’تاخیری حربے، سازش‘:غیرملکی میڈیا کی تحریک عدم اعتماد پر نظر

غیر ملکی میڈیا نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر شائع کی گئی رپورٹس میں حکومت کے ’مشکل میں ہونے‘ پر روشنی ڈالی ہے۔

چھ دسمبر 2021 کی اس تصویر میں وزیراعظم عمران خان   اسلام آباد میں کھیلوں کے پروگرام’ کامیاب جوان سپورٹس ڈرائیو‘ کے افتتاح کے لیے آتے ہوئے (فوٹو: وزیراعظم ہاؤس  آفیشل فیس بک پیج)

تحریک عدم اعتماد پاکستانیوں کے لیے کوئی نئی چیز نہیں کیونکہ ہر کچھ عرصے بعد کسی نہ کسی سیاسی عہدے پر بیٹھی شخصیت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جاتی رہتی ہے، لیکن اس کا حالیہ شکار وزیراعظم عمران خان ہیں۔

اپوزیشن کے لیے ’میں ان کو رلاؤں گا‘ جیسے جملے استعمال کرنے والے عمران خان اب خود بظاہر زیر عتاب ہیں۔ اگرچہ اپوزیشن نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد رواں ماہ آٹھ مارچ کو جمع کروائی لیکن اس ’عدم اعتماد‘ کی گونج اور چرچے ملک میں اس سے کافی پہلے سے سنائی دے رہے تھے۔

پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر تو ’عدم اعتماد‘ اور ’اعتماد‘ کی باتیں ہو ہی رہی ہیں لیکن اس معاملے کو غیر ملکی میڈیا نے بھی جگہ دی اور حالیہ دنوں میں وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے ’مشکل میں ہونے‘ کی گردان سنائی دی۔

’تاخیری حربے‘

بھارتی نیوز ایجنسی ایشیئن نیوز انٹرنیشنل (اے این آئی) نے 22 مارچ کو شائع کی گئی اپنی رپورٹ میں ’عمران خان کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کے پیش نظر تاخیری حربوں‘ کا تذکرہ کیا۔

اے این آئی نے اپنی رپورٹ میں پاکستانی آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ میں دائر صدارتی ریفرنس کو حکومت کا تاخیری حربہ قرار دیا، جس میں صدر عارف علوی نے سپریم کورٹ سے اس حوالے سے رائے مانگی ہے کہ اگر کوئی رکن اسمبلی اپنی سیاسی جماعت کے خلاف ووٹ دے تو اس کا مستقبل کیا ہوسکتا ہے۔ اس ریفرنس پر سماعت کے لیے عدالت عظمیٰ نے لارجر بینچ تشکیل دے رکھا ہے جس کی 24 مارچ کی سماعت میں چیف جسٹس آپ پاکستان عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ رکن قومی اسمبلی کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کے سلسلے میں وزیر اعظم کے خلاف ڈالے گئے ووٹ کو شمار نہ کرنا توہین آمیز عمل ہو سکتا ہے۔

واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان کو اپنی حکومت بچانے کے لیے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دوران 342 رکنی ایوان میں 172 اراکین کی حمایت کی ضرورت ہے، تاہم حالیہ دنوں میں حکمران جماعت کے کئی اراکین قومی اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل ہونے کی رپورٹس سامنے آئی ہیں۔ اگر ووٹنگ کے دوران عمران خان کو 172 سے کم ووٹ ملے تو حکومت کو مستعفی ہونا پڑے گا اور اس کے بعد نئی حکومت کی تشکیل کی جائے گی۔

دوسری جانب آٹھ مارچ کو تحریک عدم اعتماد جمع کروائے جانے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر 14 دن کے اندر اجلاس بلوانے کے پابند تھے، تاہم اسلام آباد میں جاری او آئی سی کانفرنس اور 23 مارچ کو یوم پاکستان کی تقریبات کو جواز بنا کر یہ اجلاس 25 مارچ کو بلائے جانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ اے این آئی نے اسے بھی عمران خان کی ہدایت پر ’ایک تاخیری حربہ‘ قرار دیا ہے۔

’دھمکیاں‘

برطانوی ویب سائٹ ’دی انڈپینڈنٹ‘ نے  22 مارچ کو شائع کی گئی اپنی ایک رپورٹ میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے حال ہی میں تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن کا ساتھ دینے والے اپنی پارٹی کے منحرف اراکین کو دی گئی ’دھمکیوں‘ کا تذکرہ کیا۔

عمران خان نے اتوار (20 مارچ) کو درگئی، مالاکنڈ میں ایک عوامی جلسے سے خطاب میں منحرف اراکین اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا: ’خدا کے لیے اپوزیشن کے ساتھ نہ جانا۔ آپ لوگوں کا شادیوں میں جانا مشکل ہوجائے گا۔ آپ کے بچوں سے کوئی شادی نہیں کرے گا۔ سکولوں میں آپ کے بچوں کا مذاق اڑایا جائے گا۔‘

عمران خان نے مزید کہا تھا کہ ان کے خلاف ووٹ دینے والے اراکین اسمبلی پر ’غدار‘ کا لیبل لگ جائے گا۔

وزیراعظم نے خود کو ’والد کی طرح‘ قرار دیتے ہوئے پارٹی اراکین سے کہا تھا: ’جو ایم این ایز غلطی کر بیٹھے ہیں، میں ان کو دعوت دیتا ہوں کہ واپس آجائیں۔ میں ان کو معاف کردوں گا۔ میں آپ کے باپ کی طرح ہوں۔ باپ اپنے بچوں کی غلطیاں معاف کردیتا ہے۔‘

’حکومت بچانے کی کوششں‘

امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے بھی 22 مارچ کو شائع کیے گئے اپنے ایک مضمون میں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے بعد وزیراعظم عمران خان کی ’حکومت بچانے کی کوششوں‘ پر روشنی ڈالی۔

نیویارک ٹائمز لکھتا ہے: ’کرکٹ کے میدان سے سیاست میں قدم رکھنے والے عمران خان نے اسلام آباد میں ہزاروں افراد پر مشتمل جلسہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے خلاف ووٹ دینے والے اراکین اسمبلی کی نااہلیت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے، جبکہ وہ خود پر تنقید کرنے والوں کو امریکی زیر اثر سازش کا حصہ قرار دیتے ہیں۔‘

رپورٹ میں ناقدین اور تجزیہ کاروں کے حوالے سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ }عمران خان پارلیمنٹ میں اکثریت کھو چکے ہیں اور ان اقدامات سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوگی۔‘

نیویارک میں واقع پولیٹیکل رسک ایڈوائزی کمپنی ’وزیئر کنسلٹنسی‘ کے صدر عارف رفیق کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں لکھا گیا ہے: ’وہ (عمران خان) درست طور پر جانتے ہیں کہ (حکومت کا) اختتام قریب ہے۔ اور وہ ایک فائٹر ہیں، لیکن واضح طور پر ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک سے نکلنے کے لیے مطلوبہ نمبرز (ووٹ) حاصل کر پائیں گے۔‘

’مغرب پر تنقید اور سازش‘

برطانوی اخبار ’دا گارڈین‘ نے 20 مارچ کو شائع کی گئی اپنی ایک رپورٹ میں تحریک عدم اعتماد کے بعد عمران خان کی جانب سے مغرب پر تنقید کو موضوع گفتگو بنایا۔

مذکورہ رپورٹ میں عمران خان کی حال ہی میں پنجاب میں منعقدہ ایک ریلی کا حوالہ دیا گیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مغربی رہنماؤں نے پاکستان کے ساتھ ’غلاموں‘ جیسا برتاؤ کیا اور یہ سوچا کہ ’جیسے وہ کہیں گے، ہم ویسا ہی کریں گے۔‘

دا گارڈین کے مطابق عمران خان کے خلاف متحد ہونے والی اپوزیشن جماعتوں نے ان پر ’بد انتظامی، معاشی نا اہلی اور مہنگائی میں اضافے‘ کے الزامات عائد کیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے ’حکمت عملی کے تحت مغرب پر تنقید‘ کا حربہ اپنایا ہے تاکہ وہ اپنی حکومت بچانے کے لیے حمایت حاصل کرسکیں۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا: ’عمران خان اور ان کے قریبی وزرا یہ بیانیہ اپنا رہے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد ان کے خلاف مغربی طاقتوں اور امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی سازش ہے تاکہ ان کی حکومت گرائی جاسکے، کیونکہ انہوں نے مغرب اور نیٹو کے اقدامات کی مزید حمایت سے انکار کردیا ہے۔‘

’سیاسی ٹکراؤ کی صورت حال‘

جرمنی کی نیوز ویب سائٹ ’ڈوئچے ویلے‘ (ڈی ڈبلیو) نے بھی وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے ایک تجزیاتی رپورٹ شائع کی، جس میں تھنک ٹینک ووڈرو ولسن سے منسلک مائیکل کوگل مین کے حوالے سے کہا گیا: ’عمران خان اس وقت صورت حال کی شدت کو جس طرح محسوس کر رہے ہیں، اپنے ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت میں انہوں نے اس سے پہلے کبھی ایسا محسوس نہیں کیا۔‘

وزیراعظم عمران خان اور اپوزیشن جماعتوں نے اسلام آباد میں ’پاور شو‘ کرنے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔ ڈی ڈبلیو نے اپنی رپورٹ میں سیاسی تجزیہ کاروں کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ ایک ہی وقت میں حکومت اور اپوزیشن کے جلسوں کے باعث مخالف سیاسی کارکنوں میں ٹکراؤ کی صورت حال بھی سامنے آسکتی ہے۔

اپنی رپورٹ میں ڈی ڈبلیو نے وزیراعظم عمران خان اور فوج کے تعلقات کے بارے میں بھی بات کی۔ اس حوالے سے مائیکل کوگل مین کا تبصرہ شائع کیا گیا، جن کا کہنا تھا: ’اگرچہ عمران خان نے انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ کو تبدیل کرنے کے معاملے پر فوج سے ٹکر لی، لیکن میرا خیال ہے کہ عمران خان کی قسمت کا فیصلہ بنیادی طور پر اراکین اسمبلی کے ووٹوں کی تعداد پر ہوگا۔‘

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ یوکرین پر روسی حملے کے تناظر میں عمران خان کے امریکہ اور یورپی یونین مخالف بیانات سے بھی ملک کی معیشت اور سکیورٹی پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔

’جمہوری اقدار کا احترام‘

ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے بھی اپنی ویب سائٹ پر وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے ایک تجزیاتی مضمون شائع کیا۔

اس مضمون کی مصنفہ اور ایچ آر ڈبلیو کی ایسوسی ایٹ ایشیا ڈائریکٹر پیٹریشیا گوس مین نے اس بات پر زور دیا کہ عدم اعتماد کی ووٹنگ کے دوران جمہوری اقدار کا احترام کیا جائے۔

پیٹریشیا لکھتی ہیں: ’حکومت کی ذمہ داری ہے کہ آئین کی پاسداری کرے اور دھمکیوں اور تشدد کے بغیر تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ کی اجازت دے۔‘

عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے ملکی اور بین الاقوامی میڈیا پر تو بہت سی آرا دی جا ہی رہی ہیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر یہ تحریک کامیاب ہوجاتی ہے تو پاکستانی سیاست کے پاس یہ ریکارڈ برقرار رہے گا کہ کوئی بھی حکومت آج تک اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر پائی ہے اور دوسرا وزیراعظم عمران خان وہ پہلے چیف ایگزیکٹو ہوں گے، جنہیں اراکین پارلیمنٹ نے عدم اعتماد کی ووٹنگ کے ذریعے بے دخل کیا۔

دوسری صورت میں نہ صرف پاکستانی سیاست پر لگا یہ دھبہ ہٹ جائے گا کہ یہاں کسی حکومت کو مدت پوری نہیں کرنے دی جاتی، وہیں عمران خان بھی سرخرو نظر آئیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست