پاکستانی سٹار ہمایوں سعید کی تین سال کے وقفے کے بعد عیدالاضحی پر ماہرہ خان کے ساتھ ریلیز ہونے والی فلم ’لوّ گرو‘ کی کامیاب نمائش جاری ہے۔
ہمایوں تین سال بعد سینیما پر واپسی کو لے کر نروس تھے کیونکہ سبھی انہیں بتا رہے تھے کہ سینیما جانے کا رواج ختم ہو رہا ہے۔
ہمایوں کے مطابق لوگ پوچھ رہے تھے کہ ایسی صورت حال میں وہ اتنی مہنگی فلم کیوں بنا رہے ہیں؟ لیکن عید کے دنوں میں عوام کی پذیرائی حوصلہ افزا رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’90 فیصد افراد کو فلم پسند آ رہی ہے اور ایک دن میں سب سے زیادہ باکس آفس کا ریکارڈ بھی ہم نے قائم کیا ہے، تو یہ سب بہت خوش آئند ہے۔‘
مہنگی فلم ہونے کی وجہ سے ہمایوں تھوڑے ڈرے ہوئے بھی ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’امید ہے عوام کی اس فلم میں دلچسپی برقرار رہے گی، لیکن پھر بھی ڈر لگا رہتا ہے کہ مہنگی فلم ہے۔
’اگرچہ سینیما مالکان کا کہنا ہے کہ تین دن اچھے گئے ہیں تو آگے بھی اچھے جائیں گے۔‘
فلم کے نام کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’لو گرو‘ کے بارے میں کہا گیا کہ اس نام کی پہلے فلم کامیاب نہیں ہوئی تھی، تو یہ نام نہیں رکھیں۔
’اگرچہ یہی بات ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ میں بھی کہی گئی، مگر جب وہ فلم کامیاب ہوئی تو کہا گیا کہ نام ہی کی وجہ سے چلی۔‘
بہرحال فلم میں ہمایوں نے ’لو گرو‘ کے ساتھ ساتھ ’بریک اپ گرو‘ کا کام بھی کیا ہے، جس پر ان کا کہنا تھا ’جو ملا سکتا ہے وہ چھڑا بھی سکتا ہے۔‘
ہمایوں کے مطابق وہ حقیقی زندگی میں بھی لو گرو ہیں اور لوگوں کو مشورے دیتے رہتے ہیں۔
’اگرچہ کم ہی لوگ سنتے ہیں کیونکہ پیار کے معاملات میں لوگ فیصلہ خود ہی کرتے ہیں۔‘
انہوں نے انکشاف کیا کہ چند شوبز جوڑے بھی ان کے مشورے سے بنے ہیں اور ایک، دو اس بات پر بھی پچھتائے ہیں کہ مشورے پر عمل کیوں نہیں کیا، اگرچہ انہوں نے نام نہیں بتایا۔
ماہرہ خان کے ساتھ سینیما پر 10 سال بعد واپسی کے بارے میں انہوں نے بتایا ’ماہرہ خان اب اور بھی زیادہ محنتی ہو گئی ہیں۔
’ان 10 سالوں میں کنیکشن نہیں ٹوٹا اور فلم کی ریلیز کے بعد معلوم ہو گیا کہ عوام کو کیمسٹری پسند آ گئی ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ہے۔‘
چارمنگ ہیرو کی شخصیت برقرار رکھنے کے سوال پر ان کا کہنا تھا ’زندگی میں سکون بہت ضروری ہے، اس کے علاوہ باقی سب خدا کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہ بہت جلد ایک ایکشن فلم بھی کریں گے اور اس میں زیادہ وقت نہیں لگائیں گے، اب انہیں جلدی جلدی فلمیں کرنی ہیں۔
پاکستانی سینیما کی بقا اور ترقی کے بارے میں انہوں نے دہرایا کہ زیادہ سے زیادہ فلمیں بنانے کی ضرورت ہے، خاص کر حکومت وقت جو اقدامات اٹھا رہی ہے، جیسے فلم فنڈ جو فلم سازوں کو فلم بنانے کے لیے دیا جا رہا ہے۔
’حکومت نے فلمی صنعت کو کبھی اتنا سنجیدہ نہیں لیا تھا، یہ بہت بڑا قدم ہے، یہ پہلی بار ہو رہا ہے، اس سے بہت فرق پڑے گا۔‘
’پاکستانی فلمی صنعت کی ترقی میں بڑی رکاوٹ سستے سینیما کی عدم موجودگی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’فلم دیکھنا مہنگا کام ہے، اس لیے کچھ کرنا ہو گا، چاہے موبائل سینیما کے ذریعے ان افراد تک فلم پہنچائی جائے جو اسے نہیں دیکھ سکتے۔‘
انہوں نے کہا کہ پنجاب کی سینیئر وزیر مریم اورنگزیب فلمی صنعت میں بہت دلچسپی لیتی ہیں، وہ کوشش کر رہی ہیں کہ ’لو گرو‘ کو ریلیز کے ایک مہینے بعد کچھ سینیما گھروں سے بات کرکے 300 روپے میں دکھایا جائے۔
انڈیا کی جانب سے پاکستانی مواد پر پابندی کے نتیجے میں ہونے والے نقصان پر ان کا کہنا تھا:
’وقتی نقصان تو ہوتا ہی ہے، یہ ناچاقیاں تو ہوتی ہیں، پھر ختم ہو جاتی ہیں، یہ چلتا رہتا ہے لیکن ضروری ہے کہ اپنے کام پر توجہ مرکوز کی جائے۔‘
’چند سینیما گھر ہیں لیکن پھر بھی فلمیں چل جاتی ہیں، اگر ہم اپنا کام اچھا کریں گے تو ہمیں کسی اور ملک کی ضرورت نہیں ہو گی۔‘
ہمایوں سعید نے کہا کہ ’جب فلمیں چلنا شروع ہوتی ہیں تو کارپوریٹ سیکٹر خود بخود آ جاتا ہے۔
’لوگوں کا خیال تھا کہ سینیما گھر اب کوئی نہیں آتا لیکن ’لو گرو‘ کا اس وقت ٹکٹ ہی نہیں مل رہا۔
’مجھے خود ٹکٹ نہیں مل رہا۔ مجھے پاکستانی عوام پر بھروسہ ہے، وہ انٹرٹینمنٹ کے بھوکے ہیں، وہ اچھی فلم دیکھنے ضرور آتے ہیں۔‘
اپنے ڈرامے ’منٹو نہیں ہوں‘ کے بارے میں، جس کے حوالے سے اطلاعات ہیں کہ یہ پاکستانی تاریخ کا سب سے مہنگا ڈراما ہے اور اس کا بجٹ 15 کروڑ روپے سے اوپر جا چکا ہے، ہمایوں نے بتایا کہ یہ ڈراما بالکل فلم کی طرح عکس بند کیا گیا۔
’اس میں تین خاندان ہیں، بہت بڑی کاسٹ ہے، اس لیے اس ڈرامے کو بنانے کے لیے یہ کرنا ضروری تھا۔‘