یوکرین پر حملے کی صورت میں چین روس کے ساتھ ہو گا: تجزیہ کار

چین کی وزارت خارجہ نے بار بار امریکہ پر’غلط معلومات پھیلانے‘ اور کشیدگی پیدا کرنے کا الزام لگایا ہے اور اس پر زور دیا ہے کہ وہ روس کے تحفظ کی ضمانتوں کے مطالبے کا احترام کرے اور اس پر توجہ دے۔

روسی وزارت دفاع کی طرف سے 18 فروری 2022 کو جاری کی گئی تصویر (فائل فوٹو: اے ایف پی)
 

روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو ماہرین کے مطابق چین سفارتی اور معاشی طور پر اس کی حمایت کرے گا۔ اس اقدام سے چین کے مغربی ملکوں کے ساتھ پہلے سے خراب تعلقات مزید بگڑیں گے۔ تاہم چین روس کی فوجی امداد نہیں کرے گا۔

امریکی صدر جو بائیڈن جمعے کو کہہ چکے کہ روس کے صدر ولادی میر پوتن نے چند دنوں کے اندر یوکرین پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تاہم روس اس دعوے کی تردید کی ہے۔

چین کی وزارت خارجہ نے بار بار امریکہ پر’غلط معلومات پھیلانے‘ اور کشیدگی پیدا کرنے کا الزام لگایا ہے اور اس پر زور دیا ہے کہ وہ روس کے تحفظ کی ضمانتوں کے مطالبے کا احترام کرے اور اس پر توجہ دے۔

صدرپوتن نے یکجہتی کے اظہار کے لیے چار فروری کو سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے بیجنگ کا دورہ کیا۔ اس موقعے پر انہوں نے چینی ہم منصب شی جن پنگ کے ساتھ’لامحدود‘ اسٹریٹجک شراکت داری کو مضبوط بنانے کا اعلان کیا۔ چین کے سرکاری میڈیا کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک’دنیا میں انصاف کی بالادستی کے لیے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں۔‘

یوکرین پر روس کا حملہ اس کی حمایت میں چین کے اعلان کو عملی شکل دینے کے حوالے سے آزمائش ہو گا۔ خاص طور پر چین کی عدم مداخلت کی خارجہ پالیسی کے اس اصول کی آزمائش ہو گی جس کا وہ اکثرذکر کرتا ہے۔ بیجنگ کے خیالات سے واقف ماہرین کا کہنا ہے کہ چین تقریباً یقینی طور پر روسی حملے میں عسکری طور پرملوث نہیں ہونا چاہے گا۔

رینمن میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر شی ین ہونگ  کا کہنا ہے کہ اگرچہ چین اور روس آزادانہ تعلقات سے آگے بڑھتے ہوئے نیم اتحاد کی طرف جا چکے ہیں لیکن بڑے پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات اس رسمی اتحاد سے دور ہیں جس کے تحت ایک ملک کو خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں دوسرا ملک اس کی حمایت میں فوج بھیجتا ہے۔

چین نے مسلسل یوکرین کے بحران کو بات چیت کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ سنگاپور میں ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر لی منگ جیانگ کے بقول: ’جس طرح چین تائیوان کے خلاف جنگ کے معاملے میں روس سے فوجی مدد کی توقع نہیں رکھتا اسی طرح روس کو یوکرین کے معاملے پر چین سے فوجی مدد کی توقع نہیں ہے اور نہ ہی اسے ایسی مدد کی ضرورت ہے۔‘

حملے کی مذت سے گریز

 روس کے یوکرین پر حملے کی صورت میں عالمی سطح پر اس کی مذمت کا حصہ نہیں بنے گا جس سے ظاہر ہو گا کہ وہ روس کا وہ  قابل اعتماد دوست ہے۔ چین وہ واحد ملک تھا جس نے یوکرین کی سرحد پر روسی فوج کے اجتماع کے معاملے پر غور کے لیے اقوام متحدہ کی 15 رکنی سلامتی کونسل کا اجلاس رکوانے کے لیے گذشتہ ماہ روس کے حق میں ووٹ دیا تھا تاہم یہ امریکہ کی درخواست پر بلایا جانے والے اجلاس رکوایا نہیں جا سکا تھا۔

سال 2014 میں چین مزید آگے بڑھ گیا اور اس نے امریکہ کی تیار کردہ سلامت کونسل کی قرارداد ووٹ دینے سے گریز کیا جس میں ملکوں پر زور دیا گیا تھا کہ روس کی جانب سے کریمیا کے اپنے ساتھ الحاق کو تسلیم نہ کرے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین روس کے ساتھ اقتصادی تعاون بڑھا سکتا ہے جو حملے کی صورت میں مغرب کی طرف سے اعلان کردہ پابندیوں کے اثرات کو ختم کر دے گا۔ کریمیا پر روس کے حملے کے بعد چائنا ڈویلپمنٹ بنک اور ایکسپورٹ امپورٹ بینک آف چائنا سمیت چین کے متعدد سرکاری بنکوں نے روسی سرکاری بنکوں کو قرضے فراہم کیے جن پر مغربی بنکوں نے پابندیاں لگا رکھی تھیں۔

جنگ جو چین نہیں چاہتا

چین اس بات کو ترجیح دے گا کہ روس یوکرین پر حملہ نہ کرے۔

صدر شی نے کہا کہ’بین الاقوامی دنیا کے اس قدرتقسیم ہونے کی وجہ سے ممکن ہے کہ امریکہ اور مغرب روس کے ساتھ ساتھ چین کو الگ تھلگ کو بھی کرنے یا اس پر پابندی لگانے کے لیے متحد ہو جائیں۔‘

اس ماہ کے شروع میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا تھا کہ یوکرین پر روسی حملے کی صورت میں چینی کمپنیوں نے ماسکو پر عائد  برآمدی پابندیوں کی خلاف ورزی کی کوشش کی تو انہیں نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکی خیالات سے باخبرعہدے دار نے صحافیوں کو بتایا کہ ٹیکنالوجی سے متعلق پابندیاں اور برآمدی کنٹرول جس کے واشنگٹن اتحادیوں کے ساتھ منصوبہ بندی کر رہا ہے  چین ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ عہدے دار کے بقول: ’ہم کسی بھی غیر ملکی ملک یا ادارے کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار ہیں جو ان پابندیوں سے بچنے کے متبادل راستہ اختیار کرے گا۔‘

بیجنگ یہ بھی نہیں چاہتا کہ اسے یوکرین پر روسی حملے کے معاشی اثرات کا سامنا کرنا پڑے خاص طور پر اس سال میں جب شی استحکام کو ترجیح دیتے ہوئے تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کی تیاری کر رہے جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ شی کا کہنا ہے کہ حملہ یہ بھی ظاہر کرے گا کہ روس سمیت تمام فریقوں سے یوکرین کے بحران کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے چین کی بار بار کی گئی درخواستوں پوتن نے کوئی توجہ نہیں دی۔ اس طرح چین کے مؤثر مصالحتی کردار پر شکوک و شبہات پیدا ہو جائیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا