پنجاب میں اسلام آباد کی مداخلت کا تاثر درست نہیں: عثمان بزدار

انڈپینڈنٹ اردو کے سوالات کے تحریری جواب میں وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا: ’وزیراعظم عمران خان صاحب میرے قائد ہیں، میں ان سے رہنمائی لیتا ہوں۔۔۔ لیکن پنجاب میں اسلام آباد کی مداخلت کا تاثر درست نہیں۔‘

عثمان بزدار کہتے ہیں کہ اگر تبدیلی سے مراد ترقی ہے تو پنجاب کے اضلاع میں جا کر دیکھیں، دیہات میں جا کردیکھیں جہاں سڑکوں کے جال بچھائے جا رہے ہیں اور ہسپتال، سکول، کالجز اپ گریڈ ہو رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان کے آبادی اور سیاست کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان احمد خان بزدار نے صوبے کے معاملات میں اسلام آباد کی براہ راست مداخلت کے تاثر کو مسترد کردیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کے سوالات کے تحریری جواب میں عثمان بزدار نے کہا کہ وہ وزیراعظم عمران خان سے رہنمائی ضرور لیتے ہیں اور اس کے مطابق کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

عثمان بزدار صوبے کے 33 ویں وزیراعلیٰ ہیں اور عمران خان کی جانب سے ان کے اگست 2018 میں اس اہم ترین عہدے کے لیے انتخاب پر سوالات بھی اٹھائے گئے تھے۔   

ان سے پوچھے گئے سوالات اور ان کے جوابات من و عن یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔

س: اپوزیشن کے مطابق آپ اسلام آباد کی ہدایت کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے، کیا یہ بات ٹھیک ہے؟

جواب: کوئی کچھ بھی کہہ لے کسی کی زبان کو روکا جاسکتا ہے، نہ ذہن پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان صاحب میرے قائد ہیں، میں ان سے رہنمائی لیتا ہوں، ان کی گائیڈ لائن کے مطابق پرفارم کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن پنجاب میں اسلام آباد کی مداخلت کا تاثر درست نہیں۔

س: آپ کو سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف سے کیسا پنجاب ملا؟

جواب: جب میں نے وزارت اعلیٰ کامنصب سنبھالا تو ہمیں 1300 ارب روپے کا کیری فارورڈ ملا۔ پنجاب تاریخ کے بدترین مالی بحران سے دوچار تھا۔ دعوے تو پنجاب سپیڈ کے کیے گئے لیکن جب گئے تو حکومت پنجاب بری طرح مالی بحران کا شکار تھی۔ 56 ارب روپے کے ایسے چیک تھے جو کیش نہ ہوسکے،41 ارب روپے کے اوور ڈرافٹ ہمیں ورثے میں ملے اور صوبے بھر کے آٹھ ہزار سے زائد ترقیاتی منصوبے نامکمل حالت میں ہمیں ملے، جنہیں عوامی مفاد کے پیش نظر ہمیں خود مکمل کرنا پڑا۔

صوبائی وسائل نمائشی منصوبوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ہمیں سوشل سیکٹر کی بحالی اورمالی وسائل کے منصفانہ چیلنجز کا سامنا تھا۔ میں آپ کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ہم نے عمومی روایت کے برعکس پچھلی حکومت کے چھوڑے ہوئے منصوبوں کو سیاسی تعصب کی بھینٹ چڑھانے کی بجائے مکمل کرنے پر توجہ دی اورسب سے پہلے معاشی پالیسیاں تشکیل دی گئیں۔ یہ تو وہ مسائل تھے جو پچھلی حکومت سے ورثے میں ملے لیکن کرونا وائرس کی وبا اچانک پھیلنے سے معاشی منظرنامہ بالکل بدل گیا۔ آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے حکومت پنجاب نے کرونا کے دوران جن پالیسیوں کو اختیار کیا، انہیں ملکی ہی نہیں عالمی سطح پر بھی سراہا گیا۔ ہم نے 106 ارب روپے کا کرونا ریلیف پیکیج بھی دیا۔

س: شہباز شریف اور آپ کی وزارت اعلیٰ میں فرق کیا ہے؟

جواب: آپ بہت بہتر جانتے ہیں کہ کیا فرق ہے۔ ہم نے نمائشی منصوبوں کی بجائے یکساں ترقی کا ویژن اپنایا۔ سیاست کرنے کی بجائے عوام کی خدمت کا وطیرہ اپنایا۔ بیوروکریسی کو عزت دی۔ کام کرنے کی پوری آزادی دی۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ بیوروکریسی کو جو آزادی اور عزت آج کے دور میں مل رہی ہے ماضی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ارکان اسمبلی تو دور کی بات صوبائی وزرا بھی وزیراعلیٰ سے ملنے کے لیے کہیں ماہ منتظر رہتے لیکن اجازت نہیں ملتی تھی۔ ہم نے اپنے دروازے وزرا، ارکان اسمبلی حتی کہ عام آدمی کے لیے بھی کھول دیئے۔ ہم دوسروں کو عزت دیتے ہیں، ان کا احترام کرتے ہیں۔ آپ یہ بات کسی افسر یا کسی ایم پی اے سے پوچھیں۔

س: کہا جاتا ہے کہ لاہور کی حالت آپ کے دورِ حکومت میں بہت خراب ہوئی؟

جواب: میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات سیاسی مخالفین تو کہہ سکتے ہیں لیکن عام آدمی مطمئن ہے۔ لاہور میں ہم نے 62 ارب روپے کا تاریخی ترقیاتی پیکج دیا۔ نئے ہسپتال بن رہے ہیں، اوور ہیڈ برج اور انڈرپاسز بنائے جا رہے ہیں۔ نکاسی کے نظام کو بہتر بنا رہے ہیں ۔لاہور کا پہلا انڈرگراؤنڈ واٹر ٹینک ہم نے بنایا، جس کی وجہ سے سڑکوں پر کھڑے پانی کی نکاسی بہت تیزی سے ہوتی ہے اور کسی ہیٹ اور لانگ بوٹ پہن کر پانی میں نہیں اترنا پڑتا۔

س:  آپ کی کارکردگی پر بہت سے سوال اٹھائے جاتے ہیں تو کیوں عمران خان اس سب کے باوجود آپ پر اعتماد کرتے ہیں؟

س: دیکھیے مجھے جس مقصد کے لیے میرے قائد، میرے لیڈر جناب عمران خان صاحب نے ذمہ داری سونپی ہے، میں اس کو نبھانے کی پوری کوشش کر رہا ہوں۔ میں اور میری ٹیم دن رات کام کرتے ہیں۔ ہم نے عوام کی خدمت اور فلاح وبہبود کے لیے جو اقدامات کیے ہیں ماضی میں شاید ان کی مثال نہیں ملتی۔ وزیراعظم عمران خان اگر مجھ پر اعتماد کرتے ہیں تو یقیناً اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے اپنے آپ کو اعتماد کے قابل ثابت کیا۔

س: شہباز شریف کے دور کو یاد کریں تو بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے ذہن میں آتے ہیں۔ آپ کیا چاہیں گے کہ آپ کو کیسے یاد کیا جائے؟

جواب: اگر آپ محض میٹرو ٹرین کی وجہ سے یہ بات کہہ رہے ہیں تو آپ کی مرضی لیکن حقیقت یہ ہے کہ جتنے ترقیاتی منصوبے ہم لا رہے ہیں اور لائیں گے ماضی میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ کے لیے 360 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جس سے ترقی پنجاب کے ہر ضلعے تک پہنچے گی اور ہر شہر، ہر قصبے اورگاؤں تک جائے گی۔ ہم نے دیانتداری اور خلوص نیت سے اپنے فرض کو نبھایا۔ مجھے یقین ہے کہ پانچ سال پورے ہونے کے بعد پنجاب کا منظر نامہ یکسر تبدیل ہوچکا ہوگا اور پاکستان تحریک انصاف اپنی کارکردگی کی بنیاد پر اگلا الیکشن بھی جیت جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

س: عمومی تاثر ہے کہ سینٹرل پنجاب کے اراکین پی ٹی آئی آپ سے زیادہ خوش نہیں، کیا یہ ٹھیک ہے؟

جواب: میں نہیں سمجھتا کہ ایسی کوئی بات ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ ہم نے اپنے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ کسی بھی رکن اسمبلی کو کوئی بھی مسئلہ درپیش ہوتا ہے وہ میرے پاس آسکتا ہے۔ میری ٹیم یہاں بیٹھی ہے۔ ہمارے کہنہ مشق افسر تندہی سے ارکان اسمبلی کے عوامی مسائل حل کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ میں پورے پنجاب کا وزیراعلیٰ ہوں اور پورے پنجاب کے لوگوں کے مسائل حل کرنا میری ذمہ داری ہے اور میں یہ کر رہا ہوں۔ اگرکسی کو مجھ سے کوئی شکایت ہے تو میرے دروازے کھلے ہیں، جب چاہے تشریف لائیں۔ ہم ان کی بات ضرور سنیں گے۔

س: بیوروکریسی میں آئے دن اکھاڑ پچھاڑ کے باوجود ابھی تک معاملات بہتر نہیں ہوئے ایسا کیوں ہے؟

جواب: دیکھیے۔ ایسا نہیں حالات دن بدن بہتری کی جانب گامزن ہیں اور ٹرانسفر پوسٹنگ ایسی بات نہیں کہ اسے ایشو بنایا جائے، یہ سرکاری ملازمت کا حصہ ہے۔ جو افسر عوامی خدمت کے لیے پرفارم نہیں کرسکتا اسے تبدیل کرنا ضرورت بن جاتی ہے لیکن اس کے باوجود میں دوبارہ یہ ضرور کہوں گا کہ افسران کو کام کرنے کی جو آزادی آج کل میسر ہے، ماضی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

س: پنجاب میں چوہدری برادران، گورنر پنجاب کی انتظامی امور میں کتنی مداخلت ہے؟

جواب: ایسا بالکل نہیں، ہم سب اپنی آئینی حدود میں عوام کی خدمت اور فلاح وبہبود کے لیے اپنے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

س: سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی کے باوجود صوبے میں کوئی بڑی تبدیلی کیوں نظر نہیں آتی؟

جواب: کون سی بڑی تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں؟ اگر تبدیلی سے مراد ترقی ہے تو پنجاب کے اضلاع میں جا کر دیکھیں، دیہات میں جا کردیکھیں جہاں سڑکوں کے جال بچھائے جا رہے ہیں۔ ہسپتال، سکول اور کالجز اپ گریڈ ہو رہے ہیں۔ میں آپ کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ رواں مالی سے بجٹ میں پی ایس ڈی پی کی مد میں 89 ارب روپے سے زائد کے 13 بڑے ترقیاتی منصوبے پنجاب میں آ رہے ہیں۔ جب لوگوں کو آسانی ہوگی، سہولت ملے گی اور وہ خوش ہوں گے تو میں سمجھوں گا کہ تبدیلی آگئی۔ سچ بات تو یہ ہے کہ تبدیلی آچکی ہے۔

س: جنوبی پنجاب سے آپ کو سب سے زیادہ مینڈیٹ ملا اس کے باوجود جنوبی پنجاب کے لوگ بھی مطمئن نہیں اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب: یہ آپ سے کس نے کہا کہ جنوبی پنجاب کے لوگ مطمئن نہیں؟ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا سنگ بنیاد رکھاجاچکا ہے، بہاولپور اور ملتان میں عارضی سیکرٹریٹ کام کر رہے ہیں۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل آئی جی تعینات ہوچکے ہیں۔ ہم جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ میں سرکاری محکموں کی تعداد مزید بڑھا رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے لیے مختص بجٹ کی رنگ فینسنگ کردی گئی ہے اور اب اسے کہیں اور منتقل نہیں کیا جاسکے گا۔ پہلی مرتبہ جنوبی پنجاب سالانہ ترقیاتی پروگرام کی الگ بُک شائع کی گئی ہے۔ جنوبی پنجاب کے نوجوانوں کے لیے ہر ضلعے میں یونیورسٹی قائم کی جارہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ملازمتوں میں کوٹہ مختص کرنے کے لیے قانون سازی کی تجویز پر کام جاری ہے۔

س: صوبائی کابینہ سے کتنے مطمئن ہیں اور مزید بہتری کی گنجائش کس شعبے میں سمجھتے ہیں؟

جواب: دیکھیے بہتری کی گنجائش تو ہر وقت موجود ہوتی ہے۔ ہمارا مقصد عوام کی خدمت ہے۔ اگر کوئی اس معیار پر پورا نہیں اترتا تو اسے جانا ہوگا۔

س: ن لیگ آپ کو انشورنس کارڈ سمجھتی ہی ایسا کیوں ہے؟

جواب: ن لیگ کی مرضی ہے، وہ جو چاہے سمجھ لے لیکن میں پھر یہ ضرور کہوں گا کہ اگلا الیکشن ہم اپنی کارکردگی کی بنیاد پر جیتیں گے۔

س: مہنگائی پر قابو پانا اتنا مشکل کیوں ثابت ہو رہا ہے؟

جواب: مہنگائی بہت بڑا ایشو ہے لیکن اب اشیائے صرف کے نرخ کا گراف تیزی سے نیچے کی طرف آ رہا ہے۔ انشا اللہ مشکل وقت گزرنے والا ہے اوراچھا وقت تیزی سے آ رہا ہے۔

س: پنجاب میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟

جواب: ایسا بالکل نہیں ہے۔ پنجاب میں مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کا کلچر پنپ رہا ہے۔ ہم کسی کو مذہبی انتہاپسندی کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اگر کوئی ایسا کرے گا تو قانون تیزی سے حرکت میں آئے گا۔

س: سیاست میں کیوں آئے؟

جواب: سادہ سی بات ہے عوام کی خدمت کے لیے، لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے اوران کے دکھ دور کرنے کے لیے۔

س: عمران خان سے پہلا تعلق کیسا رہا تھا؟

جواب: عمران خان صاحب سے پہلی ملاقات متاثر کن تھی اور میں نے ان سے کسی وزارت یا منصب کی بجائے اپنے علاقے کے لوگوں کے مسائل کے حل کا مطالبہ کیا۔ شاید یہی بات انہیں اچھی لگی ہوگی۔

س: پی ٹی آئی ہی کیوں شامل ہوئے؟

جواب: پاکستان تحریک انصاف ہی واحد قومی سیاسی جماعت ہے، جس کی نمائندگی ملک بھر میں موجود ہے اور یہ عوام کی حالت بدلنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی باشعور سیاست دان آج کے دور میں اگر کسی جماعت کو پسند کرتا ہے تو وہ پی ٹی آئی کے علاوہ اور کون سی جماعت ہے۔

س: پڑھائی میں کیسے تھے؟

جواب: پڑھائی میں اچھا تھا۔ الحمداللہ، ماسٹرز کے بعد میں نے ایل ایل بی کیا۔

س: زندگی میں ایک کام جو کرنا چاہتے ہیں لیکن موقع نہیں ملا؟

جواب: بہت سارے کام کرنا چاہتا ہوں، آہستہ آہستہ مواقع بھی پیدا ہو رہے ہیں اور میں کر بھی رہا ہوں۔

س: زندگی کی ایک غلطی جو درست کرنا چاہتے ہوں؟

جواب: انسان غلطی کا پتلا ہے اورغلطی پر ڈھٹائی اختیار کرنے کی بجائے اسے سنوارنے پر توجہ دینی چاہیے۔ غلطی کا احساس ہوتے ہی میں فوراً اسے درست کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور کر بھی لیتا ہوں۔

س: زندگی میں سب سے زیادہ کس سے متاثر ہوئے؟

جواب: میرے والد محترم میرے ہی نہیں بلکہ پورے سلیمان رینج کے نوجوان سیاست دانوں کے آئیڈیل تھے۔ انہوں نے جھوٹی شان و شوکت کی بجائے اپنی زندگی عوام کی خدمت کے لیے وقف کر دی اور آخری دم تک اپنے علاقے کی ترقی اور لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے فکر مند رہا کرتے تھے۔

میں وزیراعظم عمران خان کے وژن سے بے حد متاثر ہوں۔ ان جیسا مخلص، دیانت دار اور باوقار سیاست دان پاکستان کی موجودہ تاریخ میں آپ کو ڈھونڈے سے نہیں ملے گا۔

س: بچوں کو کیا بنانا چاہیں گے۔ سیاست دان یا کچھ اور؟

جواب: بچے پڑھ رہے ہیں، وہ کیا بننا چاہتے ہیں، کیا کرنا چاہتے ہیں یہ ان کی خواہش ہے اورمرضی ہے۔ میں اس میں مداخلت ہرگز نہیں کروں گا۔ اگر مشورہ لینا چاہیں تو میں ان کی رہنمائی ضرور کروں گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست