پاکستان نے جمعے کو انڈین میڈیا پر چلنے والی ایسی تمام رپورٹس کی تردید کر دی ہے، جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستانی نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے یہ کہا ہے کہ ہمسایہ ملک کے ساتھ مئی میں جنگ بندی کی درخواست اسلام آباد نے کی تھی۔
اسلام آباد میں پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ ’ہم ان دعوؤں کو واضح طور پر مسترد کرتے ہیں کہ پاکستان نے انڈین جارحیت کے بعد جنگ بندی کی کوشش کی تھی۔‘
پاکستان اور انڈیا کے درمیان مئی میں ہونے والی چار روزہ جنگ کو ختم کروانے کا سہرا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے سر لیتے ہیں، جس کی تصدیق پاکستان بھی کرتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے 10 مئی کو سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کے ذریعے دونوں روایتی حریفوں کے درمیان جاری جنگ بند کروانے کا اعلان کیا تھا۔
انڈین میڈیا پر اس سلسلے میں کئی ایسی رپورٹس سامے آ چکی ہیں، جن میں کہا گیا کہ جنگ بندی کی ’درخواست‘ پاکستان کی جانب سے کی گئی اور اس میں امریکی صدر ٹرمپ کا کوئی کردار نہیں۔
رواں ہفتے 18 جون کو بھی انڈیا کے سیکرٹری خارجہ وکرم مسری نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ ’فوجی کارروائی روکنے کے لیے بات چیت انڈیا اور پاکستان کے درمیان براہ راست موجودہ فوجی چینلز کے ذریعے ہوئی، اور پاکستان کے اصرار پر۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈیا کے ان بیانات کے ردعمل میں پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا کہ ’نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے اپنے میڈیا انٹرویوز اور بیانات میں وضاحت کی ہے کہ پاکستان نے اپنے دفاع کے حق کے استعمال میں انڈین جارحیت کا فیصلہ کن جواب دیا۔‘
مزید کہا گیا کہ ’دوست ممالک بشمول سعودی عرب اور خاص طور پر امریکہ نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی کو آسان بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔‘
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’واقعات کی ترتیب واضح طور پر ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان نے جنگ بندی شروع نہیں کی اور نہ ہی کسی سے جنگ بندی کی درخواست کی بلکہ اس پر رضامندی ظاہر کی، جب 10 مئی 2025 کی صبح آٹھ بجکر 15 منٹ کے قریب امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار کو فون کیا اور بتایا کہ اگر پاکستان رضامند ہے تو انڈیا جنگ بندی کے لیے تیار ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’نائب وزیراعظم نے پاکستان کی قبولیت کی تصدیق کی اور بعد میں صبح نو بجے کے قریب سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل نے بھی نائب وزیراعظم کو فون کیا اور انڈیا کے بارے میں یہی بتایا اور وہی تصدیق مانگی جو سکریٹری آف سٹیٹ مارکو روبیو نے پہلے مانگی تھی۔‘
انڈیا نے 22 اپریل کو اپنے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے کا الزام اسلام آباد پر عائد کرتے ہوئے چھ اور سات مئی کی درمیانی شب پاکستان کے مختلف مقامات پر حملے کیے تھے۔
پاکستان پہلگام حملے میں ملوث ہونے کے انڈین الزام کی تردید کرتا ہے۔
پاکستان میں انڈیا کے حملوں کے بعد، دونوں فریقوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس کے بعد ایک دوسرے کے علاقوں میں میزائل اور ڈرون حملے کیے گئے، جن میں بنیادی طور پر فوجی تنصیبات اور ایئر بیسز کو نشانہ بنایا گیا جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ انڈیا کے تین فرانسیسی رفال لڑاکا طیاروں سمیت چھ جنگی طیارے مار گرائے گئے۔
جوہری ہتھیاروں سے لیس حریفوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے علاقائی امن کو خطرے میں ڈال دیا، جس کے نتیجے میں عالمی رہنماؤں نے دونوں کو تحمل سے کام کرنے کی اپیل کی اور بالآخر 10 مئی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اعلان کیا کہ پاکستان اور انڈیا فوری طور پر سیزفائر پر راضی ہوگئے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ اس کے بعد متعدد بیانات میں یہ کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے دونوں روایتی حریفوں میں سیز فائر کے لیے تجارت کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔
تاہم انڈیا ڈونلڈ ٹرمپ کے ان دعوؤں کی تردید کرتا آیا ہے۔
ایک طرف جہاں انڈیا سیز فائر میں امریکی صدر کی کسی بھی قسم کی ثالثی اور تجارت پر بات چیت کے دعوؤں سے انکار کر رہا ہے، وہیں پاکستانی دفتر خارجہ یہ کہہ چکا ہے کہ ’انڈیا سے جنگ بندی کئی دوست ممالک کی کوششوں کے نتیجے میں ممکن ہوئی، جنہوں نے ہم سے رابطہ کر کے کشیدگی کم کرنے کا پیغام پہنچایا۔‘
وزیراعظم شہباز شریف بھی متعدد مواقعوں پر امریکی، سعودی عرب، ترکی، آذربائیجان، قطر اور چین سمیت دیگر دوست ممالک کا شکریہ ادا کر چکے ہیں۔