پاکستان نے اب تک کون کون سی فلمیں آسکر کے لیے بھیجی ہیں؟

پاکستان نے آسکر ایوارڈ کے لیے 50 سال تک کوئی فلم بھیجی ہی نہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپنی فلموں سے کوئی خاص امید تھی ہی نہیں۔

زندگی تماشا 2020 میں پاکستان کی طرف سے آسکر ایوارڈز کے لیے بھیجی گئی مگر افسوس کہ نامزد نہ ہو سکی (کھوسٹ فلمز)

دنیا کے سب سے مشہور اور مستند مانے جانے والے اکیڈمی ایوارڈز (جنہیں آسکرز بھی کہا جاتا ہے) امریکی فلمی صنعت سے منسلک ہیں، مگر اس میں ایک کیٹیگری یا زمرہ ایسا ہے جہاں دوسرے ملکوں کی فلموں کو بھی اس سال کی بہترین فلم کے اعزاز سے نوازا جاتا ہے۔

آج تک پاکستان نے آسکرز کے لیے یہاں بننے والی دس فلمیں بھیجی ہیں۔ شاید یہ کہنا غیر ضروری ہے کہ آج تک کسی بھی پاکستانی فلم آسکر ایوارڈ جیتنا تو درکنار، نامزد تک نہیں ہو سکی۔

انگریزی کے علاوہ دوسری زبانوں پر مبنی فلموں کی نامزدگی کیسے ہوتی ہے اور آسکر ایوارڈ دینے کا فیصلہ کون کرتا ہے، اس سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ 1929  میں جب اکیڈمی ایوارڈز کا ڈول ڈالا گیا تو اس وقت پہلی بولتی فلم ’دا جاز سنگر‘ کو آئے ہوئے ابھی ایک ہی سال ہوا تھا اور بیشتر فلمیں خاموش ہوا کرتی تھیں، اس لیے زبان کی بنیاد پر کسی الگ شعبے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

ٹیکنالوجی کی ترقی سے فلمیں بکثرت مکالمے سے آلودہ/ آراستہ ہونے لگیں تو انگریزی کے علاؤہ دیگر زبانوں میں بننے والی فلموں کی پذیرائی کا الگ سے بندوست کرنا پڑا۔ 1947 سے 1955 کے دوران غیر منظم انداز سے بغیر تسلسل ایسی فلموں کو خصوصی ایوارڈ دیے گئے۔ اکیڈمی ایوارڈز نے بہت مقبولیت اور اعتبار حاصل کر لیا سو دیگر ممالک کی بڑی تعداد دلچسپی لینے لگی۔

 1956 میں بیسٹ فارن لینگوئج فلم ایوارڈ کے نام سے الگ کیٹیگری یا زمرے کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ذرائع ابلاغ میں تیزی اور عالمی گاؤں کے تصور کے بعد فلم کی عالمی برادری میں ’فارن‘ کا لفظ اپنا جواز کھو چکا تھا۔ 2020 سے اس کیٹیگری کو اکیڈمی کی جانب سے ’بیسٹ فارن لینگوئج فلم‘ کے بجائے ’بیسٹ انٹرنیشنل فیچر فلم‘ کا نام دے دیا گیا۔

پاکستان کی جانب سے بھیجی گئی فلموں کا ذکر کرنے سے پہلے ایک مختصر خاکہ پیش کرنا مناسب رہے گا کہ انٹرنیشنل فیچر فلم کی نامزدگی کا طریقہ کار کیا ہے اور حتمی فیصلہ کون کرتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس طریقہ کار کو بہتر بنانے کے لیے مختلف تبدیلیاں کی گئیں۔ ہم تازہ ترین اصول و ضوابط کو پیش نظر رکھیں گے۔

پہلے مرحلے میں ہر ملک اپنی بہترین فلم اکیڈمی کو بھیجتا ہے جس کے بارے میں اسے امید ہو کہ یہ آسکر جیت سکتی ہے۔

ہر سال ایک ملک ایک ہی فلم بھیج سکتا ہے جس کے انتخاب کا فیصلہ متعلقہ موضوع کے ماہرین پر مشتمل کمیٹی کرتی ہے۔

یہ پہلا مرحلہ ہے۔ جب فلم اکیڈمی کو موصول ہو جاتی ہے تو پھر اسے اکیڈمی کی جانب سے رائے شماری کے دو مراحل طے کرنا پڑتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں بین الاقوامی فیچر فلم کی ابتدائی کمیٹی تمام ممالک کی بھیجی گئی فلمیں دیکھتی اور خفیہ رائے دہی سے 15 فلمیں منتخب کرتی ہیں۔

پھر یہ 15 فلمیں بین الاقوامی فیچر فلم نامزد کرنے والی کمیٹی کے سامنے پیش ہوتی ہیں جو دیکھنے کے بعد خفیہ رائے دہی سے پانچ بہترین فلموں کا انتخاب کرتی ہے۔ بہترین بین الاقوامی فیچر فلم کا انتخاب اکیڈمی کے مستقل اور فعال ارکان پانچوں نامزد فلمیں دیکھنے کے بعد خفیہ ووٹنگ سے کرتے ہیں۔

بہترین بین الاقوامی فیچر فلم کا ایوارڈ کوئی پاکستانی تو کیا بھارتی فلم بھی نہ جیت سکی۔ البتہ ’مدر انڈیا‘ (1957)، ’سلام بامبے‘ (1988) اور ’لگان‘ (2001) فائنل مرحلے تک ضرور پہنچیں۔ محبوب خان کی ’مدر انڈیا‘ بس ذرا سا چوک گئی۔ ایک ووٹ کے فرق سے نامور اٹالین ہدایت کار فلینی کی فلم ’نائٹس آف کیبیریا‘ (Nights of Cabiria) ایوارڈ لے اڑی۔ اور تو اور، بھارت کی طرف سے بین الاقوامی سطح پر جانے مانے بنگالی فلم ساز ستیہ جیت رائے کی فلمیں تین بار بھیجنے کے باوجود کبھی حتمی نامزدگی تک نہ پہنچ سکیں جو حیرت ناک ہے۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو صورت حال اتنی ہی حوصلہ افزا ہے جتنی بحیثیت مجموعی پورے ملک کی۔ اس کیٹیگری کا آغاز ہونے کے محض تین سال بعد 1959میں پاکستان نے پہلی فلم بھیجی۔ دوبارہ اچانک 1963 میں خیال آیا تو ایک فلم پرے اکیڈمی کی طرف دھکیل دی گئی۔ ’اس کے بعد اک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور۔‘

پوری نصف صدی کے وقفے کے بعد ایسی زحمت 2013 میں گورا کی گئی۔ 1959 میں پہلی فلم بھیجنے کے بعد سے 2020 تک 61 برس کے دوران پاکستان نے کل دس فلمیں بھیجیں۔ خود آگاہی کے ایسے مقام پر شاید ہی کسی اور ملک کا سینیما پہنچ سکا ہو۔ آئیے ان دس فلموں کا ذکر کرتے ہیں جنہیں پاکستان کی طرف سے بہترین انٹرنیشنل فیچر فلم کے لیے بھیجا گیا۔

1 جاگو ہوا سویرا (1958)

پاکستان میں آرٹ فلموں کی بنیاد رکھنے والی اے جے کاردار کی یہ فلم پاکستان کی طرف سے آسکر کے لیے پہلی انٹری تھی۔ ستیہ جیت رائے کی سماجی حقیقت نگاری سے متاثر ’جاگو ہوا سویرا‘ کا موضوع بنگلہ دیشی ماہی گیروں کے مسائل تھے۔

اس فلم کی کہانی، مکالمے اور گیت فیض احمد فیض نے لکھے جبکہ عکس بندی کے فرائض 1965 میں آسکر جیتنے والے مشہور سینماٹوگرافر والٹر لیسیلی نے انجام دیے تھے۔

جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے یہ ایک انقلابی فلم تھی اسی لیے ایوب خان کی طرف سے اس کی تشہیر اور نمائش میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ جب لندن میں فلم کی نمائش کا فیصلہ کیا گیا تو حکومت پاکستان نے اپنے ہائی کمشن کو بائیکاٹ کا حکم دیا۔ پاکستان کا یہ حکمران طبقہ سینیما، آرٹ اور کلچر سے ہمیشہ ایسا ہی سلوک کرتا رہا ہے۔

ماسکو میں انٹرنیشنل ایوارڈ جیتنے والی اس فلم کے پرنٹ وقت کی دھول میں کھو چکے تھے۔ 2006 میں اس کے مختلف حصے بازیافت کیے گئے جنہیں 2010 تک قابل دید حالت میں تیار کر لیا گیا۔ اب یوٹیوب پر یہ فلم موجود ہے۔

2 گھونگھٹ (1962)

سنتوش کمار اور نیریا سلطانہ کو مرکزی کردار میں لے کر یہ فلم نامور موسیقار خواجہ خورشید انور نے بنائی۔ فلم کی کہانی، سکرین پلے اور بالخصوص موسیقی میں انتہائی نمایاں مقام حاصل کرنے کے بعد خواجہ صاحب نے پہلی بار اس فلم کے ذریعے ہدایت کاری میں ہاتھ آزمایا۔

 آسکر کے لیے نامزد نہ ہو سکنے والی اس فلم کو موسیقی، اداکاری، عکس بندی اور ایڈیٹنگ کے شعبوں میں چار نگار ایوارڈ ملے تھے۔

3۔ زندہ بھاگ (2013)

یہ فلم غربت کے ہاتھوں تنگ ایسے نوجوانوں کی کہانی ہے جو ڈنکی لگا کر (غیر قانونی طریقے سے) کسی دوسرے ملک پہنچنا چاہتے ہیں۔ پنجابی زبان میں بننے والی اس فلم کی ہدایت کار مینو گوہر اور فرجاد نبی جبکہ پروڈیوسر مظہر زیدی تھے۔

50 سال بعد پاکستان نے کوئی فلم آسکر نامزدگی کے لیے بھیجی تھی لیکن مجال ہے اکیڈمی نے کسی رو رعایت سے کام لیا ہو۔ نصف صدی بعد ہمارا معیار اوپر جا سکا نہ اکیڈمی کا نیچے آ سکا۔ خیر ہمیں اکیڈمی کی کیا ضرورت اپنا آے آر وائے ہے نا۔ ویسے بھی زندہ بھاگ اکیڈمی ایوارڈز میں تو محض ایک بار نامزد ہو سکتی تھی جبکہ اے آر وائے فلم میلے میں 19 نامزدگیاں حاصل کیں۔ اب آپ خود ہی بتائیں ایک زیادہ ہے کہ 19؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

4 دختر (2014)

کم عمری میں بچیوں کی شادی ہماری معاشرتی روایات میں کوئی نئی بات نہیں۔ البتہ ماضی کی نسبت اکیسویں صدی میں اس موضوع پر کھل کر لکھا، بولا اور دکھایا جا رہا ہے۔ دختر بھی ایک ایسی ہی کہانی پردے پر پیش کرتی ہے۔  قبائلی جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے ایک سردار اپنی بیٹی کو شادی کی شکل میں ’پیش‘ کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ ماں اور بیٹی اس وحشت سے بچنے کے لیے بغاوت کرتے ہوئے گھر سے بھاگ نکلتی ہیں۔

کہانی میں تھرل برقرار رکھنا کسی بھی ہدایت کار کا کمال ہوتا ہے اور عافیہ نتھینیل اس میں کامیاب رہیں۔ یہ فلم بھی آسکر کے لیے نامزدگی حاصل کرنے میں ناکام رہی۔

5 مور (2015)

وادی ژوب کی بند ہونے، بلوچستان میں ریلوے سسٹم کے مسائل اور وڈیرہ شاہی کلچر کو پردے پر اتارتے ہوئے جامی کی مور دراصل ریٹائرڈ سٹیشن ماسٹر کی مشکلات پیش کرتی ہے۔

2015  میں یوم آزادی پر نمائش کے لیے پیش کی جانی والی اس فلم کی خاص بات فرحان حفیظ کی سینماٹوگرافی ہے۔ بلوچستان اور سندھ کے خوبصورت مناظر اتنے مسحور کن ہیں کہ تھوڑی دیر کے لیے آپ سب کچھ بھول جاتے ہیں، یہاں تک کہ فلم کی کہانی اور کردار بھی۔ یہی اس فلم کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

لیکن آسکر کمیٹی والے ہماری طرح مناظر میں کھونے سے باز رہے اور انہوں نے اس کی بجائے پلاٹ، اداکاری، کردار نگاری، مکالمے وغیرہ جیسی چھوٹی موٹی چیزوں پر توجہ دے کر اسے نامزدگی سے محروم رکھا۔

6 ماہ میر (2016)

ہمارے عہد کے عمدہ شاعر اور اپنے ڈھب کے انتہائی دلچسپ آدمی سرمد صہبائی کی تحریر کردہ یہ فلم انجم شہزاد نے ڈائریکٹ کی۔

یہ ایک ایسے شاعر کی کہانی ہے جسے میر کی وحشت اپنی جانب کھینچتی ہے اور آہستہ آہستہ یہ رنگ اس کی اپنی زندگی میں گہرا ہونے لگتا ہے۔

اس فلم کے مرکزی کرداروں میں فہد مصطفیٰ، ایمان علی، منظر صہبائی اور صنم سعید شامل تھے جسے فنون لطیفہ سے وابستہ افراد نے خوب سراہا۔ گمان گزرتا ہے کہ آسکر کمیٹی میں اردو جاننے والا کوئی ضرور موجود تھا جس نے سوچا کہ بھلا میر تقی میر جیسے کائنات شاعر کی زندگی پر بننے والی فلم میں خود مصنف کی پھیکی مقامی آزاد نظمیں شامل کرنے کی کیا تک بنتی ہے؟ اس لیے آسکر کے لیے بھیجی گئی اس فلم کے ساتھ بھی وہی ہوا جو دیگر پاکستانی فلم کے ساتھ ہو چکا تھا۔

7 ساون (2017)

فرحان عالم کی تجسس سے بھرپور فلم ’ساون‘ ایک معذور بچے کی کہانی ہے جو بلوچستان کے دور دراز علاقے میں زندگی کی جنگ لڑتا ہے۔ فلم میں بچے کا مرکزی کردار بہت جاندار ہے لیکن ذیلی بیانیے اس کی اثر پذیری کم کر دیتے ہیں۔ اگر چوں چوں کا مربہ بنانے کے بجائے مرکزی کردار پر ہی توجہ مرکوز رکھی جاتی تو یقیناً یہ بہت عمدہ فلم ہوتی۔

اس فلم کا سکرپٹ مشہود قادری نے لکھا جبکہ عاصمہ قادری کے اشتراک کے ساتھ وہ خود ہی پروڈیوسر بھی تھے۔ سلیم معراج، سید کرم عباس، ٹیپو شریف اور عمران اسلم اس فلم کے ستارے تھے جنہیں ٹیٹ فلیکس پر جگمگاتے یا ٹمٹماتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سال بھی آسکر منصفین کی طرف سے کوئی اچھی خبر نہیں ملی تھی۔

8 کیک (2018)

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ ایک ہلکی پھلکی فلم تھی جس کے ہدایات کار اس کے مصنف عاصم عباسی خود تھے۔ صنم سعید، آمنہ شیخ اور عدنان ملک وغیرہ کراچی میں بسنے والے ایک زمیندار گھرانے کے کردار نبھاتے نظر آتے ہیں۔

اس فلم کی ایک خاص بات کلائمکس سین ہے جو مسلسل دس منٹ ایک ہی شاٹ میں عکس بند کیا گیا۔ کئی کرادار اور کمرے بدلتے ہیں لیکن اس دوران ہدایت کار’کٹ‘ نہیں کہتا۔

باکس آفس پر نسبتاً اچھی کمائی کرنے والی اس فلم کو مقامی ناقدین نے سراہا لیکن آسکر کمیٹی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔

9 لال کبوتر (2019)

کمال خان کی ہدایت کاری میں بننے والی لال کبوتر کا سکرین پلے علی عباس نقوی نے لکھا جب کہ پروڈیوسر کامل چیمہ اور ہانیہ چیمہ تھیں۔ منشا پاشا نے عالیہ کا کردار ادا کیا جو اپنے صحافی شوہر کو اپنے سامنے قتل ہوتا دیکھتی ہے۔ عالیہ کی جدو جہد اپنے مقتول شوہر کو قتل کرنے والے فرد کے گرد گھومتی ہے لیکن اس دوران اس کی ملاقات عدیل سے ہوجاتی ہے۔

 لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا عدیل کسی طرح دبئی جا کر ڈھیر سارا پیسہ کمانا چاہتا ہے۔ اس کردار کے لیے احمد علی اکبر کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا تھا۔ عالیہ اور عدیل کی ملاقات سے کیا برآمد ہوتا ہے؟ جانا چاہیں تو فلم دیکھ لیجئے۔

 چار لکس سٹائل ایوارڈ جیتنے والے یہ فلم آسکر کی دوڑ میں تاریخ رقم نہ کر سکی۔ 

 10 زندگی تماشا (2020)

جیسے ہی اس فلم کا ٹریلر یوٹیوب پر آیا شدت پسند طبقے نے آسمان کھڑا کر دیا۔ خادم حسین رضوی نے توہینِ مذہب کے الزامات لگائے، کھلی دھمکیاں دیں اور فلم کی ریلیز تماشا بن گئی۔

مزید ظلم یہ کہ زندگی تماشا کے ہدایت کار سرمد کھوسٹ اور ان کی ٹیم میڈیا اور متعلقہ فورمز پر تن تنہا اپنا مقدمہ لڑتی نظر آئی۔ ریاستی رویہ سرمہری بلکہ حسب روایت بہت حد تک مذہبی طبقے کا ہمنوا رہا۔

 فلموں کے معیار سے قطع نظر ماضی میں سینیما کا ایک پورا کلچر موجود تھا۔ فنون لطیفہ کے دیگر شعبوں کی طرح فلم سازی بھی ستر کی دہائی کے اواخر میں زوال کا شکار ہونے لگی۔ کسی بھی انتہا پسند معاشرے کی طرح ہم جنونی مریض پیدا کر رہے ہیں۔ اگر اس کا آسکر میلا سجے تو مشکل ہے ہم کسی کو آگے نکلنے دیں۔


بعض تکنیکی مسائل کی وجہ سے ہماری ویب سائٹ پر کچھ لفظ درست طریقے سے دکھائی نہیں دے رہے۔ ہم اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ادارہ اس کے لیے آپ سے معذرت خواہ ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم