روس جنگ نہیں چاہتا مگر وہ آنکھیں بند نہیں کر سکتا: پوتن

ماسکو میں جرمن چانسلر اولاف شولز کے ساتھ منگل کو ایک پریس کانفرنس میں روسی صدر کا کہنا تھا کہ ’ہم مل کر مزید کام کے لیے تیار ہیں۔ ہم مذاکرات کے راستے پر چلنے کے لیے تیار ہیں۔‘

روسی صدر ولادی میر پوتن نے 14 فروری کو  وزیردفاع کے ساتھ ایک ملاقات کی ہے (اے ایف پی)

روس کے صدر  ولادی میر پوتن نے کہا ہے کہ وہ یوکرین کے معاملے پر کشیدگی کے خاتمے کے لیے مغربی ممالک کے ساتھ کام جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں۔

ماسکو میں جرمن چانسلر اولاف شولز کے ساتھ منگل کو ایک پریس کانفرنس میں روسی صدر کا کہنا تھا کہ ’ہم مل کر مزید کام کے لیے تیار ہیں۔ ہم مذاکرات کے راستے پر چلنے کے لیے تیار ہیں۔‘

ولادی میر پوتن کا کہنا ہے کہ ’بلاشبہ روس جنگ نہیں چاہتا لیکن وہ اس بات سے آنکھیں بند نہیں کر سکتا کہ واشنگٹن اور نیٹو سکیورٹی کے ناقابل تقسیم ہونے کے اصول جو کہتا ہے کہ کوئی بھی ملک دوسروں کی قیمت پر اپنی سکیورٹی کو مضبوط نہیں کر سکتا ، کی آزادانہ تشریح کر رہے ہیں۔‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جرمن چانسلر نے کیف کے دورے کے ایک روز بعد روسی صدر سے ملاقات کی۔ ان کے یوکرین کے دورے کا مقصد صدر ولودی میر زیلنسکی کے بات چیت میں یوکرین کی حمایت تھا۔

اس سے قبل روس کی وزارت دفاع نے کہا تھا کہ یوکرین کی سرحد کے قریب فوجی مشقیں مکمل کرنے کے بعد بعض روسی فوجی واپس آ رہے ہیں جبکہ امریکی محکمہ خارجہ نے جنگ کے خدشے کے پیش نظر اعلان کیا ہے کہ وہ اپنا سفارت خانہ کیف سے منتقل کر رہے ہیں۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ روس کی جانب ایسے اقدام سے موجودہ کشیدگی میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔

روسی وزارت دفاع کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مغربی اور جنوبی ملٹری اضلاع کے بعض فوجی دستوں نے مشقیں مکمل کرنے کے بعد فوجی اڈوں کی جانب واپسی شروع کر دی ہے۔

دی انڈپینڈنٹ کے مطابق برطانیہ کی سیکریٹری خارجہ لز ٹروس نے منگل کی صبح کہا ہے کہ روس کے یوکرین پر حملے کے ’قوی امکان‘ ہیں اور یہ بہت جلد ہو سکتا ہے۔ ساتھ میں انہو ں نے خبردار کیا کہ یورپ ممکنہ طور پر ’جنگ کے دہانے‘ پر ہے۔

 

انہوں نے روسی صدر ولادی میر پوتن سے ’پیچھے ہٹنے‘ کا کہا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ روس، یوکرین اور یورپ کی سکیورٹی کے لیے جنگ کے ’شدید نتائج‘ ہو سکتے ہیں۔

دوسری جانب مشرقی یوکرین کے رہائشی یوری فیڈینسکئی روس کے ممکنہ حملے کے پیش نظر اپنے دو بچوں اور حاملہ بیوی کے ہمراہ بذریعہ ہوائی جہاز ملک سے باہر جا رہے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ وہ روسی صدر ولادی میر پوتن کو ’اپنے خاندان کی قسمت کا فیصلہ‘ کرنے کا اختیار نہیں دیں گے۔

ہوائی اڈے پر موجود یوری نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’کسی بھی لمحے حملہ ہو سکتا ہے۔ کیا حملہ ہوگا؟ یہ تو پوتن ہی کو معلوم ہے، لیکن ہم پوتن کو اپنے خاندان کی قسمت کا فیصلہ نہیں کرنے دیں گے۔ ہم اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں گے۔‘

یوری نے مزید بتایا: ’میں اپنے خاندان کو جہاز تک لے کر جا رہا ہوں۔ میرے پانچ اور چار سالہ بچے سمیت ایک بچہ جس کے آنے کی امید ہے اور میری بیوی ہوائی جہاز کی طرف جا رہے ہیں۔ ہم مشرقی یوکرین میں رہتے ہیں۔‘

یوکرین سے نکلنے کا بنیادی مقصد بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’ہم جا رہے ہیں تاکہ بچوں کو امریکی سکولوں میں انگریزی سکھا سکیں، تاکہ پوتن جو یوکرین میں کرنا چاہتے ہیں، اس کے مخالف دیکھ سکیں۔‘

دوسری جانب یوکرین نے روس اور درجنوں مزید یورپی ممالک کے ساتھ ہنگامی میٹنگ بلائی ہے، جس میں یوکرینی بارڈر پر روسی افواج کے جمع ہونے کا معاملہ اٹھایا جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یوکرینی وزیر خارجہ دیمیترو کولیبا کے مطابق روس نے یوکرین کی باضابطہ درخواست کو نظر انداز کر دیا ہے، جس میں اس سے یوکرینی سرحد پر ایک لاکھ فوجی اور جدید ہتھیار جمع کرنے کے حوالے سے وضاحت طلب کی گئی تھی۔

1990 کے ایک معاہدے کی رو سے تنظیم برائے سکیورٹی اینڈ کوآپریشن اِن یورپ (او ایس سی ای) کے 57 رکن ممالک ایک دوسرے کو اپنی بڑی فوجی نقل و حرکت سے متعلق آگاہی دینے کے پابند ہیں۔

ممکنہ روسی حملے کے تناظر میں یوکرین کے شہری اور غیر ملکی افراد دباؤ کا شکار ہیں۔ ایسے ہی ایک شہری وولکن تستان نے بتایا: ’ہم رکنا چاہتے تھے لیکن جو سوشل میڈیا پر پڑھنے کو ملتا ہے، اس سے ہم دباؤ میں آ جاتے ہیں، لیکن جب ہم گلیوں میں لوگوں سے بات کرتے ہیں تو ان میں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ باہر سب پر سکون ہے۔‘

روس نے یوکرین کے ساتھ اپنی سرحد پر ایک لاکھ سے زائد فوجی جمع کر رکھے ہیں، جو فوجی اتحاد (نیٹو) کا حصہ نہیں۔ ماسکو ’سکیورٹی خدشات‘ کی بنا پر چاہتا ہے کہ یوکرین کو نیٹو کی رکنیت نہ دی جائے۔ اس تنازعے کے خاتمے کے لیے امریکہ نے سفارتی راستے کھلے رکھے ہیں، جو اب تک بحران کو کم کرنے میں ناکام رہے ہیں-

امریکہ نے بار بار کہا ہے کہ یوکرین پر ’کسی بھی وقت‘ حملہ ہو سکتا ہے جبکہ روس نے ایسے کسی بھی منصوبے کی تردید کرتے ہوئے مغرب پر ’ہسٹیریا‘ کا الزام عائد کیا ہے۔

خبررساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے اتوار کو ایک انٹرویو میں کہا تھا: ’اب کسی بھی دن‘ حملہ ہو سکتا ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’ہم دن کے متعلق بالکل درست پیشگوئی تو نہیں کرسکتے، لیکن ہم کچھ عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ وہ وقت آگیا ہے۔‘

امریکی قومی سلامتی مشیر جیک سلیوان نے کہا تھا کہ روس کسی بھی وقت حملے کے لیے ’حیرت انگیز جھوٹا بہانہ‘ بنا سکتا ہے۔

تاہم ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’امریکہ نیٹو کی سرزمین کے ایک ایک انچ کا بھی دفاع کرے گا اور ہمارے خیال میں روس اس پیغام کو پوری طرح سمجھتا ہے۔‘

منگل کو یوکرین کے دارالحکومت کیف میں قائم بھارتی سفارت خانے نے طلبہ سے عارضی طور پر یوکرین سے نکل جانے کو کہا ہے۔ 

بھارتی سفارت خانے نے تمام ہندوستانی شہریوں سے کہا ہے، خاص طور پر ان طلبہ سے جن کا یوکرین میں قیام ضروری نہیں ہے کہ بڑھتی ہوئی علاقائی کشیدگی کے دوران عارضی طور پر ملک چھوڑنے پر غور کریں۔

سفارت خانے کے حکام نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ یوکرین میں مقیم بھارتی شہریوں کو بھی مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ ملک کے اندر تمام غیر ضروری سفر سے گریز کریں‘

’بھارتی شہریوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ سفارت خانے کو یوکرین میں اپنی موجودگی کی صورت حال کے بارے میں مطلع رکھیں تاکہ سفارت خانہ ان تک جہاں ضرورت ہو وہاں پہنچ سکے۔‘

اس سے قبل امریکی محکمہ خارجہ نے پیر کو اعلان کیا تھا کہ وہ اپنا سفارت خانہ کیف سے مغربی یوکرین کے شہر لیوو منتقل کر رہا ہے۔

یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب بورس جانسن اور جو بائیڈن نے خبردار کیا تھا کہ اگر پیر کی رات دونوں رہنماؤں کے درمیان کال کے بعد یوکرین پر حملہ کیا گیا تو روس کو ’طویل بحران‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

کریملن نے کہا ہے کہ اگر یوکرین نیٹو میں شامل ہونے کے اپنے ارادے سے دستبردار ہو جائے تو روس کے سکیورٹی خدشات میں نمایاں طور پر کمی ہوجائے گی۔

اس معاملے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی کا پیر کو کہنا تھا کہ ’امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کا روس کے حملے کے خوف سے اپنے سفارت کاروں کو کیف سے لویو منتقل کرنے کا فیصلہ غلط ہے۔‘  

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ