مائی اللہ رکھی بنام چیئرمین سینیٹ

جنابِ والا، آج جہاں پارلیمان ہے، وہاں اگر گھوڑوں کی تجارت ہو سکتی ہے تو میری معصوم بکریوں کا کیا قصور ہے؟ انہیں آنے کی اجازت دیجیے اور میرا باڑا مجھے واپس کر دیجیے۔

جس جگہ پارلیمان کی عمارت قائم ہے وہاں ایک زمانے میں ایک گاؤں آباد تھا جس کا نام کٹاریاں تھا (تصویر: سہیل اختر)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے نیچے کلک کریں

 

صاحب بہادر چیئرمین سینیٹ، یہ میں ہوں، مائی اللہ رکھی۔ عالم بالا سے آپ کو خط لکھی رہی ہوں اور آپ کی خیریت نیک مطلوب چاہتی ہوں اور آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ میری بکریوں کا باڑا خالی کرنے کا حکم صادر فرمائیں۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ اللہ رکھی کون ہے، تو پہلے میں آپ کو اپنا تعارف کروا دیتی ہوں۔

چیئرمین صاحب، یہ نوک کنڈی میں آپ کی پیدائش سے کچھ پہلے کی بات ہے۔ یہ ان وقتوں کی کہانی ہے جب ابھی اسلام آباد نہیں بنا تھا۔ یہ جہاں آپ کی پارلیمان کی عمارت قائم ہے یہاں ایک زمانے میں میری بکریوں کا باڑا ہوا کرتا تھا اور یہ جس فلور پر آپ کا چیمبر ہے اس کے نیچے میری کدھولی ہوتی تھی۔ جسے آپ ریڈ زون کہتے ہیں یہاں میرا گاؤں تھا۔ اس کا نام کٹاریاں تھا۔ اس گاؤں میں 206 گھر تھے اور اس کی آبادی آپ کی پارلیمان کے اراکین سے بھی کم تھی۔

پُتر چیئرمین، یہ باتیں آپ کو، سی ڈی اے نہیں بتائے گا۔ اس کے بابوؤں نے تو ہمارے سارے نشان ہی مٹا دیے۔ ہاں کبھی وقت ملے تو آپ پارلیمان سے نکلو تو پی ٹی وی کے عین سامنے کچھ قبریں آپ کو ملیں گی۔ چند قبریں وزارت خارجہ کی عمارت کے پچھلے حصے میں بھی ہیں۔ یہ ان وقتوں کی قبریں ہیں جب پارلیمان سے وزارت خارجہ تک ریڈ زون نہیں، بلکہ میرا گاؤں کٹاریاں تھا۔

اب تو سنا ہے آپ لوگوں کو اس طرف آنے ہی نہیں دیتے لیکن ان زمانوں میں ہم اپنے ڈنگر لے کر ندی کے ساتھ ساتھ درہ جنگلاں اور آگے ڈھوک جیون تک چلے جاتے تھے۔ ڈھوک جیون میں میری سہیلی بھاگاں رہتی تھی۔ اس کے والد کے انتقال پر میں آ خری بار ڈھوک جیون گئی تھی۔ اب تو سنا ہے آپ لوگوں نے ڈھوک جیون کا نام بدل کر ای سیون رکھ دیا ہے۔ یہ بھی بھلا کوئی نام ہوا؟

صاحب جی، ویسے یہ ہماری آبادیوں کے نام بدل کر یہ کیسے فضول اور بے تکے نام ان لوگوں نے رکھ لیے۔ حمیداں بہن کے گاؤں بانیاں کو انہوں نے ایف سکس بنا دیا۔ ماسی بلقیس کا بھیکہ سیداں ایف الیون بن چکا ہے۔ میرے گاؤں کٹاریاں کا نام بدل کر جی سکس کر دیا۔ حاجی ظہور کے بامیاں اور مجیدے کے گاؤں روپڑ کو ایف نائن بنا دیا۔ چلو نام تو آپ نے بدل دیے لیکن ڈھوک جیون میں یہ کیا ظلم کر دیا کہ قبرستان پر پارک بنا دیا۔ میری سہیلی بھاگاں کے ابا جی کی قبر کا نشان ہی مٹا دیا۔ سنا ہے پورے قبرستان کی صرف ایک قبر باقی بچی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صاحب جی، میں پرانے وقتوں کی عورت ہوں، معاف کیجیے گا، میری بات لمبی ہو گئی۔ اب تو سنا ہے میرے گاؤں میں جب اکٹھ ہوتا ہے تو آپ سے اجازت لے کر بات کرنا پڑتی ہے۔ آپ یقیناً میرے گاؤں کے جاوید پٹواری اور صغیر لمبردار سے بھی بڑے آدمی ہوں گے۔ اسی لیے تو میں آپ کو یہ خط لکھ رہی ہوں۔

صاحب جی، ایک دن میں بکریوں کو باڑے سے نکال رہی تھی تو ایک بابو قسم کا بندہ آ گیا۔ کیا بھلا سا نام تھا اس کا۔ ہاں یاد آ گیا، منشا یاد۔ اس کے ساتھ دو چار اور لوگ بھی تھے۔ میں نے چائے شائے پوچھی مگر انہوں نے پی نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مجھے کچھ مہینوں ہفتوں میں بکریوں کا باڑا خالی کرنا ہوگا کیونکہ یہاں ایک ایسی عمارت بننے لگی ہے جہاں ملک بھر سے آئے بڑے بڑے لوگوں کی پنچایت ہوا کرے گی۔ پتہ نہیں یہ پنچایتیوں کو میرا بکریوں کا باڑا ہی کیوں پسند آیا لیکن پُتر چیئرمین میں خوش تھی کہ میری بکریوں کے باڑے میں اتنے بڑے لوگ بیٹھا کریں گے۔

صاحب جی، وہ چیتر رت تھی جب ہم نے گاؤں اور میری بکریوں نے باڑا خالی کر دیا۔ صغراں بی بی نے بتایا کہ ٹیمباں، بھیکہ سیداں، چک جابو، روپراں، گدڑ کوٹھا، سب خالی ہو رہے ہیں اوران کی جگہ پر نیا شہر بنے گا۔ میں تو اداس نہیں تھی پر میری بکریاں بڑی اداس تھیں۔ خیر ہم نے گاؤں چھوڑا اور پھر کچھ عرصے بعد دنیا ہی چھوڑ دی۔

صاحب بہادر جی، اب عالمِ بالا سے میں کبھی کبھی دیکھتی ہوں کہ میرے کٹاریاں اور میری بکریوں کے باڑے میں کیا ہو رہا ہے۔ میری بکریاں بے زبان تھیں، ان کے باڑے میں سکون ہوتا تھا۔ ندی کے ساتھ کوئل بولتی تھی۔ صبح میرا ککڑ اذان دیتا تھا، میں تلاوت کرتی تھی۔ مجھے یہاں سے نکال کر اب جو ماحول آپ نے بنا رکھا ہے، کبھی کبھی تو دل کرتا ہے آپ سب کے بیوی بچوں کو جا کر بتاؤں کہ یہ سب بڑے بڑے لوگ پنچایت میں کیسی کیسی گفتگو کرتے ہیں۔ مجھے تو یہاں لاج آ جاتی ہے۔ توبہ توبہ۔

صاحب جی، سنا ہے یہاں ہارس ٹریڈنگ بھی ہوتی ہے۔ میں نے اگلے رو منشا یاد سے پوچھا،’پُتر منشا، یہ ہارس ٹریڈنگ کیا بلا ہے جو میرے باڑے میں ہو رہی ہے؟‘

اس نے بتایا، ’ہارس گھوڑے کو کہتے ہیں اور ٹریڈنگ تجارت کو۔‘

میں یہ سن کر بڑا ہنسی کہ سب نے مل کر اس مائی اللہ رکھی کو چکر دے دیا۔ مجھے باڑے سے نکالا کہ یہاں ملک بھر کی پنچایت بنے گی اور یہاں آپ نے گھوڑوں کی تجارت، وہ کیا کہتے ہیں موئی ہارس ٹریڈنگ شروع کر دی۔

چیئرمین جی، مجھے پتہ ہے آپ میری طرح ’ویہلے‘ نہیں، مصروف آدمی ہیں۔ اس لیے میں اب سادہ سی عرضی پیش کرتی ہوں۔ آپ کی اس پنچایت میں ہوتا تو ہے کچھ نہیں۔ سنا ہے قانون شانون تو آرڈیننس سے بن جاتے ہیں، یا پھر وہی موئی گھوڑوں کی تجارت سے کام چلا لیا جاتا ہے۔ وزیراعظم تین سالوں میں آپ کی سینیٹ میں صرف دو بار آئے ہیں۔ سنا ہے خرچے شرچے بھی بہت بڑھ گئے ہیں اور ایک دن کا خرچ چار کروڑتک جا پہنچا ہے۔

ان حالات کو دیکھتے ہوئے آپ سے درخواست ہے کہ میری بکریوں کا باڑا مجھے واپس کر دیں۔ یہاں گھوڑوں کی تجارت، وہ کیا کہتے ہیں، میں بوڑھی پھر بھول گئی، ہاں ہاں ہارس ٹریڈنگ، تو صاحب جی اگر گھوڑوں کی تجارت ہو سکتی ہے اور وہ ہنہنا سکتے ہیں تو میری معصوم بکریوں کا کیا قصور ہے۔ میری بکریاں تو ہنہناتی بھی نہیں تھیں اور دودھ بھی دیتی ہیں۔ انہیں اب واپس آنے کی اجازت دے دیجیے۔ میرا باڑا مجھے واپس کر دیجیے۔

آپ کی عین نوازش ہو گی۔

العارض

مائی اللہ رکھی، حال مقیم عالم بالا۔


نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ