ڈیرہ اسماعیل خان کی خاتون فوٹوگرافر:’شوق بھی پورا، پردہ بھی ‘

مہک عمران کہتی ہیں کہ ’میرے اس فیلڈ میں قدم رکھنے سے ڈی آئی خان کے لوگوں کو یہ سہولت ہوئی ہے کہ وہ اپنی فوٹوگرافی کا شوق بھی پورا کر لیتے ہیں اور ان کا پردہ بھی برقرار رہتا ہے۔‘

پانچ سال قبل ڈیرہ اسماعیل خان کی مہک عمران نے جب فوٹوگرافی کی فیلڈ میں قدم رکھا تو یہ ان کے لیے بالکل بھی آسان نہیں تھا کیونکہ ڈی آئی خان جیسے شہر میں عموماً خواتین کو پردے، رسم و رواج اور سماجی دباؤ کی وجہ سے اپنی مرضی کی فیلڈ چننے میں خاصی دشواری پیش آتی ہے۔

پھر اگر بات کی جائے آرٹس کے شعبے کی اور اس میں بھی فوٹوگرافی کی تو یہ بات ان علاقوں میں کافی معیوب سمجھی جاتی ہے اور اکثر خواتین کو ایسے جملے سننے کو ملتے ہیں کہ ’اب ہماری بیٹی راتوں کو دیر سے جا کر غیروں کے ہاں فوٹوگرافی کا کام کرے گی۔‘

مہک اس شعبے کا انتخاب کرنے والی ڈی آئی خان کی ’پہلی‘ خاتون فوٹوگرافر ہیں، جن کا کہنا تھا کہ انہیں آغاز سے ہی بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا بلکہ آج تک سامنا کر رہی ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’ہمارے معاشرے میں جب بھی کوئی خاتون اپنی زندگی کو لے کر کوئی آزادانہ فیصلہ کرنا چاہتی ہے تو اسے بہت سے ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ عموماً مردوں کو نہیں کرنے پڑتے اور اگر کوئی خاتون ان کے مد مقابل آ جائے تو یہ بات ان کی انا کو برداشت نہیں ہوتی۔ پھر ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس خاتون کو ڈرا دھمکا کر ان کی آواز کو دبایا جائے تاکہ وہ اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور ہو جائیں۔ میرے ساتھ بھی کچھ یوں ہوا۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’جب میں نے فوٹوگرافی کا آغاز کیا تو اس وقت میرے پاس ذاتی کیمرے اور دیگر متعلقہ آلات موجود نہیں تھے۔ کسی بھی تقریب پر جانے سے پہلے میں ہمیشہ سامان کرائے پر لیتی تھی۔‘

’ایک مرتبہ کچھ یوں ہوا کہ ایک شادی کی تقریب میں فوٹوگرافی کے لیے مجھ سے رابطہ کیا گیا مگر جہاں سے میں سامان کرائے پر لیتی تھی وہ فیملی پہلے ان ہی سے اپنی تقاریب کی فوٹوگرافی کرواتی تھی۔ جیسے ہی یہ بات سامان دینے والوں کو معلوم ہوئی تو انہوں نے مجھے کیمرہ کرائے پر دینے سے انکار کر دیا اور اگلے چند ہی گھنٹوں میں مجھے تقریب کی فوٹوگرافی کے لیے جانا تھا۔‘

مہک نے بتایا کہ ’کافی تگ و دو کے بعد میں نے اپنے سامان کا انتظام تو کرلیا مگر اس دن میں انتہائی ذہنی اذیت سے گزری۔‘

’یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ وہ کسی خاتون کو آگے بڑھتے دیکھنا پسند نہیں کرتے یا اگر یہ کہوں کہ کسی خاتون کو اپنے مقابلے میں دیکھنا پسند نہیں کرتے تو یہ غلط نہ ہوگا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان تمام دشواریوں کے باوجود مہک نے ہمت نہیں ہاری اور ان تھک محنت اور کوششوں نے آج انہیں اس مقام پر پہنچا دیا کہ جو خاتون پہلے فوٹوگرافی کے لیے کرائے پر سامان لیتی تھیں، آج ان کا اپنا سٹوڈیو ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ مہک نے فوٹوگرافی کی فیلڈ میں متعدد ایوارڈز بھی اپنے نام کر رکھے ہیں اور آج فوٹوگرافی کے مقابلوں میں انہیں جج کے طور پر بھی مدعو کیا جاتا ہے۔

مہک نے بتایا: ’یہ سچ ہے کہ مجھے بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن ڈی آئی خان میں ایک خاتون کا فوٹوگرافی کی فیلڈ میں قدم رکھنا بذات خود ایک خوش آئند بات ہے۔ ایسا میں نہیں کہہ رہی بلکہ اکثر میں جب شادی کی تقریبات میں فوٹوگرافی کے لیے جاتی ہوں تو لوگ مجھے دیکھ کر اپنی خوشی کا اظہار ان ہی الفاظ میں کرتے ہیں۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’میری فیلڈ میں قدم رکھنے سے پہلے ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگ مرد فوٹوگرافرز سے اپنی تصاویر بنواتے تھے جبکہ کچھ دلہنیں اپنے خاص دن پر فوٹوگرافی کروانے کا شوق تو رکھتی تھیں لیکن پردہ برقرار رکھنے کے باعث وہ مرد فوٹوگرافر سے اپنی تصاویر نہیں بنواتی تھیں۔‘

’لیکن میرے فیلڈ میں قدم رکھنے سے ڈی آئی خان کے لوگوں کو یہ سہولت ہوئی ہے کہ وہ اپنی فوٹوگرافی کا شوق بھی پورا کر لیتے ہیں اور ان کا پردہ بھی برقرار رہتا ہے۔‘

مہک کے مطابق ان کی پانچ سال کی مسلسل محنت کی وجہ سے اب ڈی آئی خان کے لوگ انہیں اور ان کے پیشے کو قبول کرنے لگے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دفتر