ڈی چوک سے ڈی چوک تک

ڈی چوک سے شروع ہونے والا کھیل واپس ڈی چوک پہنچ چکا ہے۔ کہانی وہی ہے، کردار بدل گئے ہیں۔ کسے خبر کہانی کا انجام بھی ویسا ہی ہوتا ہے یا مختلف۔

26 ستمبر 2014 کو عمران خان  اسلام آباد میں اس وقت کی حکومت کے خلاف  پی ٹی آئی کے دھرنے میں (اے ایف پی)

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

 

ڈی چوک سے شروع ہونے والا کھیل واپس ڈی چوک پہنچ چکا ہے۔ کہانی وہی ہے، کردار بدل گئے ہیں۔ کسے خبر کہانی کا انجام بھی ویسا ہی ہوتا ہے یا مختلف۔

مکافات عمل دنیا کی بہت بڑی حقیقت ہے، یہ تو مگر مکافات عمل کا ایک سونامی ہے جس نے پاکستان تحریک انصاف کا گھر دیکھ لیا ہے۔

اندوہ عشق میں تحریک انصاف نے جتنے غمزے عشوے دکھائے تھے ڈی چوک کی بزمِ تمنا میں سب لوٹ آئے ہیں۔

ہر وہ فرد جرم جو اس نے دوسروں پر عائد کی تھی، آج اس کے اپنے دامنِ سیماب سے لپٹی پڑی ہے۔ باز گشت کی طرح ایک ایک الزام پلٹ کر آرہا ہے۔

ہر دعویٰ خزاں کے پتے کی طرح پامال ہوا۔ تبدیلی کیا کھلی، امید کے سارے پیرہن ہی چاک ہو گئے۔

کہاں وہ دن کہ تبدیلی صبح روشن کی طرح دہکتی تھی، کہاں یہ شام کہ اب مارگلہ کا حزن اقتدار کے ایوانوں میں اترا پڑا ہے۔

کہاں وہ التفاتِ ناز کہ روز کوئی وکٹ گرا کرتی تھی اور تحریک انصاف کے پرچم کی خلعت فاخرہ نئے مہمانوں کے گلے میں ڈالی جاتی اور کہاں یہ آشوبِ غم کہ کل کے حق شناس اب فون بھی نہیں سنتے۔ کیا یہی وہ دن ہیں جو اللہ اپنے بندوں کے درمیان پھیرتا رہتا ہے؟

یہ دائروں کا سفر ہے، کٹتا ہی نہیں۔ اس کے آخر پر کوئی منزل نہیں۔ ان مسافتوں کا حاصل صرف دھول ہے۔

کسی کے لیے یہ حصول اقتدار کی مہم ہو سکتی ہے اور کسی کے لیے انا کا معرکہ۔ سوال مگر یہ ہے کہ اس سارے عمل میں ایک عام آدمی کے لیے کیا رکھا ہے؟

کسی کو اقتدار سے الگ کر دینا یا کسی کو اقتدار سے الگ ہوتے دیکھنا انا کی تسکین بھی ہو سکتا ہے اور طرز حکومت کے ستائے لوگوں کا کتھارسس بھی۔

لیکن کیا اس عمل میں ملک اور معاشرے کے لیے کوئی خیر بھی برآمد ہو سکتا ہے؟ کسی کے پاس وقت ہو تو اسے سوچنا چاہیے کہ آوے ای آوے اور جاوے کے اس کھیل میں اس سماج کو، اس ملک کو اور ااس سیاست کو کیا ملا؟ کون کمزور ہوا اور کون طاقت ور؟

یہ سماج  اپنے موسموں کا اسیر ہے۔ ایک موسم جاتا ہے اور دوسرا آتا ہے۔ نہ موسموں میں ٹھہراؤ ہے نہ ہمارے مزاج میں۔

جاتے جاڑے کے ساتھ حکمران بھی نہ چلا جائے تو ہمیں لطف نہیں آتا۔ چنانچہ حکومت کسی کی بھی ہو اگر وہ جمہوری ہے تو پھر اس کو امان نہیں۔

ہرکارے منادی دیتے پھرتے ہیں کہ مارچ میں مارچ ہو گا اور ستمبر ستم گر ہوگا۔حکومت بنتی بعد میں ہے، اس کے جانے کی تاریخیں پہلے دینا شروع کر دی جاتی ہیں۔

 جب بھی یہ کھیل کروٹ بدلتا ہے، ہرکارے رواں تبصرہ شروع کر دیتے ہیں۔ کوئی سیانا یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ کس کے پاس کتنے ووٹ ہیں تو کوئی اندر کی خبر لا رہا ہوتا ہے کہ کون کس کو ووٹ دے گا۔

ایران توران کی خبریں لاتے لاتے تجزیہ کاروں کی چشم ناز میں حلقے پڑ جاتے ہیں لیکن وہ یہ مصرعہ نہیں اٹھاتے کہ اس کھیل کا انجام کیا ہو گا؟

  فرض کریں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے، کیا ہم جان سکتے ہیں اس کے بعد کون سا رشک ِچمن حکومت سنبھالے گا؟ کیا کسی حرف و سخن میں یہ مضمون بھی ملے گا کہ عمران کے بعد کیا ہو گا؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیاسی اشرافیہ ہی بیٹنگ کے بعد بولنگ اور بولنگ کے بعد بیٹنگ کرتی رہے گی یا اس کھیل میں کچھ عوام کے لیے بھی ہے؟

کیا اس بات کا کوئی امکان ہے کہ دائروں کا یہ سفر پھر سے شروع نہیں ہوجائے گا؟ دو سال بعد کیا کردار بدل کر یہی کہانی پھر سے نہیں دہرائی جائے گی؟

ہم آخر کب تک محض کتھارسس سے جی بہلاتے رہیں گے؟ کیا کسی کے پاس ملکی مسائل کے حل کے لیے کوئی ٹھوس پروگرام موجود ہے؟

اہل ِ سیاست کے لیے بھی غورو فکر کا سامان موجود ہے اگر وہ اس مشق کے لیے تیار ہوں۔

کیا وجہ ہے کہ مقبول ترین سیاسی رہنما کبھی پھانسی کے پھندے پر جھول جاتے ہیں، کبھی سر راہ قتل کر دیے جاتے ہیں، کبھی ہائی جیکر قرار پاتے ہیں اور کبھی جلاوطنی کاٹتے ہیں تو کبھی عدم اعتماد ان کی دہلیز پر دستک دینے آ جاتی ہے لیکن دوسری طرف چند الیکٹیبلزاور چند مشقتی ہیں جن کا نہ کوئی سیاسی ورثہ ہے نہ عصبیت لیکن وہ ہر دور میں معزز، اہم اور معتبر قرار پاتے ہیں۔

ہر عدم اعتماد اور ہر حکومت سازی کے وقت ہر نظریہ ان کے دربار میں ہاتھ باندھے حاضر ہوتا ہے۔آرزو ہی رہی کہ سخن آزردہ مشاعروں میں کبھی ان پر بھی تو مصرع کہا جائے۔


نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ