آصف زرداری کا اصطبل اور نسلی گھوڑے

کتنی ہی حکومتیں آئیں گئیں، فوجی آمر بھی اقتدار پہ قبضہ کرکے نکالے گئے، مگر آصف زرداری کے اصطبل میں شہد کھاتے گھوڑے آج تک پکڑے نہیں جا سکے۔

سابق وزیرِ اعظم بےنظیر بھٹو 28 جولائی 1998 کو  اپنے خاوند آصف زرداری کے ساتھ لاہور ہائی کورٹ میں پیشی کے موقعے پر (اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کریں

 

یہ 1997 کی اسمبلی تھی، نواز شریف واضح اکثریت سے وزیراعظم بنے تھے، اور بےنظیر بھٹو، جن کی حکومت کرپشن اور بدانتظامی کے الزامات کے باعث گئی تھی، وہ اس اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تھیں۔

اپنی تقریر میں مس بھٹو نے الیکشن جتنے والی ن لیگ پر یہ طنز کیا کہ 95 فیصداکثریت تو کبھی قائداعظم کو نہیں ملی، مگر نواز شریف کو مل گئی۔ بے نظیر نے ان عناصر کے لتے لیے جو پارلیمانی نظام کو ناکام ثابت کرنے کے لیے سیاست دانوں کے خلاف جھوٹے پروپیگینڈا کر کے انہیں بدنام کرتے ہیں۔ پھر انہوں نے الزام لگانے والوں کو چیلنج دیا:

’وہ گھوڑا لے آؤ جو دودھ پیتا ہے، جو شہد کھاتا ہے، وہ گھوڑا لے آؤ جو مارملیڈ کھاتا ہے، اور بتاؤ کیا سیاست دان برے ہیں یا سیاست دانوں کی کردار کشی؟‘

 اشارہ آصف زرداری کے مشہور اصطبل کی جانب تھا جس پہ الزام تھا کہ اس کے گھوڑے شہد چاٹتے ہیں، مربے، میوے کھاتے ہیں، دودھ پیتے ہیں۔

بےنظیر کا 97 میں دیا گیا وہ چیلنج آج 25 برس کے بعد بھی کوئی پورا نہیں کر سکا۔ کتنی ہی حکومتیں آئیں گئیں، فوجی آمر بھی اقتدار پہ قبضہ کرکے نکالے گئے، مگر آصف زرداری کے اصطبل میں شہد کھاتے گھوڑے آج تک پکڑے نہیں جا سکے۔

زرداری صاحب کو گھوڑے پالنا کیوں پسند ہیں اس کی کئی وجوہات ہیں۔ گھوڑا ایک چست و چالاک جانور ہے، ہانکنے کی دیر ہے کہ سرپٹ دوڑتا ہے۔ پل بھر میں یہاں تو دوجے لمحے وہاں۔ اس سے پہلے کہ گھوڑا پکڑ میں آئے وہ پارٹی بدل سکتا ہے۔

گھوڑا نسلی ہی اصلی ہوتا ہے باقی گھوڑے دراصل گھوڑے نہیں میک اپ زدہ زیبرے اور گدھے ہوتے ہیں۔ گھوڑوں کی نسل کو پہچاننا بھی ہر کسی کے بس کا کام نہیں، مجھ سمیت عوام کی اکثریت نے تو بس پارکوں اورساحل سمندر پہ نقلی پھولوں سے سجے نحیف و نزار گدھے نما گھوڑے ہی دیکھے ہیں۔

جو شوقین ہیں وہ جانتے ہیں کہ نسلی گھوڑوں کی پہچان کیسے کی جائے۔ آصف زداری جب نوجوان اور کھلنڈرے ہوا کرتے تھے یہ تب سے گھڑ سوار رہے ہیں۔ لمبی ریس میں کون دوڑے گا ان سے بہتر کون سمجھے۔

رہی بات اس حقیقت کی کہ گھوڑے صرف آصف زرادری کے پاس ہی نہیں، گھڑ سواری اور پولو کے شوقین اور بھی ہیں تو نادان اس نزاکت کوسمجھیں کہ زیادہ گھوڑے ہونا جیت کی گارنٹی نہیں بلکہ گھوڑے کا تگڑا اور اڑیل ہونا اہم ہے، کون سا گھوڑا ریس کے آخر تک مالک کا چابک سہہ پاتا ہے، لگام کے اشارے سمجھتا ہے، یہ اہم ہے۔

گھوڑے میں اپنی ہزار خوبیاں سہی مگر اصطبل کے مالک کی تربیت بھی بڑا اثر رکھتی ہے۔ مالک نے گھوڑا کیسے سدھایا ہے اس کا پتا میدان میں چلتا ہے ورنہ اصطبل کے جنگلے میں کھڑے گھوڑے کو تو کوئی بھی گھاس دکھا کر بہلا پھسلا اور چمکار سکتا ہے۔

تجربہ کار مالک گھوڑے کو دوڑنا نہیں رُکنا سکھاتے ہیں، دوڑ تو گھوڑا خود لیتا ہے۔ ایڑی کہاں مارنی ہے اور جست کب لگانی ہے نسلی گھوڑے یہ کلیہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے۔ ہاں وہ گھوڑے بیش قیمت ہو جاتے ہیں جو مالک سے یہ گُر سیکھ لیں کہ کس سوار کو کب دوڑانا ہے اور کب گرانا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گھوڑے میں کتے والی خو نہیں ہوتی کہ جس مالک پہ دل آ گیا سو اسی کے در پہ تادم مرگ پڑا رہے گا اور مالک کے سوا سب پہ بھونکے گا۔ دوڑنا گھوڑ ے کی سرشت ہے اور اسی پروفیشنل رویے کی وجہ سے اس کی تجارت قدیم زمانوں سے رائج رہی۔ گھوڑوں کا بیوپار یعنی ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح کا سیاست میں استعمال ہونا اپنے اندر کئی کہانیاں لیے ہوئے ہے۔

ایک کہانی یہ ہے کہ گئے وقتوں میں جب جنگیں اور یلغار ہونا معمول تھا ایسے میں ہر وقت اپنی فوجوں کو تیار رکھنا ایک بڑا مسئلہ تھا۔ فوجی کمان تو جیسے تیسے شاہی فرمان سے بن جاتی تھی مگر عین ضرورت کے وقت اتنے گھوڑے کہاں سے آتے۔ یوں ریاستیں مشکل وقت میں ہر اس مالدار شخص سے ہارس ٹریڈنگ کرتیں جن کے پاس بڑی تعداد میں نسلی گھوڑے ہوتے۔ مالکان کو محل تک رسائی اور عہدے ملتےاور فوج کو سواری مل جاتی۔

تاریخ دان لکھتے ہیں کہ سیاست میں اس ہارس ٹریڈنگ کا اثر یہ ہوا کہ گھوڑوں کے مالکان ضرورت کے وقت منہ مانگے دام لگاتے، مرضی کے فیصلے منواتے اور طلب پوری نہ ہونے پر وفاداری بھی بدل جاتے۔

اب ریاست، بادشاہ اور جنگوں کی طرح ہارس ٹریڈنگ کا تصور بدل گیا ہے مگر یہ حقیقتیں اب بھی موجود ہیں۔

پاکستان کی سیاست کے بازار میں پارٹی اور وفاداری بدلتے گھوڑوں کا بازار لگنا کوئی آج کا چلن نہیں۔ اسے اچھا کہیں یا برا مگر یہ ہماری سیاست کا ایک رنگ ہے جس کے سائیڈ ایفیکٹس میں مفاد کی سیاست، دھوکہ دہی، بلیک میلنگ، بدنیتی اور بولی لگوانا وغیرہ شامل ہیں۔

جو قیمت لگا دے وہی ان کا مالک اور اسی کے اشارے پہ یہ گھوڑے حکومت بنانے اور گرانے کے کام آتے ہیں۔ امریکہ میں تو قانون پاس کرانے کے لیے بھی لابی انگ، ڈیلنگ اور ہارس ٹریڈنگ عملاً ہوتی رہی۔

تاریخ دان لکھتے ہیں ابراہام لنکن کو اینٹی سلیوری یعنی غلام رکھنے کے خلاف 13ویں آئینی ترمیم کانگریس سے پاس کرانے کے لیے ہارس ٹریڈنگ کا سہارا لینا پڑا تھا۔

سیاسی گھوڑوں کے بیوپار کو سیاسی مصلحت پسندی، دوراندیشی، ووٹ ٹریڈنگ، ڈیل میکنگ، ڈی فیکشن انجینیئرنگ، پولیٹیکل انجینیئرنگ، پاور بروکرنگ جیسے نام دیے گئے مگر کام وہی رہا۔

آج کل تخت اسلام آباد کی ریس میں گھوڑے پھر متحرک ہیں، بس فرق اتنا ہے کہ اب کی بار میدان میں صرف گھوڑوں کی دوڑ کے گھڑ سوار اور پولو کے کھلاڑی ہی نہیں کرکٹ کا کپتان بھی مقابلے پر ہے۔ جس فریق کو جیتنے والا گھوڑا ملا تو کوڑا بھی مل جائے گا۔


نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر