’چھانگا مانگا‘ کلچر کب اور کیسے شروع ہوا؟

برصغیر میں سیاسی وفاداریوں کی تبدیلیوں کی تاریخ پاکستان کے قیام سے بھی زیادہ پرانی ہے اور اس کا آغاز انگریزوں کے دور ہی میں شروع ہو گیا تھا۔

چھانگا مانگا کا نام دو ڈاکو بھائیوں کے نام پر رکھا گیا تھا (تصویر: کری ایٹو کامنز/ عثمانیز آفیشل ون)

پاکستانی سیاست میں ہارس ٹریڈنگ کے وسیع پیمانے پر رائج ہونے کا ایک سبب شاید یہ ہے کہ ہمارے یہاں جیتنے والے امیدوار سیاسی وابستگی کی وجہ سے کم اور اپنی مالی حیثیت، سماجی قوت اور مذہبی اثرات کی وجہ سے زیادہ کامیاب ہوتے ہیں اور انہیں اپنے اسی حلقہ انتخاب پر ناز ہوتا ہے۔ اب تو ایسے امیدواروں کے لیے ’الیکٹبلز‘ کی اصطلاح بھی وجود میں آ چکی ہے۔

1937 میں پنجاب میں ہونے والے عام انتخابات میں یونینسٹ پارٹی نے 175 میں سے 99 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ آل انڈیا مسلم لیگ کو صرف دو نشستیں حاصل ہوئیں، مگر صرف چھ ماہ کے اندر اندر یونینسٹ پارٹی کے متعدد امیدواروں نے اپنی سیاسی وابستگی تبدیل کرلی۔ جن میں میاں شوکت حیات، میاں ممتاز دولتانہ، میاں عبدالعزیز اور شیخ صادق حسین جیسے نامور سیاست دان شامل تھے۔ آنے والے دنوں میں آشیانہ بدلنے والے ان پرندوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ 1945 کے اختتام تک یونینسٹ پارٹی کے لاتعداد نامور افرادآل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو چکے تھے، چنانچہ 1946 کے انتخابات میں یونینسٹ پارٹی 175 کے ایوان میں صرف 18 نشستوں پر کامیابی حاصل کر پائی۔

صرف نو برس کی مختصر مدت میں وہ سب کچھ ہو گیا جس کا 1937 میں خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ انتخابات کے بعد ان 18 نشستوں پر کامیاب ہونے والے نصف سے زیادہ ارکان آل انڈیا مسلم لیگ سے آ ملے۔

یہی وہ زمانہ تھا جب پنجاب کے مشہور سیاست دان ڈاکٹر محمد عالم لوٹا کو بار بار سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کی وجہ سے ’لوٹا‘ کا خطاب دیا گیا۔ ڈاکٹر عالم لوٹا کی سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کی تاریخ 1929 سے شروع ہوتی ہے اور 1947 میں ان کی وفات تک جاری رہی۔ اس دوران انہوں نے جن پارٹیوں میں قدم رنجہ فرمایا ان میں خاکسار پارٹی، آل انڈیا مسلم لیگ، آل انڈیا نیشنلسٹ پارٹی، انڈین نیشنل کانگریس اور مجلس اتحاد ملت کے نام سرفہرست تھے۔

1940 میں جب انہیں آل انڈیا مسلم لیگ میں واپس آنے کی دعوت ملی تو انہوں نے کہا کہ مجھے سوچنے کے لیے کچھ وقت درکار ہے، قائداعظم نے ہنس کر کہا، ’ڈاکٹر عالم، کیا تمہیں کسی پارٹی میں آنے جانے کے لیے سوچنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے؟‘

ڈاکٹر عالم یہ طنز برداشت نہ کر سکے اور ایک مرتبہ پھر خاکسار پارٹی میں شامل ہو گئے۔ ڈاکٹر عالم کی سیاسی پارٹیوں سے ان ہی ادلتی بدلتی وابستگیوں کے باعث عطا حسین میر کاشمیری نے انہیں ’لوٹا‘ کا خطاب دیا جو ان کے نام کا حصہ بن گیا۔

قیام پاکستان کے بعد بھی سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کی یہ روایت قائم رہی۔ 1957 میں جب صدر پاکستان اسکندر مرزا نے پارلیمنٹ میں اپنی سیاسی جماعت ری پبلکن پارٹی بنانے کا اعلان کیا تو مسلم لیگ میں شامل متعدد ارکان فوری طور پر اس نومولود پارٹی کا حصہ بن گئے، یا بالفاظ دیگر پاکستان کی سیاسی تاریخ کے پہلے باضابطہ لوٹے بن گئے۔

اس وقت اس لوٹا گروپ کی سربراہی نواب افتخار حسین ممدوٹ نے کی جبکہ اس گروپ میں شامل دوسرے سیاست دانوں میں احمد نواز گردیزی، عبدالمجید دستی، چودھری فضل الٰہی، قاضی فضل اللہ، سید جمیل حسین رضوی، ارباب نور محمد، مخدوم زادہ حسن محمود اور کرنل عابد حسین کے نام سرفہرست تھے۔

سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کا یہ سلسلہ ایوب خان کے دور میں بھی جاری رہا۔ کچھ افراد کو دولت کے ذریعے، کچھ کو وزارتی ترغیبات کے ذریعے اور کچھ کوحکومتی دباؤ کے ذریعے اپنا ہمنوا بنایا گیا۔

1970 میں شیخ مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو نے عام سیاسی کارکنوں کو پارٹی ٹکٹ دیے جن میں سے بیشتر اپنی نشستوں پر کامیاب ہوئے اور انہوں نے بڑے بڑے برج الٹ دیے مگر جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو پیپلز پارٹی کے ہاتھوں شکست کھانے والے بہت سے افراد سجدۂ سہو ادا کرکے پاکستان پیپلز پارٹی سے آ ملے اور ان میں سے بیشتر 1977 کے عام انتخابات میں پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے۔

1981 میں جب جنرل ضیا الحق نے مجلس شوریٰ کا ڈول ڈالا تو ان میں سے بہت سے سیاست دانوں نے ہوا کا رخ بدلتے دیکھ کر جنرل ضیا الحق سے ہاتھ ملا لیا۔ ان افراد میں لیاقت جتوئی، عطا محمد مری، ملک سکندر خان، آغا صدر الدین، عبدالغفور بھرگڑی، ارباب امیر حسین، جام تماچی اور سید سعید حسن کے نام سرفہرست تھے۔

1985 کے عام انتخابات غیرجماعتی بنیادوں پر لڑے گئے۔ ایم آر ڈی میں شامل تمام سیاسی جماعتوں نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا، تاہم جب ان انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو قومی اسمبلی کا انتخاب جیتنے والے افراد میں 21 افراد ایسے تھے جو 1977 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔

1988 میں جب جنرل ضیا الحق کی موت کے بعد عام انتخابات کا انعقاد ہوا تو سبھی لوگوں کو پیپلز پارٹی کی کامیابی واضح نظر آنے لگی، چنانچہ ایسے متعدد افراد ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے، جو جنرل ضیا کی مجلس شوریٰ کے رکن رہے تھے یا جنہوں نے 1985 کے عام انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ ان میں مخدوم یوسف رضا گیلانی کا نام سرفہرست تھا جنہوں نے 1984 کے صدارتی ریفرنڈم میں جنرل ضیا الحق کے حق میں اخباروں میں اشتہار بھی شائع کروائے تھے اور بعدازاں جنرل ضیا الحق کی کابینہ میں بھی جگہ بنانے میں بھی کامیاب ہو گئے تھے۔

1988 کے عام انتخابات کے بعد مرکز میں تو پاکستان پیپلز پارٹی کو اکثریت حاصل ہوئی اور نظر آنے لگا کہ اگلا وزیراعظم پاکستان پیپلز پارٹی سے ہوگا مگر صوبہ پنجاب میں صورت حال واضح نہیں تھی اور مسلم لیگ کو پاکستان پیپلز پارٹی پر چند ووٹوں کی فوقیت حاصل تھی۔

ایسے میں ایوان کی قسمت کا فیصلہ ان 40 ارکان کے ہاتھ میں آگیا جو کسی سیاسی وابستگی کے بغیر انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ پیپلز پارٹی نے ان آزاد ارکان کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے فاروق لغاری کو نامزد کیا مگر ان کا جاگیردارانہ اور نوکر شاہی کا پس منظر آڑے گیا، وہ توقع کرتے رہے کہ آزاد ارکان ازخود ان کے در دولت پر حاضری دیں گے۔

چھانگا مانگا کے جنگل میں منگل

یہاں سے ہماری کہانی میں چھانگا مانگا کی انٹری ہوتی ہے، لیکن اس سے پہلے چند باتیں اس جنگل کے بارے میں۔

چھانگا مانگا لاہور اور چونیاں کے درمیان واقع ایک جنگل کا نام ہے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی جنگل ہے جس کا رقبہ 48 مربع کلومیٹر کے برابر ہے۔

اس جنگل میں شیشم اور کیکر کے درختوں کی بہتات ہے، جنہیں انگریزوں نے 1866 میں اگانا شروع کیا تھا اور اس کا مقصد انڈین ریلوے کو لکڑی فراہم کرنا تھا۔ بعد میں یہ تفریحی مقام کی حیثیت اختیار کرگیا، جہاں لاہور اور دوسرے علاقوں سے لوگ آ کر پکنک منانے لگے۔

چھانگا مانگا کے نام کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قدیم زمانے میں اس علاقے میں چھانگا مانگا نام کے دو ڈاکو بھائی رہتے تھے، جنہوں نے پورے ضلعے میں لوٹ مار کرکے دہشت پھیلائی ہوئی تھی۔

اسی جنگل کا انتخاب اس وقت کے پنجاب کے وزیراعلیٰ نواز شریف نے آزاد ارکان اسمبلی کو ٹھہرانے کے لیے کیا۔ نواز شریف گذشتہ پونے چار سال سے پنجاب کے سیاہ و سفید کے مالک تھے اور انتظامیہ بھی انہیں کی جنبش ابرو کی منتظر تھی۔

ان ارکان کو چھانگا مانگا سے عین اس وقت واپس لایا گیا جب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے رائے شماری ہو رہی تھی اور یوں ’چھانگا مانگا‘ کی اصطلاح ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ بن گئی۔

ہارس ٹریڈنگ کے الزامات صرف نواز شریف ہی پر نہیں لگے، اسی دور میں ان کی حریف بےنظیر بھٹو کا دامن بھی اس سے خالی نہیں۔

اخباری اطلاعات کے مطابق بےنظیر بھٹو نے اپنے حامیوں کو پاکستان فضائیہ کے سی 130 جہاز میں بھر کر سوات بھیجا، جہاں انہیں سیرینا ہوٹل میں رکھا گیا گیا، تاکہ وہ ان کے مخالفوں کے ہتھے نہ چڑھ سکیں۔

عین ووٹنگ کے دن ان اراکین کو سخت سکیورٹی کے حصار میں ووٹ ڈالنے کے لیے اسلام آباد لایا گیا۔

نواز شریف نے ایک چال یہ بھی چلی کہ رائے شماری کے لیے خفیہ بیلٹ کی بجائے ہاتھ اٹھانے کے طریقے کو اپنایا گیا، اس طریقے کے باعث ان کا کوئی ’گھوڑا‘ ان سے بدک نہیں سکا۔

ابھی مرکز میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کے قیام کو ایک برس بھی نہ گزرا تھا کہ 23 اکتوبر 1989 کو اسلامی جمہوری اتحاد اور متحدہ اپوزیشن کے 86 ارکان قومی اسمبلی نے قومی اسمبلی کے سیکریٹری کو وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا نوٹس دے دیا۔

اسی شام اسلام آباد ہوٹل میں اپوزیشن کے سرکردہ ارکان چوہدری شجاعت حسین، زاہد سرفراز، ملک نعیم اور چوہدری عبدالغفور نے ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ صحافی حضرات یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کچھ ہی دیر بعد ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر عمران فاروق اور ڈپٹی پارلیمانی لیڈر امین الحق بھی پریس کانفرنس میں پہنچ گئے جس سے اپوزیشن کے اس دعوے کی صداقت ثابت ہو گئی کہ ان کی تحریک میں ایم کیو ایم کے اراکین اسمبلی بھی ان کے ہمراہ ہیں۔

26  اکتوبر 1989 کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم کے خلاف پیش کی جانے والی عدم اعتماد کی قرارداد کو بحث اور ووٹنگ کے لیے منظور کرلیا گیا۔ قومی اسمبلی کے سپیکر ملک معراج خالد نے قرارداد پر بحث اور ووٹنگ کے لیے یکم نومبر کا دن مقرر کیا۔ اگلے چار پانچ روز میں ملک میں سیاسی سرگرمیاں اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ گئیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں فریق اراکین اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل کروانے کے لیے تمام حربے اور ہتھکنڈے استعمال کرنے لگے۔

وہ ہر قیمت پر اپنی کامیابی کا حصول چاہتے تھے۔ بکاؤ ارکان اسمبلی کی وفاداریاں خریدنے کے لیے دو بڑے خریدار میدان میں موجود تھے اور دونوں طرف پجیرو گاڑیاں، نقد رقوم سے بھرے ہوئے بریف کیس، عزیزوں کے لیے اعلیٰ عہدوں پر ملازمتیں، بینکوں سے آسان شرائط پر قرضے، صنعتوں کے لیے پرمٹ اور پلاٹوں کی الاٹمنٹ کی ترغیبات موجود تھیں۔

متحدہ اپوزیشن نے اپنے ہم خیال ارکان اسمبلی کو مری میں اور حکومت نے اپنے ارکان اسمبلی کو سوات کے ہوٹلوں میں ٹھہرایا، جہاں انہیں تمام سہولتیں میسر تھیں۔ دونوں طرف کے ارکان کم و بیش حراست کی کیفیت میں تھے، مگر دونوں پارٹیوں کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے اپنے ہم خیال ارکان اسمبلی کو ’حفاظت‘ میں رکھا ہوا ہے۔

خدا خدا کرکے یکم نومبر کا دن آیا، جب قومی اسمبلی میں تحریک پر بحث اور ووٹنگ کا آغاز ہوا۔ اس تحریک کی حمایت میں غلام مصطفی جتوئی، مولانا فضل الرحمٰن، ڈاکٹر عمران فاروق اور سیدہ عابدہ حسین نے تقاریر کیں، جبکہ حزب اقتدار کی جانب سے صرف وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے جوابی تقریر کی۔

تقاریر کے بعد تحریک کے حق میں ووٹ ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ تحریک کی کامیابی کے لیے کل ارکان اسمبلی (237) کے نصف سے زائد یعنی کم از کم 119 ووٹ درکار تھے، لیکن تحریک کے حق میں صرف 107 ووٹ پڑسکے۔ یوں یہ قرارداد 12 ووٹوں کی کمی سے ناکامی سے دوچار ہو گئی۔

یہ تحریک عدم اعتماد تو منظور نہ ہو سکی مگر فریقین کی ان کوششوں سے سیاسی افق پر جو گرد اڑی اس کا اندازہ صدر غلام اسحاق خان کی اس تقریر سے بھی ہوسکتا ہے جو انہوں نے چھ اگست 1990 کو بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کرنے کے بعد کی تھی۔

انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’سیاسی سٹاک ایکسچینج کھولے گئے، سیاسی وفاداریاں کھلی منڈی میں مویشیوں کی طرح بیچی اور خریدی گئیں۔ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے وقت تحریک کی مخالفت اور تحریک کی حماقت حاصل کرنے کی مہم میں ایسے غیر اخلاقی اور غیر قانونی حربے استعمال کیے گئے کہ ہماری قومی اسمبلی دنیا بھر میں مذاق کا نشانہ بن گئی۔ ارکان اسمبلی یرغمالی بن کر حبس بیجا میں رہے اور لالچ اور دھمکیوں کے زور پر انہیں اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرنے سے روکا گیا۔ بقول کسی کے کوئی وزارت کے ترازو میں تل کر بکا، کسی نے ضمیر کا سودا زمین کے بدلے طے کیا، کسی نے قرضوں کے عوض اور کسی نے وعدہ فردا کے لالچ میں سیاسی وفاداری گروی رکھ دی۔‘

’جنہوں نے ظاہراً وفاداری میں شرط استواری برقرار رکھی انہوں نے بھی ترک تعلق کے دھمکیوں کے بل پر اپنی قیمت وصول کی، گویا سیاست کو سوداگری سمجھنے والوں نے وقت کی ہر کروٹ سے ذاتی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی، کسی نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ وہ خدا کو حاضر و ناظر جان کر اٹھائے جانے والے حلف کی خلاف ورزی کا مرتکب ہورہا ہے یا کہ عوام نے جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں اسے جس جماعت کے نظریئے کی ترجمانی کے لیے اسمبلی میں بھیجا تھا انہیں اس سے رجوع کیے بغیر انحراف کا کوئی حق نہیں۔ ایسا کرنا اپنے ووٹروں سے غداری اور امانت میں خیانت کے مترادف ہے جو روز سزا و جزا کے مالک کے نزدیک گناہ عظیم ہے۔ اس طرز عمل سے بعض ستم ظریفوں کو یہ تک کہنے کا موقع ملا کہ دو ڈھائی سو کروڑ کے عوض پاکستان کی پوری قومی اسمبلی کی بولی لگائی جا سکتی ہے۔‘

پاکستان کی تاریخ میں ہارس ٹریڈنگ کی ایک اور بدترین مثال 1993 کے سیاسی بحران کے زمانے میں سامنے آئی۔ ہوا یوں تھا کہ اپریل 1993 میں جب صدر غلام اسحاق خان نے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت ختم کی تھی تو پنجاب میں وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں کی حکومت بھی ایک تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم کر دی گئی اور وہاںمیاں منظور وٹو کی حکومت قائم ہو گئی۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا موقع تھا جب کسی وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیابی سے ہمکنار ہوئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مگر مئی 1993 میں جب نواز شریف کی حکومت بحال ہوئی تو انہوں نے ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے پنجاب میں اپنی پارٹی کی حکومت ایک مرتبہ پھر قائم کرنے کی کوشش کی۔ اب جو ارکان اسمبلی میاں منظور احمد وٹو کے گرد جمع تھے وہ میاں نواز شریف کے کیمپ میں جانے کے لیے بے قرار ہونے لگے۔ حالات اس قدر خراب ہوئے کہ اس بات کا خدشہ پیدا ہو گیا کہ کہیں پنجاب اسمبلی کے اندر خونی تصادم شروع نہ ہو جائے۔

ایسے میں منظور وٹو نے گورنر پنجاب کو اسمبلی توڑنے کی سفارش پیش کر دی مگر اسی دن حزب اختلاف نے بھی ایک تحریک عدم اعتماد بھی جمع کروا دی، مگر یہ ثابت نہ ہو سکا کہ منظور وٹو نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش پہلے پیش کی تھی یا ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پہلے جمع ہوئی تھی۔

یہ معاملہ عدالت تک گیا اور اس دوران دونوں گروپ لاہور میں اپنی اپنی قوت کا مظاہرہ کرتے رہے۔ نواز شریف نے اپنے حامی ارکان اسمبلی کو اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں منتقل کر دیا اور یوں چھانگا مانگا کی تاریخ ایک مرتبہ پھر دہرائی گئی۔ اس کارروائی کے دوران ارکان کی سیاسی وابستگی کبھی ایک گروپ کے ساتھ ہوجاتی تھی کبھی دوسرے گروپ کے ساتھ۔

اس رجحان کو پریس نے ’لوٹا کریسی‘ کا نام دیا اور ایسے ارکان جو اپنی وابستگی بار بار تبدیل کر رہے تھے، انہیں لوٹا کے خطاب سے نوازا گیا۔ 28 جون 1993 کو لاہور ہائی کورٹ نے میاں منظور وٹو کی حکومت کو بحال کر دیا جس کے فوراً بعد منظور وٹو کی سفارش پر گورنر نے پنجاب اسمبلی ایک مرتبہ پھر تحلیل کر دی۔

1993 کے انتخابات سے کچھ عرصے قبل صدر مملکت نے ایک آرڈیننس نافذ کیا جس میں فلور کراسنگ کو خلاف قانون قرار دیا گیا اور کہا کہ انتخابات کے بعد جو رکن اسمبلی فلور کراس کرے گا اس کی رکنیت خود بخود ختم ہو جائے گی۔ مگر اسمبلیاں وجود میں آنے کے بعد ارکان اسمبلی نے اس آرڈیننس کو ایوان میں پیش ہی نہیں ہونے دیا اور یوں آرڈیننس مقرر میعاد گزر جانے کے بعد خود بخود کالعدم ہو گیا۔

پاکستان میں حکومتیں آتی رہیں، جاتی رہیں، مگر سیاسی لوٹے اپنے جگہ برقرار رہے۔ مستقبل قریب میں بھی یہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس مسئلے کا صرف ایک حل ہے اور یہ کہ نہ صرف فلور کراسنگ کا قانون سختی سے نافذ کیا جائے بلکہ آزاد ارکان کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ حلف اٹھانے کے بعد جس پارٹی میں شامل ہوں گے، باقی ماندہ مدت بھی اسی پارٹی کے ساتھ گزاریں گے اور اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو ان کی رکنیت ختم ہو جائے گی۔

اب ایک مرتبہ پھر قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جا چکی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے 14 ناراض ارکان سندھ ہاؤس میں موجود تھے، انہیں مبینہ طور پر اس حمایت کے صلے میں 20، 20 کروڑ روپے ادا کیے جا رہے ہیں، ان میں سے بیشتر ارکان وہ ہیں جو ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ساتھ شامل رہے ہیں اور انہوں نے 2018 کے عام انتخابات سے ذرا پہلے اپنی سیاسی وابستگی تبدیل کی تھی۔

1989 میں تحریک عدم اعتماد منظور نہ ہو سکی تھی، دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان