لالی وڈ کی ایک بھرپور ایکشن فلم ’گھر کب آؤ گے‘ کوئی 25 سال پہلے ریلیز ہوئی تھی۔ ڈائیلاگز، گیتوں اور ہدایات میں بالترتیب خلیل الرحمن قمر، قتیل شفائی اور اقبال کاشمیری کا ہاتھ تھا۔
کارگل جنگ کے تناظر میں بنائی گئی فلم نے ریلیز پر دھوم مچا دی تھی۔ گو کہ کاسٹ میں وہی روایتی شان، صائمہ، ثنا، بابر علی، میرا اور جاوید شیخ شامل تھے، مگر اس فلم میں فوجی کے کردار میں اداکاروں کی نہ بھلانے والی پرفارمنس نے نوجوانوں میں فوجی جذبے کے ساتھ ساتھ فوج میں داخلے کے رجحان کو بھی تقویت دی تھی۔
مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ جب ابھینندن کا جہاز کریش ہوا تھا، تو اس کے چند ہی دنوں بعد پاکستان ایئر فورس کی فلم ’شیر دل‘ سنیما میں لگ گئی تھی اور پاکستانیوں نے ’پرواز ہے جنون‘ کی طرح اس فلم کو بڑے پردے پر دیکھ کر پذیرائی دی تھی۔
انڈین پائلٹ آزاد کشمیر میں گرا تھا، اسے فوج نے عوام سے بچا کر اپنے پاس رکھا، اچھی سی چائے پلائی اور خیر سگالی کے جذبے کے تحت کچھ گھنٹوں بعد واپس بھیج دیا، مگر اس کے بعد اتنی اچھی کہانی کو شاید اہم نہ سمجھا گیا۔ کووڈ-19 اور لڑکھڑاتی فلم انڈسٹری کی وجہ سے ہم نے تو اچھا سبجیکٹ ضائع کر دیا، مگر حال ہی میں ایک انڈین فلم سے پتہ چلا کہ کہانی تو اصل وہ تھی جو انہوں نے پیش کی۔
ان کی فلم کے مطابق، پائلٹ کو تو ان کی ایئر فورس چھڑا کر لے گئی تھی، جیسے پاکستان نہ ہوا، 70 کی دہائی کا ویت نام ہو گیا۔ جھوٹی کہانی کو فلمی تڑکے کے ساتھ پیش کر کے پاکستان کی ایک تاریخی فتح کو تاریکی میں ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ تب سے یہ آرزو ہی رہی کہ پاکستان سے بھی ایک منہ توڑ جواب آئے اور اسی آسرے میں ایک اور کامیابی ہاتھ سے نکل گئی، جب مئی 2025 میں ناقابلِ تسخیر رافیل جہازوں کو مار گرانے کے ساتھ ساتھ اور بہت کچھ تباہ کیا گیا۔
پاکستان کی ایئر فورس شاید نہ ہوتی تو 1965 میں جنگ کا نتیجہ کچھ اور ہو سکتا تھا۔ یکم ستمبر سے سرحدوں کا کامیاب دفاع ہی دشمن کے ارمانوں کو ٹھنڈا کر چکا تھا۔ نور خان، سیسل چوہدری، ایم ایم عالم، سرفراز فریقی، ستار علوی، میرون مڈل کوٹ نے اپنی بہادری سے دشمن کے ارادے پورے نہ ہونے دیے۔
پاکستان ایئر فورس کے پاس ہیروز ہیں، کہانیاں ہیں، تکنیکی صلاحیت ہے، تو پھر ’شاہینوں‘ کی کامیابیوں پر کوئی فلم کیوں نہیں بن سکی؟ سوائے 2018/2019 میں ریلیز ہونے والی دو فلموں کے، ایئر فورس نے پاکستان فلم انڈسٹری کی کبھی خدمات حاصل نہ کیں۔ بری فوج کو تو ڈراموں، فلموں میں وطن عزیز کے لیے لڑتے دکھایا گیا ہے، نشانِ حیدر کے نام سے ٹی وی سیریز پیش کی گئی ہے، یہاں تک کہ بحریہ پر بھی ’آپریشن دوارکا‘ اور ’غازی‘ جیسے ڈرامے بن چکے ہیں، لیکن یہ پی اے ایف، جس کے جوانوں نے ’بُنیان مرصوص‘ میں دشمن کے ٹھکانوں پر حملے کیے اور بنا کسی خراش کے واپس آئے، کسی خراجِ تحسین سے کیوں دور ہے؟
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے فلم کے سینiئر لوگوں سے بات کی، جس سے کہانی کچھ کچھ سمجھ آتی ہے۔ پاکستان فلموں کی جان اور مایہ ناز ہدایتکار، اور انقلابی سوچ کے حامل ڈائیلاگ رائٹر ریاض شاہد کے صاحبزادے شان سے بات کی، تو انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ایسی فلمیں بنانا چاہئیں، جن میں ہیرو کسی سچی کہانی کا پائلٹ ہو۔ شان، جو ’ضرار‘، ’یلغار‘ اور ’وار‘ جیسی فلموں میں فوجی افسر کا کردار احسن طریقے سے ادا کر چکے ہیں، ٹام کروز کی مثال پیش کرتے ہیں، جن کی بڑھتی عمر کو بالائے طاق رکھ کر ’ٹاپ گن‘ کا سیکوئل بنایا گیا۔
شان نے معروف ہدایتکار، اداکار کلنٹ ایسٹ ووڈ کی مثال دی، جنہوں نے 52 سال کی عمر میں ’فائر فاکس‘ جیسی فلم بنائی۔ اس فلم کے ہیرو بھی وہ تھے اور پروڈیوسر بھی۔ سوویت یونین سے مگ 31 چرا کر امریکہ کا تن تنہا لانے کا آئیڈیا، ایک اصل واقعے سے ہی لیا گیا تھا۔
شان کے مطابق، پاکستان میں ایسی کہانیاں ہیں جن پر فلم بن سکتی ہے، مگر بھاری لاگت کے باعث لوگ ’لو اسٹوری‘ پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں۔ ایئر فورس کے حوالے سے کسی پرانی جنگ یا انڈیا سے بھاگے قیدی کی کہانی بھی تخلیق کی جا سکتی ہے، مگر یہاں مسئلہ دوسرا ہے۔ فلم کی کہانی ہاتھ لگتے ہی اربابِ اختیار من پسند ٹی وی چینل کو پروجیکٹ میں گھسیٹ لیتے ہیں، جو اپنے ہی ڈرامے لکھنے والوں، بنانے والوں کے ساتھ، اپنے کنٹرول میں رہنے والی کاسٹ کو لے کر، فلم کے نام پر ایک ٹی وی ڈرامہ بنا دیتے ہیں۔ اس پروڈکٹ کا مقصد حب الوطنی کا جذبہ اجاگر کرنے سے زیادہ پیسہ بنانا بن جاتا ہے، جس میں جذباتی وابستگی کے لیے کسی کا شہید ہونا تو لازمی بن جاتا ہے۔
ٹی وی کمرشلز اور فلم کے معروف ڈائریکٹر سعید رضوی کے خیال میں ایسی فلم بنانے میں سرمایہ اہم ہوتا ہے اور اس پیمانے پر خرچہ پرائیویٹ پروڈیوسر کے بس کی بات نہیں۔ فلم بنانے کے لیے فورسز میں قائم اداروں سے مدد کے حوالے سے دو ہزار سے زائد کمرشلز بنانے والے ڈائریکٹر کی یادیں کچھ اچھی نہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے سعید رضوی نے بتایا کہ 1978 میں انہوں نے فوج کے لیے ایک دو منٹ کا اشتہار بنایا تھا، اس اشتہار کی تیاری میں کافی مزہ آیا تھا، پاکستان کی تمام چھاؤنیوں میں جا کر ایک ماہ کے عرصے میں ہم نے شوٹ کی تھی۔ جب انہیں اسی طرز پر ایک فلم بنانے کے لیے جی ایچ کیو مدعو کیا گیا تو آئیڈیل کہانی کی تلاش میں ہی سارا وقت نکال دیا گیا۔ ان کے خیال میں فوج پر بننے والی فلم جنگی ماحول کی ہی ہونی چاہیے، اس میں پیار محبت اور ملتے جلتے جذبات شامل کر کے فلم کا حشر نشر ہو سکتا ہے۔
گلوکار و اداکار خالد انعم کے مطابق، ایسا لگتا ہے جیسے ایئر فورس، فلم یا ڈراما بنانے کے لیے ترجیحات میں سب سے آخری نمبر پر ہے۔ بری اور بحری فوج کے لیے تو اجازت وغیرہ مل جاتی ہے، مگر ایئر فورس میں ابھی نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ نشانِ حیدر سیریز کے 1985 کے مشہورِ زمانہ ڈرامے ’راشد منہاس‘ کے لیے ڈائریکٹر شہزاد خلیل کو بھی اجازتوں کا پہاڑ چڑھنا پڑا تھا۔ ’آپ کے پاس ایئر فورس میں تو ہیروز کی ایک لائن لگی پڑی ہے، فلم تو کیا، یہ پوری سیریز بن سکتی ہے، اگر چاہیں تو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان ایئر فورس کے کھاتے میں گزشتہ 60 سالوں میں کافی بڑی کامیابیاں ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے دو عظیم الشان اداکار، دراز قد محمد علی اور امیتابھ بچن، فلم جوائن کرنے سے پہلے فائٹر پائلٹ بننے کی خواہش رکھتے تھے، مگر کبھی انہیں فلم میں آنے کے بعد اس سے ملتا جلتا چھوٹا موٹا کردار کرنے کا بھی موقع نہ مل سکا۔
پاکستان میں 1969 میں ایئر فورس پر پہلی فلم ’قسم اس وقت کی‘ بنائی گئی تھی، جس میں ہیرو طارق عزیز اور ہیروئن شبنم تھیں۔ حقیقت سے قریب فلم بنانے کے چکر میں ڈائریکٹر اجے کاردار نے ایک سیمی آرٹ فلم بنائی۔ کرداروں پر نہ ہونے کے برابر میک اپ اور سیٹ کے بجائے لوکیشن پر کام کی وجہ سے فلم کو وہ پذیرائی نہ ملی جو ملنی چاہیے تھی۔
اسی فلم کے ساتھ انڈیا میں راجیش کھنہ اور شرمیلا ٹیگور کی فلم ’آرادھنا‘ ریلیز ہوئی تھی، جس میں راجیش کھنہ کا ڈبل رول تھا، اور دونوں فائٹر پائلٹ کے کردار تھے۔ 1970 سے 2018 تک پاکستان میں تو پی اے ایف کو ذہن میں رکھ کر کوئی قابلِ ذکر فلم نہیں بنائی گئی، مگر انڈیا میں راج کمار سے لے کر رشی کپور، جیکی شروف، اکشے کمار، اجے دیوگن، شاہ رخ خان، شاہد کپور اور ریتک روشن تک بیشتر اداکاروں نے کسی نہ کسی فلم میں لڑاکا جہاز اُڑانے کا شرف حاصل کیا۔ چاہے وہ 1973 کی ’ہندوستان کی قسم‘ ہو، ’راہی بدل گئے‘، ’موسم‘، ’سکائی فورس‘، ’ویر زارا‘ یا پھر ’بھج‘۔
پاکستانی نژاد کینیڈین فلم ڈائریکٹر رافع راشدی، جو بقر عید پر اپنی نئی ہارر فلم ’دیمک‘ کی ریلیز کی تیاریوں میں مصروف ہیں، الگ خیال رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان میں ایسی فلمیں بن سکتی ہیں اور بنانے کا ماحول بھی ہے۔
’شیردل‘ اور ’پرواز ہے جنون‘ کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اچھے ڈائریکٹر اور رائٹر کے ساتھ ایسی فلمیں بن سکتی ہیں۔ جو سپورٹ چاہیے، اگر وہ دی جائے تو انڈیا جیسی فلم بنانا کوئی مشکل کام نہیں۔ ’جذبۂ حب الوطنی‘ کے موضوع پر تو ویسے بھی ہمیں کہا جاتا ہے فلمیں بناؤ، مگر یہاں مسئلہ فلم انڈسٹری کی اپنی بقا کا ہے، جہاں سال میں فلموں کی تعداد ہی کافی کم ہے۔ انڈسٹری ہو گی تو کام ہو گا۔
پاکستان میں ایسی فلموں کے شدید فقدان کی ایک بڑی وجہ، فلموں کا نہ بننا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ انڈیا کی طرز پر فلمیں بنائی جائیں مگر سچ کے ساتھ اور اپنی کامیابیوں کو ذہن میں رکھ کر۔ چاہے اس کے لیے پالیسیوں میں تبدیلی لائی جائے یا سوچ میں، مگر ایسا بالکل ہو سکتا ہے کہ فلمی ہیروز کو اپنے ہیروز کی شکل میں دیکھ کر، لوگوں کی سنیما گھروں میں واپسی ہو جائے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔