یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے نیچے کلک کریں
تو کیا عمران خان نے صنعت کی محبت میں زراعت سے بھی ’یو ٹرن‘ لے لیا ہے؟ لاہور میں انڈسٹریل پیکج کی ایک تقریب میں وزیر اعظم نے غیر ضروری طور پر زراعت پر فرد جرم عائد کی تو مجھے وہ بڑھیا یاد آ گئی جس نے ساری عمر سُوت کاتا اور آخر میں اسے ریزہ ریزہ کر دیا۔
صنعتی ترقی بلاشبہ انتہائی ضروری ہے اور عمران خان کی تازہ صنعتی پالیسی بھی شاندار ہے۔ پلاٹوں اور ہاوسنگ سوسائٹیوں کی معیشت کا رخ اگر وہ انڈسٹری کی طرف موڑنے میں کامیاب ہو گئے تو پاکستان کی تقدیر بدل جائے گی۔ لیکن کیا یہ بھی ضروری تھا کہ صنعت کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے زراعت کو بلاوجہ گھونسا رسید کیا جاتا؟
صنعت کی اہمیت اپنی جگہ لیکن یہ کون سا تقابل ہے کہ ایک زرعی ملک کا وزیر اعظم یہ کہہ رہا ہو کہ (صرف) سبزیوں اور گندم کی برآمدات سے ملک ترقی نہیں کر سکتا؟ پیکا آرڈیننس سے امان ملے تو عرض کروں کہ عالی قدر، آپ کی حکومت نے اس سال کتنے ارب ڈالر کی گندم برآمد کی ہے جو اب آپ فرما رہے ہیں کہ صرف گندم کی برآمد سے ملک ترقی نہیں کر سکتا؟
عالم تو یہ ہے کہ بہترین زمین، شاندار موسم اور بہترین نہری نظام رکھنے والا یہ زرعی ملک اپنی ضرورت کی گندم بھی دوسرے ملکوں سے خرید رہا ہے۔ زراعت میں ہماری بےبسی یہ ہے کہ اس مالی سال کے لیے بیرون ملک سے گندم خریدنے کا ہدف 30 لاکھ ٹن ہے۔ یہ کیسی بےنیازی ہے کہ ایک سال میں30 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے والے ملک کا وزیر اعظم کہہ رہا ہو کہ گندم کی برآمد سے ملک ترقی نہیں کر سکتا؟
گندم کی برآمدات سے بھلے ملک ترقی نہ کرتا ہو لیکن کیا قیمتی زر مبادلہ جھونک کر اربوں ڈالر کی گندم درآمد کرنے سے ترقی حاصل ہوتی ہے؟
ابھی کل کی بات ہے وزیراعظم صاحب خود بتا رہے تھے کہ ہمیں اس موقعے پر روس اس لیے بھی جانا تھا کیونکہ ہمیں روس سے 20 لاکھ ٹن گندم خریدنی ہے۔ گندم تو بےزبان ہے، ورنہ وہ ضرور سوال کرتی کہ عالی جاہ میرے ہونے سے آپ کی ترقی بھلے نہ ہوتی ہو لیکن میرے ہونے سے یہ تو ہوتا کہ آپ کو روس سے20 لاکھ ٹن گندم کی خریداری کے لیے قیمتی اور مشکل سے ادھار لیے لاکھوں ڈالر نہ خرچ کرنے پڑتے۔
عمران حکومت کی چند اچھی چیزوں میں سے ایک، زراعت کے بارے میں عمران خان کی حساسیت تھی۔ وزیراعظم نے جس طرح زراعت سے جڑے امکانات کی بات کی اس کا حاصل ایک خوشگوار حیرت تھی کہ کوئی تو ہے جو دیہی معیشت کو سنجیدہ لے رہا ہے۔ جب لوگ انڈوں، کٹوں، بکریوں اور گائیوں پر ان کا مذاق اڑا رہے تھے اس وقت وہ لوگ ان کا دفاع کر رہے تھے جو زراعت سے وابستہ امکانات اور اس کے حجم سے آ گاہ ہیں۔
پاکستانی معاشرہ محض ٹوئٹر پر ٹرینڈ چلانے اور فیس بک پر سٹیٹس ڈال کر ستاروں پر کمند ڈالنے والوں کا نہیں ہے۔ یہاں پینڈو لوگ بھی رہتے ہیں جو زراعت سے وابستہ ہیں۔ یاد رہے کہ ہمارے کسان ہماری مجموعی قومی ورک فورس کا 43 فیصد ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہماری کل جی ڈی پی کا 11 فیصد تو صرف لائیو سٹاک سے جڑا ہوا ہے۔ ملک میں گائے، بھینسوں، بکریوں اور بھیڑو ں کی کل تعداد آٹھ کروڑ کے قریب ہے۔ تین کروڑ ٹن سے زائد دودھ ملک میں پیدا کرتے ہیں۔ اب اس لائیو سٹاک کو عید الاضحیٰ کے موقعے پر سعودی عرب سے بات کر کے وہاں استعمال نہ کیا جا رہا ہو تو یہ زرعی اکانومی کا نہیں فیصلہ سازوں کا قصور ہے، جو زراعت کی بات کرتے شرمندہ ہو جاتے ہیں کہ کہیں انہیں پینڈو نہ سمجھ لیا جائے۔
ہم ہر سال 18 ارب انڈے کھا جاتے ہیں اور ہمارے کھائے گئے گوشت کا وزن ساڑھے 22 ارب کلوگرام ہے۔ اب اگر وزیر اعظم صنعت کے فضائل بیان کرتے ہوئے اس اکانومی کو برائے وزنِ بیت اور بلاوجہ گھونسا رسید کر دیتے ہیں تو یہ انتہائی تکلیف دہ بات ہے۔ حاکم وقت اگر اس لہجے میں بات کرے گا تو اس کا منطقی نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ حکومتی اشرافیہ اور بیوروکریسی میں زراعت مزید حقیر قرار پائے۔
عمران خان یہ بات بھول رہے ہیں کہ پاکستان بنیادی طور پر ایک ز رعی ملک ہے اور یہ ذراعت پر منحصر انڈسٹری ہی ہے جس میں ہمارے لیے امکانات کا ایک جہاں آباد ہے۔ ہم اس سے ’دین و دنیا‘ دونوں حاصل کر سکتے ہیں۔ یہی ہمارا ’فورس ملٹی پلائر‘ بھی ہے۔ عمران خان کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ جب تک وہ اپنے مزاج میں اعتدال نہیں لاتے، ان کی ہر پالیسی ریت کا قلعہ ثابت ہو گی۔ انہیں یکسوئی اور ٹھہراؤ کی ضرورت ہے۔
معلوم نہیں یہ افتاد طبع ہے یا کم وقت میں بہت کچھ کر دکھانے کی آرزو، وہ کسی ایک محاذ پر ٹھہرتے ہی نہیں۔ اقتدار میں آئے تو صبح شام احتساب کے رجز پڑھے۔ یہ یاد ہی نہ رہا کہ خوف اور سرمایہ ایک جگہ اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ جب خوف کی فضا پیدا ہو گئی تو سرمایہ بھاگ گیا۔ تب انہیں خیال آیا کہ یہ تو غلط ہو گیا۔
پھر ایمنسٹی سکیم لے آئے اور تعمیرات اور ہاؤسنگ سیکٹر کو مراعات ملنے لگیں۔ اب انڈسٹریل پیکج کی تقریب میں وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ وہ ایمنسٹی سکیم بھی غلط تھی، مجھے تو شروع میں ہی صنعتوں کو پیکج دینا چاہیے تھا۔ تازہ پالیسی اب یہ ہے کہ جو پیسہ پلاٹوں میں انویسٹ ہوا ہے اس کا رخ صنعت کی طرف کر دیا جائے۔
اس کی ساتھ ہی یہ برہانِ تازہ بھی ہے کہ سبزیوں اور گندم کی برآمدات سے ملک ترقی نہیں کر سکتا۔
یہ وہی رویہ ہے کہ چین گئے تو چین کا نظام پسند آ گیا۔ ایران گئے تو کہا ہم ایران جیسا نظام لائیں گے اور سعودیہ کا نظام دیکھا تو کہہ دیا ہم سعودیہ جیسا نظام لائیں گے۔ کسی سے سیاسی اختلاف ہوا تو اسے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دے دیا اور اختلاف کی جگہ اتفاق نے لے لی تو انہیں اہم ترین مناصب پیش کر دیے۔ حزب اختلاف کا دور رہا تو اقوال زریں سنا سنا کر حد ہی کر دی اور اقتدار ملا تو انہی اقوال زریں کو باؤنسر مار مار کر گھائل کر دیا۔ وہی بات کہ کوئی بھی کام کم کرنا انہیں ہر گز نہیں آتا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب اطہر من اللہ نے پیکا آرڈی ننس کی سماعت کے دوران کہا کہ لگتا ہے وزیر اعظم صاحب کو درست طور پر اس معاملے کی بریفنگ نہیں دی گئی۔ پیکا سے امان پاؤں تو عرض کروں کہ مجھے خدشہ ہے انہیں اکثر معاملات پر ایسی ہی بریفنگ دی جاتی ہے۔ چنانچہ ہر بریفنگ کے بعد کچھ نئے اقوال زریں ظہور کرتے ہیں اور غلطی ہائے مضامین کا بوجھ کچھ اور بڑھ جاتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔