’وسیم اکرم پلس‘ کی گونج اور بزدار حکومت کی تین سالہ کارکردگی

تجزیہ کاروں کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے شاید عثمان بزدار کو اس لیے وزیراعلیٰ بنایا کیونکہ وہ خود صوبہ پنجاب کا اختیار رکھنا اور چلانا چاہتے تھے، اسی لیے ایسے رکن کو وزیراعلیٰ بنایا گیا، جن کا کوئی بڑا سیاسی تجربہ یا وژن نہیں تھا۔

حکمران جماعت نے 2018 میں اقتدار سنبھالا تو غیر روایتی طور پر صوبے کی پسماندہ تحصیل سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی عثمان بزدار کو صوبے کا چیف ایگزیکٹو یعنی وزیراعلیٰ بنانے کا فیصلہ ہوا جو دیگر جماعتوں کے ساتھ پی ٹی آئی کے اپنے رہنماؤں کے لیے بھی حیران کن فیصلہ تھا (تصویر: ریڈیو پاکستان)

پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں تین سالوں کے دوران واضح طور پر وزیراعظم عمران خان نے معاملات اپنے ہاتھ میں رکھے اور کابینہ اجلاسوں میں ان کی شرکت خلاف معمول رہی ہے، مگر تحریک انصاف کے دور حکومت میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا کردار کتنا فعال رہا یہ قابلِ بحث ہے۔

حکمران جماعت نے 2018 میں اقتدار سنبھالا تو غیر روایتی طور پر صوبے کی پسماندہ تحصیل سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی عثمان بزدار کو صوبے کا چیف ایگزیکٹو یعنی وزیراعلیٰ بنانے کا فیصلہ ہوا جو دیگر جماعتوں کے ساتھ پی ٹی آئی کے اپنے رہنماؤں کے لیے بھی حیران کن فیصلہ تھا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق وزیراعظم نے شاید بزدار کو اس لیے وزیراعلیٰ بنایا کیونکہ وہ خود صوبہ پنجاب کا اختیار رکھنا اور چلانا چاہتے تھے، اسی لیے ایسے رکن کو وزیراعلیٰ بنایا گیا، جن کا کوئی بڑاسیاسی تجربہ یا وژن نہیں تھا۔

یہی وجہ تھی کہ گذشتہ تین سال کے دوران پارٹی کے اندر سے ہی وزیراعلیٰ پنجاب کو تبدیل کرنے کی آوازیں اٹھتی رہیں مگر وزیراعظم کی جانب سے متعدد بار اعلانیہ انہیں ’وسیم اکرم پلس‘ قرار دے کر یہ آوازیں دبانے کی کوشش جاری رہیں۔

موجودہ سیاسی ہلچل میں بھی پارٹی کا بڑا دھڑا ناراض ہونے کے باوجود وزیراعظم عثمان بزدار کو عہدے سے ہٹانے کو تیار نہیں ہیں۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ عثمان بزدار صوبے میں کوئی بھی نمایاں منصوبہ متعارف نہیں کروا سکے۔ 80 فیصد منصوبے وہی ہیں جو سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف یا چوہدری پرویز الہیٰ نے شروع کیے تھے۔

جنوبی پنجاب صوبہ نہیں بن سکا، جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔ سیکرٹریٹ بھی برائے نام ہی ہے۔ محرومیوں کا ازالہ کہیں دکھائی نہیں دیتا، البتہ سیاسی دعوے فطری ہیں۔

پنجاب میں حکمران جماعت کے منشور پر کتنا عمل ہوا؟

گذشتہ عام انتخابات میں ’متحدہ جنوبی پنجاب محاذ‘ جو 100 دن میں علیحدہ صوبے کے تحریری معاہدے کے تحت پی ٹی آئی کا حصہ بنا، عثمان بزدار کو اسی منشور کی تکمیل کے لیے وزیراعلیٰ بنانے کا اعلان کیا گیا تھا۔

ان کا تعلق پی ٹی آئی سے نہیں تھا، تاہم ٹکٹ لیتے وقت وہ حکمران جماعت میں شامل ہوکر تونسہ سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور بعد ازاں وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوگئے۔

تجزیہ کار انجم رشید کے بقول وزیراعظم کی سب سے بڑی سیاسی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے ایک ایسے رکن کو بڑے صوبے کا سربراہ بنا دیا جن کو نہ سیاسی سوجھ بوجھ تھی، نہ ایوان میں وہ حقیقی لیڈر آف دی ہاؤس کا تاثر قائم کر پائے، کیونکہ پنجاب میں پی ٹی آئی کے ہی لیڈرز شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، علیم خان، چوہدری سرور موجود تھے، جن کا سیاسی وزن بزدار سے بہت زیادہ تھا۔

انجم رشید کے مطابق: ’اراکین اسمبلی بھی عثمان بزدار کو اپنا لیڈر ماننے کی بجائے اپنے اُن لیڈرز سے ہی منسلک رہے جنہیں وہ پہلے سے مانتے تھے، جانتے تھے اور ان کی بالادستی قبول کرتے تھے۔ جو ان دنوں دھڑوں کی صورت میں نظر بھی آرہی ہے۔‘

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ سینٹرل پنجاب میں عثمان بزدار کوئی بھی نیا منصوبہ شروع نہیں کر پائے کیونکہ ان کے پاس آئیڈیاز نہیں تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک دو انڈر پاس جو بنائے گئے وہ بھی سابقہ حکومت کی پلاننگ تھی جبکہ اورنج لائن ٹرین بھی سابقہ حکومت کا منصوبہ تھا۔

انجم رشید کے مطابق: ’انہوں نے صرف افتتاح کیا، راوی اربن پراجیکٹ بھی کافی عرصے سے منصوبہ بندی کا حصہ رہا۔ اسے انہوں نے شروع ضرور کیا لیکن اس کا کریڈٹ وزیراعظم خود لیتے ہیں۔ اسی طرح صحت کارڈ ہو یا کرونا کے دوران کیے گئے انتظامات، ان سب کا کریڈٹ بھی وفاقی حکومت لیتی ہے۔‘

’سڑکوں کی تعمیر، ہسپتالوں کی دیکھ بھال یا اَپ گریڈیشن جیسے چھوٹے چھوٹے کام بھی پہلے کی طرح واضح دکھائی نہیں دیے، البتہ سیاسی نعرے اپنی جگہ پر ہیں۔ جب قبضہ مافیا کے خلاف آپریشن سے سرکاری زمینیں واگزار کرانے کی کوشش ہوئی تو وہ اتنے بڑے کام نہیں جس سے لوگوں کو مجموعی فائدہ دکھائی دے۔‘

ان کے خیال میں  بار بار انتظامی افسران کی تبدیلی اور غیر معتدل پالیسیوں سے لوگ مزید پریشان ہوئے اور نظام میں بھی خرابیاں پیدا ہوئیں۔

انجم رشید نے مزید کہا کہ 50 لاکھ گھر دینے کے لیے وزیراعظم ہاؤسنگ سکیم یا ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ بھی پنجاب میں دور دور تک پورا ہوتا دکھائی نہیں دیا۔

جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار شاکر حسین شاکر کے مطابق عثمان بزدارکا تعلق جنوبی پنجاب سے ہونے کی بنیاد پر دعویٰ کیا گیا تھا کہ نہ صرف علیحدہ صوبہ بنے گا بلکہ یہاں کی محرومیوں کا ازالہ بھی ترجیحی بنیادوں پر ہو گا۔

’منشور میں شامل تھا کہ حکومت ملنے کے بعد پہلے 100 دن میں جنوبی پنجاب علیحدہ صوبہ بن جائے گا لیکن پھر ایک سیکریٹریٹ بنایا گیا جو بہاولپور اور ملتان کے درمیان ابھی تک حدود کے تعین میں پھنسا ہے، اسے بھی آئینی تحفظ نہ ہونے پر مکمل فعال نہیں کیا جاسکا۔ یہ یہاں کے لوگوں کو لالی پاپ دینے کے مترادف ہے۔‘

شاکر حسین شاکر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ موجودہ حکومت نے ملتان میں نشترہسپتال ٹو کا کام شروع ضرور کیا لیکن یہ منصوبہ سابقہ حکومت کا تھا۔ نشتر ون کے باتھ رومز بہتر کرنے کی تشہیر کی گئی لیکن وہ اتنا بڑا کام نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا: ’اسی طرح ڈیرہ غازی خان میں وزیراعلیٰ پنجاب نے خصوصی پیکج بھی دیے جو صرف ایک دو سڑکوں تک محدود دکھائی دیے البتہ انہوں نے تونسہ میں سکول، کالج یا ہسپتال بنانے کا کام ضرور شروع کیا جو مقامی سیاسی مفادات کے لیے ہے، تاہم جس مقصد کے لیے جنوبی پنجاب کے لوگوں نے حکمران جماعت کو واضح مینڈیٹ دلایا، اس لحاظ سے کوئی بھی نمایاں منصوبہ یا عوامی مفاد کا کام دکھائی نہیں دیتا۔‘

پنجاب میں کرپشن فری پالیسی اور انتظامی صورت حال

موجودہ حکومت کا سب سے بڑا نعرہ پاکستان کی طرح پنجاب میں بھی کرپشن کا خاتمہ اور مافیاز کو قابو کرنے کی کوشش تھا۔

انجم رشید کے بقول جب سے پی ٹی آئی حکومت میں آئی، تین سال میں صوبے کے چیف سیکرٹری اور پولیس سربراہ مہنیوں میں ہی تبدیل کیے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر ماہ صوبے کے ضلعی افسران کے تبادلوں پر فہرستیں منظرعام پر آتی ہیں، ایسی صورت حال میں کیسے انتظامی طور پر حالات ٹھیک ہوسکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)


’گھوم پھر کے وہی افسران عہدوں پر لگائے اور ہٹائے جارہے ہیں، جو سابقہ حکومتوں میں بھی اہم عہدوں پر رہے تو تبدیل کیا ہوا؟‘

انہوں نے کہا کہ ’جہاں تک کرپشن ختم کرنے کا سوال ہے تو وہ شہری بہتر جانتے ہیں کہ میرٹ پر کتنے کام ہو رہے ہیں یا کام کروانے کے ریٹ پہلے سے بھی بڑھ گئے۔ کسی بھی شعبے میں تاخیر سے مسائل حل کرنے کا سلسلہ تھم نہ سکا بلکہ مافیاز زیادہ طاقتور دکھائی دیے۔‘

انہوں نے کہا کہ یہ بات ٹھیک ہے کہ تبدیلی چند سالوں میں ممکن نہیں، نظام میں جتنی خامیاں موجود ہیں، انہیں سدھارنا جلد ممکن نہیں لیکن سمت متعین ہوسکتی ہے، جو ابھی دکھائی نہیں دی۔

انجم رشید کے بقول: ’وزیراعلیٰ پنجاب سے متعلق ابھی تک کوئی مالی یا بدعنوانی کا سکینڈل تو سامنے نہیں آیا لیکن نظام پر اس کا کوئی اثر بھی نہیں دیکھا۔‘

دوسری جانب شاکر حسین شاکر نے کہا: ’جب حکومت اقتدار میں ہوتی ہے تو کرپشن یا بدعنوانی کے سکینڈلز کی معلومات تک رسائی مشکل ہوتی ہے لیکن جب حکومت تبدیل ہوتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ کسی نے کیا گل کھلائے۔‘

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی طرف سے اراکین اسمبلی کو فنڈز نہ دینے کا دعویٰ کیا گیا تھا اور مقامی حکومتوں کے ذریعے فنڈز استعمال کرنے کے اعلانات ہوئے مگر مقامی حکومتوں کو اس لیے غیر فعال کردیا گیا کہ زیادہ نمائندگی مسلم لیگ ن کی تھی، جس سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اب سیاسی مشکلات بڑھیں تو اربوں روپے کے فنڈز تقسیم کیے جارہے ہیں۔ جیسے ماضی میں من پسند سرمایہ داروں کو ٹھیکے دیے جاتے تھے وہ ابھی تک حکومتی عہدیداروں کے من پسند ٹھیکیداروں کو دیے جاتے ہیں۔

شاکر حسین شاکر نے بتایا: ’جتنی بد انتظامی اس دورِ حکومت میں نظر آتی ہے، اس سے پہلے نہیں تھی کیونکہ وزیراعلیٰ پنجاب کی سیاسی یا اتنظامی ڈھانچے پر مکمل گرفت نہیں، اس لیے وزیراعظم کی خود صوبہ چلانے کی حکمت عملی بھی کامیاب نہیں ہوئی اورعثمان بزدار بھی وسیم اکرم پلس کے ٹائٹل کی لاج رکھنے میں ناکام رہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست