آصف زرداری سے منسوب نیویارک کے ’منحوس‘ فلیٹ کی کہانی

نیویارک کے مہنگے ترین علاقے میں موجود اس فلیٹ کے گرد صدر زرداری کی مشکلات کے علاوہ کئی واقعات موجود ہیں اور اسے ماضی میں منحوس بھی قرار دیا جاتا رہا ہے۔

سابق صدر زرداری 2018 میں کہہ چکے ہیں کہ ان کی امریکہ میں کوئی پراپرٹی نہیں ہے (2021 گوگل)

نیویارک میں سابق صدر آصف علی زرداری کا مبینہ فلیٹ ایک بار پھر مرکز نگاہ ہے۔ نیویارک کے مہنگے ترین علاقے میں موجود اس فلیٹ کے گرد صدر زرداری کی مشکلات کے علاوہ کئی واقعات موجود ہیں اور اسے ماضی میں ’منحوس‘ قرار دیا جاتا رہا ہے۔

قومی احتساب بیورو (نیب) نے 15 جون کو پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری کو ایک نوٹس جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ایک انکوائری کے مطابق نیویارک کے علاقے مین ہیٹن میں ان کا ایک اپارٹمنٹ ہے جنہیں انہوں نے پاکستان میں ظاہر نہیں کیا۔

نوٹس میں مزید کہا گیا تھا کہ اس پراپرٹی کو حاصل کرنے کے لیے قانونی طریقے سے پاکستان سے بھیجی گئی رقم بھی ظاہر نہیں کی گئی۔

سابق صدر زرداری نے اسی کیس میں بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے عبوری ضمانت بھی حاصل کر لی ہے۔

فلیٹ صدر زرداری کی ملکیت ہے یا نہیں؟

2004 میں سابق فوجی آمر مشرف کے دور حکومت میں جب آصف علی زرداری کو قید سے رہا کیا گیا تو آصف علی زرداری نے نیویارک کا رخ کیا۔ وکی لیکس کی ایک کیبل کے مطابق صدر زرداری نے امریکی حکام کو بتایا تھا کہ علاج کی غرض سے انہوں نے 2004 کے بعد تین سال کا عرصہ نیویارک میں گزارا تھا۔

2018 کے انتخابات کے لیے صدر زرداری کی جانب سے اپنے اثاثہ جات کی جمع کرائی گئی تفصیلات کے مطابق ملک سے باہر جائیداد کے خانے میں انہوں نے صرف دبئی میں اپنی ایک ملکیت ظاہر کی ہے۔

مگر نیویارک کے محکمہ خزانہ کے مطابق نیویارک میں مذکورہ فلیٹ کی ملکیت آصف علی زرداری کے نام پر ہے۔

اسی فلیٹ کے حوالے سے ملکی میڈیا میں کئی خبریں سابق صدر آصف علی زرداری کی نسبت سے موجود ہیں۔ اس اپارٹمنٹ کی سابقہ مالک سیما بوئسکی نے اپریل 2008 کو ایک مضمون میں بےنظیر بھٹو کی موت کے بعد انکشاف کیا تھا کہ مذکورہ اپارٹمنٹ ان سے بےنظیر بھٹو نے مبینہ طور پر خرید لیا تھا۔

سابق صدر زرداری سے اس اپارٹمنٹ کو پہلی بار منسوب نہیں کیا گیا ہے۔ دسمبر 2018 میں تحریک انصاف کے وفاقی وزیر علی زیدی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے اس اپارٹمنٹ کی تفصیلات شیئر کی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تحریک انصاف کے خرم شیر زمان نے 2018 میں ہی اسی حوالے سے الیکشن کمیشن میں ریفرنس دائر کرنے کی کوشش کی تھی جبکہ 2011 میں جیو ٹی وی کو انٹرویو میں موجودہ وزیراعظم عمران خان نے سابق صدر زرداری کے اس فلیٹ کا ذکر کیا تھا۔

تاہم سابق صدر زرداری 2018 میں کہہ چکے ہیں کہ ان کی امریکہ میں کوئی پراپرٹی نہیں ہے۔

اپارٹمنٹ کب اور کتنے میں خریدا گیا

نیویارک محکمہ خزانہ کی دستاویزات کے مطابق اس اپارٹمنٹ کو 20 جون 2007 کو خریدا گیا تھا مگر اس کی نیویارک کی انتظامیہ کے سامنے توثیق سات دسمبر 2007 کو بےنظیر بھٹو کے قتل سے 20 دن پہلے ہوئی تھی۔

نیویارک کی سرکاری دستاویزات کے مطابق آصف علی زرداری نے اس اپارٹمنٹ کو مبینہ طور پر پانچ لاکھ 30 ہزار ڈالر میں خریدا تھا اور اس اپارٹمنٹ پر دس ہزار ڈالر کے قریب سالانہ ٹیکس تواتر سے جمع کروایا جا رہا ہے۔

نیویارک کی سرکاری دستاویزات کے مطابق 2007 کے بعد سے اس اپارٹمنٹ کی ملکیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ اپارٹمنٹ ابھی بھی مبینہ طور پر آصف زرداری ہی کی ملکیت ہے۔ نیویارک محکمہ خزانہ کی دستاویزات میں بھی آصف علی زرداری کے دستخط موجود ہیں۔

اپارٹمنٹ کی تفصیلات

نیویارک کے علاقے مین ہیٹن کا شمار دنیا کے مہنگے ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ یہ اپارٹمنٹ مین ہیٹن سے ملحقہ ایسٹ ریور (دریا) پر واقع ہے اور اس اپارٹمنٹ سے ایسٹ ریور کے دلکش مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ اپارٹمنٹ ایک 50 منزلہ عمارت کے اندر ہے جہاں 130 کے قریب رہائشی یونٹ ہیں جب کہ عمارت میں سوئمنگ پول اور جم جیسی سہولیات بھی موجود ہیں۔

 

مذکورہ اپارٹمنٹ میں ایک بیڈ روم اور ایک لاؤنج ہے۔ ان اپارٹمنٹس کا ماہانہ کرایہ تین ہزار سے چار ہزار ڈالر کے قریب ہے۔

اپارٹمنٹ سے جڑے دلچسپ حقائق

دی نیوز کی 25 اپریل 2008 کی ایک خبر کے مطابق اس فلیٹ کے مالکان کے حوالے سے ایک عجیب عنصر یہ ہے کہ جس نے بھی ’اس اپارٹمنٹ کو خریدنے کی کوشش کی یا اسے خریدا تو اس کی موت ہو گئی۔‘ خبر میں بتایا گیا ہے کہ اس اپارٹمنٹ کے خریدنے کے کچھ عرصے کے بعد بےنظیر بھٹو کی ’موت‘ واقع ہوئی۔

اسی عمارت سے دس اکتوبر 2006 کو ایک طیارہ بھی حادثاتی طور پر ٹکرایا تھا جس کے نتیجے میں چار ہلاکتیں ہوئی تھیں۔

اس اپارٹمنٹ کی سابقہ مالک سیما بوئسکی نے ان حادثوں کی بنیاد پر اس اپارٹمنٹ کو ’منحوس‘ قرار دیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست