’دا لاسٹ گیمبل‘

نمبر گیم کی تکمیل سے زیادہ کڑا اور امتحانی مرحلہ تحریکِ عدم اعتماد کے (اگر) کامیاب ہو جانے کی صورت میں درپیش ہے اور گذشتہ چند دنوں کی ملاقاتوں میں یہی موضوعِ سخن رہا۔

پاکستان پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) کی جاری کردہ اس ہینڈ آؤٹ تصویر میں وزیر اعظم عمران خان کو 25 جون 2020 کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے (تصویر: پی آئی ڈی / اے ایف پی)

تاوقت ظاہری آثار کے مطابق ایک بات تو طے نظر آتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش ضرور کی جائے گی۔

گذشتہ کم از کم سوا ہفتے کی پیشرفت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اس بات کا جائزہ بھی بخوبی لیا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن کے پاس نمبر گیم بھی تقریباً مکمل ہی سمجھی جا سکتی ہے۔

لیکن نمبر گیم کی تکمیل سے زیادہ کڑا اور امتحانی مرحلہ تحریکِ عدم اعتماد کے (اگر) کامیاب ہو جانے کی صورت میں درپیش ہے اور گذشتہ چند دنوں کی ملاقاتوں میں یہی موضوعِ سخن رہا۔

342 (مائنس وَن-341) کے ایوان زیریں میں حکومت کے پاس اتحادیوں کو ملا کر 179 (مائنس وَن-178) کا نمبر موجود ہے۔

اپوزیشن کے پاس 162 ووٹ موجود ہیں۔ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کامیاب کروانے کے لیے اپوزیشن کو 172 کا گولڈن نمبر درکار ہے یعنی محض 10 مزید ووٹ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان حتمی پارلیمانی نمبرز میں دونوں بینچز کو فی الحال ایک ایک ووٹ کی کمی کا سامنا ہے۔ تحریکِ انصاف کے179 ممبرز میں سے ایک ووٹ کی کمی ہنگو سے ایم این اے خیال زمان اورکزئی کی وفات کی وجہ سے ہے۔ جبکہ اپوزیشن کے 162 میں سے ایک ووٹ کی کمی ایم این اے علی وزیر کی گرفتاری کی وجہ سے ہے۔

اگر تحریکِ عدم اعتماد جلد ہی پیش کر دی جاتی ہے اور اس دوران علی وزیر کی رہائی عمل میں نہیں آتی تو پھر اپوزیشن کو کامیابی کے لیے مزید 11 ووٹ درکار ہوں گے۔ اس صورت میں مسلم لیگ (ق) کے پانچ ایم این ایز اور ایم کیو ایم کے سات ایم این ایز اسی وجہ سے انتہائی کلیدی کردار حاصل کرگئے ہیں۔

نظر رکھنے والوں کے لیے تو یہ امر انتہائی باعثِ دلچسپی ہے کہ مسلم لیگ (ق) جس کا ماضی ہمیشہ ہی مقتدر حلقوں کی آشیرباد اور اشاروں کا مرہونِ منت رہا ہے، وہ اچانک اپوزیشن سے مسلسل اور اعلی سطح کی ملاقاتوں کے لیے راضی کس طرح ہوئی اور نہ صرف برضا و رغبت بلکہ حالیہ اطلاعات کے مطابق پنجاب کی وزارتِ اعلٰی کے بدلے خان اور بُزدار حکومت گرانے کو آمادگی بھی ظاہر کر چکی ہے۔

ظاہر ہے عقل رکھنے والوں کے لیے اس میں بڑی نشانیاں ہیں۔ اب تک کی اُڑتی اُڑتی خبروں کے مطابق مسلم لیگ (ن) عارضی طور پر پنجاب کی وزارتِ اعلٰی مسلم لیگ (ق) کے حوالے کرنے کے لیے نسبتاً راضی ہے اور اس صورت میں محتاط اندازے کے مطابق کہا جا سکتا ہے کہ کم از کم صوبائی اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کریں گی۔

قومی اسمبلی کی مدت کی تکمیل سے متعلق اپوزیشن کے مابین اختلافات تادمِ تحریر موجود ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ ہفتے تک اس حوالے سے بھی معاملات طے پا جائیں گے۔ یہی وہ چند ایک خاردار معاملات ہیں جن کو عبور کرنے میں اپوزیشن کو تاخیر کا سامنا درپیش ہے اور اسی اعصاب شکن، مشکل ترین کام کے لیے سیاسی شطرنج کے ماہر ترین کھلاڑی آصف زرداری کا سہارا لیا گیا۔

خبر یہ بھی ہے کہ معاملات کو حتمی شکل تک پہنچانے کے لیے خصوصاً مسلم لیگ (ق) نے ’گارنٹی‘ اور ’گارنٹر‘ کا مطالبہ کیا جس کے بعد آصف زرداری کا نام بطور ’فرنٹ پلیئر‘ سامنے لایا گیا۔

اطلاعات کے مطابق معاملات آصف زرداری کے ہاتھ میں آنے پر ایم کیو ایم نےبھی اطمینان کا اظہار کیا کیوں کہ پنجاب کی پارٹی کی نسبت سندھ کی جماعت کے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کرنے کے لیے ایم کیو ایم نسبتاً زیادہ آرام دہ محسوس کر رہی تھی۔

فی الحال نظر یہی آتا ہے کہ ایم کیو ایم، ق لیگ کے اگلے قدم کی منتظر ہے اور جیسے ہی اُسے یقین ہو گیا کہ چوہدری برادران کا وزن اب اپوزیشن کے پلڑے میں ہے، ایم کیو ایم بھی اپنا جھکاؤ دکھانے میں زیادہ دیر نہیں لگائے گی۔ لیکن اس تمام صورتحال میں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ایک جانب جہاں اپوزیشن بھرپور جارحیت کے ساتھ حکومت مخالف داؤ پیچ کھیلنے میں مصروف ہے وہیں تحریکِ انصاف کی حکومت کی طرف سے تاحال جوابی جارحیت کا فقدان ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محض چند ایک وزرا صاحبان کی طرف سے ایسے بیانات سامنے آئے جن میں بھی اعتماد کی کمی جھلکتی محسوس ہوئی۔ ایک طرف حکومت خود ہی یہ دعوی کر کے کہ اس کے اراکینِ پارلیمان کو پیسوں کے بدلے ووٹ خریدنے کی آفرز ہو رہی ہیں، اپنے ہی ایم این ایز کو شرمندگی کی صورتحال میں دھکیل رہی ہے جبکہ اتحادیوں کے حکومت کے ساتھ رہنے کا اعتماد بھی متزلزل نظر آتا ہے۔

کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ اتحادی ہمیشہ بارڈرلائن پر ہوتے ہیں اور کبھی ’خواہش‘ کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ’امید‘ ہے اتحادی حکومت کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ حکومتی وزرا کے محض بیانات کا ہی جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ درونِ خانہ حالات کی تبدیلی کی سنگینی کا بخوبی احساس ہو چکا ہے۔

اب یہاں یہ بھی یاد کر لیجیے کہ نئے سال کے آغاز پر ہی اوائلِ جنوری میں وزیراعظم عمران خان نے خبردار کر دیا تھا کہ ’اگلے تین ماہ بہت اہم ہیں۔‘ اس وقت بظاہر نہ تو حکومت کو کوئی خطرہ محسوس ہو رہا تھا نہ ہی اپوزیشن ایسی تگڑی تھی لیکن پسِ پردہ کچھ نہ کچھ ایسا ضرور پک رہا تھا جس کی بِھنک خان تک پہنچی تھی اور اُنہی ’خبردار‘ کیے گئےتین ماہ کے دوران ہی حالات کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور اب تو خبر یہ بھی ہے کہ اِن ہی ’تین ماہ‘ کی ڈیڈلائن تک یعنی مارچ میں ہی عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی جائے۔

تحریک پیش کرنے کی صورت میں دونوں ممکنہ صورتحال انتہائی دلچسپ ہوں گی اور صحافت اور سیاست کی ادنٰی طالب علم ہونے کے ناطے میری دلچسپی دوسری صورتحال کے ممکنات میں زیادہ ہے کیوں کہ اس میں پاکستان کی سیاست کے نئے تاریخی لمحات طے ہو رہے ہوں گے۔

اوّل صورتحال تو یہ کہ تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہو جائے۔ اس صورت میں ظاہر ہے اپوزیشن کی بہت بڑی سُبکی ہو گی، عوام کا اعتماد اپوزیشن پر سے ہی کمزور ہو جائے گا اور عمران خان پہلے سے زیادہ طاقتور وزیراعظم بن کر سامنے آئیں گے۔

دوسری صورت یہ کہ تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو جائے لیکن اگر اس کی کامیابی کا 50 فیصد یقین بھی عمران خان کو ہوا تو خبر دینے والوں کے مطابق قبل از وقت اسمبلیاں توڑنے کو ترجیح دی جائے گی۔

اس صورت میں عمران خان اپنی حکومت کی مدت پوری نہ کرنے دی جانے کا بیانیہ لے کر سڑکوں پر بھی آ سکتے ہیں اور ’سیاسی شہادت‘ کےجذبات کا بڑی حد تک فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

یہی وہ نکتہ ہے جس کی طرف وزیراعظم صاحب نے حالیہ ایک تقریر میں اشارہ بھی کیا تھا کہ اگر ان کی حکومت گرائی گئی تو وہ سڑکوں پر نکل آئیں گے اور زیادہ خطرناک ہو جائیں گے۔

بظاہر یہ ایک ’تُرپ کا پتّہ‘ ہے جو وزیراعظم کے پاس آئینی، پارلیمانی، قانونی اور جمہوری اعتبار سے موجود ہے۔ وزیراعظم کے پاس ’تُرپ کا دوسرا پتّہ‘ بھی موجود ہے لیکن اس کا استعمال چند دیگر عناصر و افراد سے جُڑا ہے اور اس کی ٹائمنگ بھی انتہائی نازک ہے جس کی بِنا پر اُس ’پتّے‘ کے استعمال کے فائدے کا تناسب ففٹی ففٹی ہے۔

دوسری ہی صورتحال (جس کا تذکرہ جاری ہے) کے دیگر ممکنات میں سے کیا یہ ممکن ہے کہ عمران خان اپنی حکومت گرائے جانے کے بعد خاموشی سے بَنّی گالہ روانہ ہو جائیں، کتابیں پڑھنا اور کتابیں لکھنا شروع کر دیں، کرکٹ کمنٹری کا آغاز کر دیں یا لندن روانہ ہو جائیں ۔۔۔۔؟ یا کیا یہ ممکن ہے کہ حکومت گرائے جانے کے بعد اپوزیشن کے عائد کردہ الزامات کے تحت مقدمات کا آغاز کر دیا جائے اور عمران خان کے گرد گھیرا تنگ ہوجائے۔۔۔؟

ظاہر ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کے کامیاب ہونے کے اگلے ہی روز تو یہ سب کچھ شروع نہیں ہو جائے گا۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ مَنّتوں مرادوں اور مِنتّوں سے ملی اپنی حکومت کے گرائے جانے کے ساتھ ہی خان چپ کر کے نہیں بیٹھ جائیں گے یا خامشی سے یہ سارا تماشہ نہیں سہیں گے۔۔۔۔ فارغ تو نہیں بیٹھیں گے محشر میں جُنوں میرا۔۔۔۔ کے مصداق خان کی حکمتِ عملی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اور تاریخی لمحہ ہو گا اور اسی لیے عرض کیا کہ بطور طالبِ علم دوسری صورتحال کے ممکنات کاجائزہ لینے اور ان سے سیکھنے کی میری دلچسپی اور تجسُس زیادہ ہے۔

تاحال عمران خان نے اپنے ’پتّے‘ سینے سے لگا کر رکھے ہیں۔ بہرحال اپوزیشن اور حکومت دونوں ہی اگلے چند دنوں میں ایک ایسے کھیل کا آغاز کرنے جا رہی ہیں جو کسی کا بھی ’دا لاسٹ گیمبل‘ یعنی ’آخری جُوُا‘ یا ’دا لاسٹ گیمبل‘ یعنی ’ہارا ہوا جُوّا‘ ثابت ہونے جا رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر