے لوگ یوکرینی یا روسی یوکرینی مرکب زبان بولتے ہیں جسے ’سرژیک‘ کہا جاتا ہے۔

اس کے باوجود پوتن نے اپنے روسی بولنے والوں کو مبینہ طور پر یوکرین کی عدم رواداری سے ’بچانے‘ کی خاطر ڈونبس کی مخصوص علاقائی شناخت کے تصور کو بار بار استعمال کیا ہے۔ علیحدگی پسندوں نے کیئف کے خلاف حمایت اور بغاوت کو ہوا دینے کے لیے اس شناخت کا فائدہ بھی اٹھایا ہے۔

کیئف کے زیر انتظام ڈونبس میں اکثریت چاہتی ہے کہ علیحدگی پسند علاقے یوکرین کے پاس واپس آجائیں۔ علیحدگی پسندوں کے زیر انتظام علاقے میں 2021 میں شائع ہونے والے ایک سروے کے مطابق نصف سے زیادہ لوگ کسی خود مختار حیثیت کے ساتھ یا اس کے بغیر روس میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دونوں علیحدگی پسند علاقوں کے رہنماؤں نے پیر کو پوتن سے انہیں تسلیم کرنے اور فوجی امداد کا مطالبہ کیا، جس سے یہ امکان پیدا ہوا کہ وہ روسی افواج کو اندر بلا سکتے ہیں جس سے ماسکو کو ’قانونی‘ فوجی مداخلت کا دکھاوا کرنے کا موقع ملے گا۔

روس کی ریاست ڈوما نے گذشتہ ہفتے پوتن کے لیے ایک اپیل منظور کی تھی کہ وہ دونیتسک اور لوہانسک کے روسی حمایت یافتہ انکلیوز کو تسلیم کریں۔ یورپی یونین نے ماسکو کو اس پر عمل کرنے کے خلاف متنبہ کیا۔ پوتن نے اس اعتراف کو سوموار کو آگے بڑھایا۔

ماسکو یوکرین کو نیٹو کے لیے ایک بفر زون کے طور پر بھی دیکھتا ہے جس کی بنیاد 1949 میں سوویت جارحیت سے بچانے کے لیے رکھی گئی تھی۔ پوتن طویل عرصے سے یہ کہتے رہے ہیں کہ نیٹو کی مشرق کی طرف توسیع ان کے لیے ایک سرخ لکیر تھی۔

بین سوہل، ٹفٹس یونیورسٹی کے فلیچر سکول آف لا اینڈ ڈپلومیسی سے فارغ التحصیل ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ روسی حکومت کے تحفظ کے لیے ماسکو کا یوکرین میں مقصد وہاں کی جمہوری حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ہے۔

’ماسکو کی معلوماتی جنگ جمہوریت کو غیر پسندیدہ بنانے کے ارد گرد گھومتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کریملن وسیع پیمانے پر اندرون ملک بدعنوانی اور جمہوریت نواز مظاہروں کے خلاف لڑ رہا ہے، روسی حکومت یوکرین کی ایک کامیاب حکومت کو اس کے اپنے وجود کو خطرے کے طور پر دیکھتی ہے۔‘

اگر سافٹ پاور ’بڑی فوجوں کے فضائی حملوں‘ کی جدید شکل ہے جیسا کہ ریٹائرڈ روسی کرنل جنرل لیونید ایواشوف نے ایک بار بیان کیا تھا تو ایک خوشحال اور آزاد یوکرین ایک ’معلوماتی‘ جوہری ہتھیار کے مترادف ہے، جس کا ہدف براہ راست ماسکو ہے۔ یہ وہ ہتھیار ہے، جسے بے اثر کرنے کے لیے پوتن تباہ کن اقتصادی پابندیوں کا خطرہ مول لینے کو تیار ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ