کیا سٹیٹ بینک کے قانون میں ترمیم اسے مکمل طور پر خودمختار بنائے گی؟

اس ایکٹ کے مطابق سٹیٹ بینک کا بنیادی مقصد مقامی قیمتوں میں استحکام لانا، ایکسچینج ریٹ پالیسی تشکیل دینا، ملک کے تمام بین الاقوامی ذخائر رکھنا، کرنسی جاری کرنا، مانیٹری پالیسی کا تعین کرنا اور اس پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی ایکٹ 2021 کے سیکشن 46 بی کے مطابق حکومت پاکستان یا اس کے ماتحت کوئی بھی ادارہ سٹیٹ بینک کے ادارتی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرسکے گا (ریڈیو پاکستان)

رواں ہفتے سٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی ایکٹ منی بجٹ 2021 کے ہمراہ قومی اسمبلی میں پیش ہوئی جس پر اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا۔

اس ایکٹ کے مطابق سٹیٹ بینک کا بنیادی مقصد مقامی قیمتوں میں استحکام لانا، ایکسچینج ریٹ پالیسی تشکیل دینا، ملک کے تمام بین الاقوامی ذخائر رکھنا، کرنسی جاری کرنا، مانیٹری پالیسی کا تعین کرنا اور اس پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔

تاہم حکومت پاکستان کے سٹیٹ بینک سے قرضہ لینے پر پابندی ہوگی۔ سٹیٹ بینک کسی حکومتی محکمے یا عوامی ادارے کو براہ راست قرضہ نہیں دے گا، نہ ہی حکومت کی جانب سے داخل کیے گئے کسی سرمایہ کاری یا قرضے کی ضمانت لے گا اور حکومت کی جانب سے کوئی سکیورٹی نہیں خریدے گا۔ البتہ جنرل ذخائر کم ہونے کی صورت میں وفاقی حکومت سٹیٹ بینک کو 30 روز کے اندر ضروری کیش ادا کرے گی۔

سٹیٹ بینک کے 24 دسمبر 2021 تک جمع کردہ مالیاتی اعداد و شمار کے مطابق حکومت پاکستان اب تک سٹیٹ بینک سے 5.3  کھرب روپے کا قرض لے چکی ہے۔ تاہم ترجمان وزرت خزانہ کے مطابق حکومت نے پچھلے دو سالوں میں سٹیٹ بینک سے کوئی قرض نہیں لیا بلکہ مالی سال 21-2020 میں اس نے سٹیٹ بینک 1.5 کھرب روپے واپس کیے ہیں۔

سٹیٹ بینک کے قانون میں ترمیم کی ضرورت کیوں؟

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے بتایا کہ سٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پروگرام کے پانچ اہداف میں سے نہایت اہم نکتہ ہے۔ ’ہم اب تک مالیاتی نظم و ضبط، ٹیکس کے نظام میں بہتری، توانائی کے نرخوں میں اضافہ اور اخراجات میں احتیاط کے حوالے سے کافی کام کرچکے ہیں۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان چھٹے جائزے سے قبل ان پالیسیوں اور اصلاحات پر عمل درامد لازم ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’ملک کی 74 سالہ تاریخ میں آج تک سٹیٹ بینک کی تعریف ہی نہیں لکھی گئی کہ سٹیٹ بینک کیا ہے اور اس کا کیا کام ہے؟ اس ترمیم کے ذریعے تاریخ میں پہلی بار یہ لکھا گیا کہ سٹیٹ بینک کا کام مقامی قیمتوں میں استحکام لانا ہے۔ یہ بھی لکھا گیا کہ سٹیٹ بینک کے گورنر کی تعلیم و تجربہ کتنا ہونا چاہیے اور انہیں ملازمت پر رکھنے کا طریقہ کار کیا ہوگا۔ نہ صرف گورنر بلکہ ڈپٹی گورنر اور ایگزیکیٹو ڈائریکٹرز کے لیے بھی یہ قواعد واضح کیے گئے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہنا کہ حکومت اب سٹیٹ بینک کو حقیقی طور پر خودمختار کرنے جا رہی ہے۔ ’ہم نے اس پر پہلے ہی عملدرامد شروع کردیا تھا۔ ابھی تک ہمیں کسی بھی قسم کے مسائل کا سامنا نہیں ہوا ہے۔ مثال کے طور پر سٹیٹ بینک کی مانیٹری اور ایکسچینج ریٹ پالیسی آج بھی پوری طرح سے خود مختار ہے۔ پچھلے دو سالوں میں دو بار ایکسچینج ریٹ کم ہوا ہے۔ حکومت پاکستان نے یہ خود مختاری جون 2019 میں سٹیٹ بینک کو دے دی تھی اور آج بھی یہی صورت حال ہے۔ ایکسچینج ریٹ اب کسی کی فرمائش یا خواہش کے بجائے طلب اور رسد پر چلتا ہے۔‘

کیا سٹیٹ بینک مکمل طور پر خود مختار ہوگا؟

سٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی ایکٹ 2021 کے سیکشن 46 بی کے مطابق حکومت پاکستان یا اس کے ماتحت کوئی بھی ادارہ سٹیٹ بینک کے ادارتی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرسکے گا۔

ترجمان وزارت خزانہ مزمل اسلم کے مطابق یہ تاثر غلط ہے کہ نیب، ایف آئی اے یا کوئی صوبائی تحقیقاتی ایجنسی، اتھارٹی یا بیورو سٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری کے بغیر بینک کے کسی فرد کے خلاف تحقیقات کا آغاز نہیں کر سکیں گے۔ بدیانتی ثابت ہونے کی صورت میں اس کی تحقیقات کی جاسکتی ہیں۔

مجوزہ قانون کے مطابق پارلیمنٹ کو گورنر سٹیٹ بینک کی جانب سے سالانہ رپورٹ پیش کی جائے گی جس میں بینک کے مقاصد کے حصول، مانٹری پالیسی پر عملدرامد، معیشت کی حالت اور مالیاتی نظام کے حوالے سے بریفنگ دی جائے گی۔ اس کے علاوہ مجلس شوریٰ سٹیٹ بینک کے کسی بھی اعلیٰ عہدیدار کو اس میں شرکت کے لیے طلب کر سکتی ہے۔

ایکٹ کے مطابق سٹیٹ بینک سال میں کم از کم دو بار پارلیمنٹ اور وزارت خزانہ کو قیمتوں کی قدر میں اضافہ، رقم کی فراہمی، کریڈٹ، ادائیگیوں کا توازن اور اقتصادی ترقی پر رپورٹ پیش کرے گا۔  

سٹیٹ بینک کے گورنر، تین ڈپٹی گورنرز اور آٹھ غیر ایگزیکیٹو ڈائریکٹرز کو تین نہیں بلکہ پانچ سال کی مدت کے لیے تعینات کیا جائے گا۔ گورنر اور غیر ایگزیکیٹو ڈائریکٹرز کا انتخاب صدر پاکستان کی جانب سے وفاقی حکومت کی تجویز پر کیا جائے گا۔

ترمیمی ایکٹ کے مطابق وفاقی سیکرٹری خزانہ بورڈ ممبران میں شامل ہوں گے مگر انہیں ووٹ کا اختیار نہیں ہوگا۔ عام طور پر ڈپٹی گورنر کے پاس بورڈ اجلاسوں میں ووٹ کا اختیار نہیں ہو گا لیکن گورنر کی عدم موجودگی میں ڈپٹی گورنر اجلاس کی صدارت کریں گے اور اپنا ووٹ کا حق استعمال کرے گا۔

دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئیر رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر کا کہنا تھا کہ سٹیٹ بینک کی خود مختاری سے پاکستان کی معاشی صورت حال میں بہتری ممکن نہیں۔

انہوں نے کہا: ’سٹیٹ بینک کی مانٹری پالیسی اور وزارت خزانہ کی فسکل پالیسی ترتیب دینے کے لیے دونوں اداروں کا آپس میں قریبی رابطہ بہت ضروری ہے کیوں کہ دونوں کا ہدف پاکستان کی معاشی صورت حال میں استحکام لانا اور مہنگائی کو کم کرنا ہے۔ اس قانون کی وجہ سے سٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کے درمیان کا باہمی تعلق ختم ہوجائے گا اور کوئی کوورڈینیشن نہیں ہوگی۔‘

البتہ ایکٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ سٹیٹ بینک کے گورنر اور وزیر خزانہ کے درمیان قریبی رابطہ قائم ہو تاکہ سٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ سے جڑے اہم معاملات پر فوری تبادلہ خیال کیا جاسکے۔

سابق گورنر محمد زبیر نے سوال اٹھایا: ’سٹیٹ بینک خود مختار ہونے کے بعد پاکستان کی اقتصادی ترقی اور معاشی اہداف سے پوری طرح لاتعلق ہوجائے گا۔ اس صورت میں بننے والی مانٹری پالیسی پاکستان کے حق میں کیسے ہوگی؟‘

ان کا کہنا تھا: ’ہم پہلے بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ سٹیٹ بینک پوری طرح حکومت کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔ سٹیٹ بینک ایک بار خو مختار ہوگیا تو کاغذ پر لکھے ہونے کے باوجود بھی حکومت پاکستان اور پارلیمنٹ کو جواب دہ نہیں ہوگا۔ سٹیٹ بینک اپنی منطق کے مطابق مانٹری پالیسی بنائے گا جو کہ آئی ایم ایف کی خواہشات کے مطابق ہوگی۔ سٹیٹ بینک کے تمام معاملات میں آئی ایم ایف مائیکرو مینج کرے گا جس میں کرنسی نوٹوں کی چھپائی، کمرشل بین کو مسائل بھی ہو سکتے ہیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان