سٹیٹ بینک ترمیمی بل سینیٹ سے ایک ووٹ سے منظور

حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان بل پر رائے شماری ہوئی تو دونوں طرف سے 43 اراکین نے حق اور مخالفت میں ووٹ دیا، جس پر چیئرمین صادق سنجرانی نے اپنا ووٹ حکومت کے حق میں دے کر منظور کروا لیا۔

چیئرمین صادق سنجرانی کی صدارت میں ہونے والے سینیٹ  اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے بل ایوان میں منظوری کے لیے پیش کیا (تصویر: بشکریہ سینیٹ آف پاکستان آفیشل فیس بک پیج)

پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ نے بھی جمعے کو مرکزی سٹیٹ بینک کے قانون میں ترامیم کا بل حزب اختلاف کے شورشرابے کے باوجود منظور کر لیا۔

حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان بل پر رائے شماری ہوئی تو دونوں طرف سے 43 اراکین نے حق اور مخالفت میں ووٹ دیا، جس پر چیئرمین صادق سنجرانی نے اپنا ووٹ حکومت کے حق میں دے کر منظور کروا لیا۔

چیئرمین صادق سنجرانی کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے بل ایوان میں منظوری کے لیے پیش کیا۔ رائے شماری کے وقت سینیٹ میں قائد حزب اختلاف یوسف رضا گیلانی ایوان میں موجود نہیں تھے۔

اس موقعے پر حزب اختلاف نے اس بل پر بحث کو موخر کرنے کی استدعا کی تھی، جن کا موقف تھا کہ یہ ترامیم آئی ایم ایف کے ایما پر کی جارہی ہیں، لیکن قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم کے اصرار پر اسے آج ہی منظور کرلیا گیا۔

1956 کے اس ایکٹ میں ترمیم کو کمیٹی کو بھیجنے کی اپوزیشن کی درخواست حکومتی بینچوں نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’ٹائم باؤنڈ‘ قانون سازی ہے، لہذا اسے اجلاس میں منظور کیا جائے جس کے بعد چیئرمین نے ووٹنگ کا اہتمام شروع کیا۔

قانون سازی کے بعد اجلاس آئندہ سوموار تک ملتوی کر دیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قومی اسمبلی سے یہ بل پہلے ہی منظور کروایا جا چکا ہے۔ رواں ماہ کے آغاز میں سٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی ایکٹ جب قومی اسمبلی میں پیش ہوا تو اس پر پوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا تھا۔

اس ایکٹ کے مطابق سٹیٹ بینک کا بنیادی مقصد مقامی قیمتوں میں استحکام لانا، ایکسچینج ریٹ پالیسی تشکیل دینا، ملک کے تمام بین الاقوامی ذخائر رکھنا، کرنسی جاری کرنا، مانیٹری پالیسی کا تعین کرنا اور اس پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔

تاہم حکومت پاکستان کے سٹیٹ بینک سے قرضہ لینے پر پابندی ہوگی۔ سٹیٹ بینک کسی حکومتی محکمے یا عوامی ادارے کو براہ راست قرضہ نہیں دے گا، نہ ہی حکومت کی جانب سے داخل کی گئی کسی سرمایہ کاری یا قرضے کی ضمانت لے گا اور حکومت کی جانب سے کوئی سکیورٹی نہیں خریدے گا۔ البتہ جنرل ذخائر کم ہونے کی صورت میں وفاقی حکومت سٹیٹ بینک کو 30 روز کے اندر ضروری کیش ادا کرے گی۔

سٹیٹ بینک ترامیمی بل کا دفاع کرتے ہوئے وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے اس سے قبل انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پروگرام کے پانچ اہداف میں سے یہ نہایت اہم نکتہ ہے۔ ’ہم اب تک مالیاتی نظم و ضبط، ٹیکس کے نظام میں بہتری، توانائی کے نرخوں میں اضافے اور اخراجات میں احتیاط کے حوالے سے کافی کام کرچکے ہیں۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان چھٹے جائزے سے قبل ان پالیسیوں اور اصلاحات پر عمل درآمد لازم ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’ملک کی 74 سالہ تاریخ میں آج تک سٹیٹ بینک کی تعریف ہی نہیں لکھی گئی کہ سٹیٹ بینک کیا ہے اور اس کا کیا کام ہے؟ اس ترمیم کے ذریعے تاریخ میں پہلی بار یہ لکھا گیا کہ سٹیٹ بینک کا کام مقامی قیمتوں میں استحکام لانا ہے۔ یہ بھی لکھا گیا کہ سٹیٹ بینک کے گورنر کی تعلیم و تجربہ کتنا ہونا چاہیے اور انہیں ملازمت پر رکھنے کا طریقہ کار کیا ہوگا۔ نہ صرف گورنر بلکہ ڈپٹی گورنر اور ایگزیکیٹو ڈائریکٹرز کے لیے بھی یہ قواعد واضح کیے گئے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان