نسل کشی کیا ہے اور اس کا مقدمہ کیسے لڑا جاتا ہے؟

یوکرین کے رہنماؤں نے روسی فوج کے اقدامات کو نسل کشی سے تعبیر کیا ہے۔ مگر نسل کشی کی قانونی تعریف کیا ہے اور اس جرم پر سزا دینے کا اختیار کس کو ہے؟

پانچ مارچ 2022 کو ویانا میں یوکرین پر روسی حملے کے خلاف مظاہرہ (اے ایف پی)

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے خبردار کیا ہے کہ روس ان کے ملک میں نسل کشی کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ بات انہوں نے بوچا شہر کی گلیوں میں 20 شہریوں کے مردہ حالت میں پائے جانے، جن میں سے بعض کے ہاتھ پاؤں بندھے تھے، اور سٹیلائٹ کی مدد سے کھینچی گئی تصاویر کے بعد کہی جن میں اجتماعی قبر کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔ 

سوموار کے دن صدر زیلنسکی نے قصبے کا جذباتی دورہ کیا جہاں انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

 ان کی نسل کشی والی بات سے اتفاق کرتے ہوئے بدھ کے روز برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے بھی تقریباً ایسی ہی بات کی ’مجھے خدشہ ہے بوچا میں جو کچھ ہو رہا ہے، یوکرین میں پوتن کے کیے گئے اقدامات کے بارے میں جو انکشافات سامنے آ رہے ہیں، میرے نزدیک وہ نسل کشی سے کم نہیں۔‘ 

ولادی میر پوتن کے حملے کا پانچواں ہفتہ جاری ہے اور اس دوران مسلسل روسی فوج پر یوکرین میں جنگی جرائم کا الزام عائد کیا جا رہا ہے کیونکہ اس نے خارکیو اور ماریوپول جیسے بڑے شہروں کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور ان پر شدید گولہ باری کر رہی ہے۔ 

بچوں کی دیکھ بھال کے مراکز، زجگی کے لیے مخصوص ہسپتال، رہائشی اپارٹمنٹس، ایک کمیونٹی تھیئٹر، ایک شاپنگ سنٹر اور ہولوکاسٹ کی ایک یادگار ان مقامات میں شامل ہیں جنہیں روسی میزائل اب تک زمین بوس کر چکے ہیں اگرچہ روس اس بات کی ترید کرتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔

 روسی فوجیوں پر جنگی حکمت عملی کے تحت ریپ، تشدد اور قتل جیسے اقدام میں ملوث ہونے کا بھی الزام ہے، ایک غیر انسانی حربہ جو نہتے شہریوں کو نشانہ بناتا ہے، جسے ریڈ آرمی نے دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی جرمنی کو گھیرے میں لینے کے بعد آزمایا تھا اور جس کا اصل مقصد یوکرین کے لوگوں کے حوصلے پست کرنا ہے۔

 نیدرلینڈز کے شہر ہیگ میں واقع بین الاقوامی فوجداری عدالت (انٹرنیشنل کرمنل کورٹ) کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان نے پہلے ہی ان الزامات کی یہ کہتے ہوئے تحقیقات کا اعلان کیا ہے کہ ’مجھے یہ سچ معلوم ہوتا ہے کیونکہ یوکرین میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف مظالم کے مبینہ الزامات پر یقین کرنے کی بہت سی معقول بنیادیں موجود ہیں۔‘ 

مسٹر زیلنسکی کی نائب وزیر اعظم اولہا سٹیفانیشینا نے گزشتہ ماہ ایسا ہی الزام لگایا تھا جب وہ اتوار کو اسکائی نیوز پر سوفی رج پر نمودار ہوئی تھیں۔ اور ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ روس کے وحشیانہ حربوں کو نسل کشی کے مترادف سمجھتی ہیں، ان کا جواب تھا ’میں واقعی ایسا سمجھتی ہوں۔ میں خود ایک وکیل ہوں اور میں اس فیصلے پر عمل درآمد کا عزم کرتی ہوں۔ 

’یہ بہت اہمیت کا حامل ہے کہ دنیا بھر کے تمام سیاسی رہنما متحد رہیں اور جنگ مخالف اتحاد قائم کریں۔ صرف ایسی مشترکہ کاوش ہی ہمارے لیے اکیسویں صدی میں اس قدر وسیع پیمانے پر ہونے والی نسل کشی اور قتل و غارت کے آگے بند باندھنا ممکن بنائے گی۔‘ 

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا، ’پوتن اور روسی بدترین مجرم ہیں۔ ان کے ہاتھ بدترین جرائم سے رنگے ہیں اور وہ حکمت عملی کے تحت یوکرین کی آبادی کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

’یوکرین یہ بات یقینی بنانے تک مزاحمت کرتا رہے گا کہ اکیسویں صدی میں اس کی سرزمین پر دہشت گردی، قتل عام اور نسل کشی نہ ہو۔ لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ محض یوکرینی فوج اور یوکرینی صدر تن تنہا مقابلہ نہیں کر سکتے۔‘ 

22 مارچ کو اسرائیل کی پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران مسٹر زیلنسکی نے وہاں موجود اراکین پارلیمان کو متنبہ کرتے ہوئے گذشتہ صدی کی ہولناکیوں کا ذکر کیا اور کہا کہ صدر پوتن یوکرین کے خلاف ایک ’مستقل بندوست‘ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اس دوران زیلنسکی نے پوتن کے حربوں کو واضح انداز میں نازیوں کی قتل عام کی مہم سے تشبیہ دی جس میں حراستی کیمپوں کے اندر ساٹھ لاکھ یورپی یہودی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

 بابی یار کی یادگار پر روسی حملے کا ذکر کرتے ہوئے، جہاں 1941 میں نازیوں نے 30 ہزار یہودی ہلاک کیے تھے، زیلنسکی نے اپنے اسرائیلی سامعین سے کہا ’آپ بخوبی جانتے ہیں اس مقام کا کیا مطلب ہے جہاں ہولوکاسٹ کے متاثرین دفن ہیں۔ 

مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ایسے بہت سے انکشافات کے باوجود پوتن دعوی کرتے ہیں کہ یوکرین میں ان کے ’خصوصی عسکری آپریشن‘ کا اصل مقصد نسل کشی کو روکنا ہے، بے بنیاد الزام لگاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ مشرقی دونباس میں آٹھ برس کی لڑائی کے بعد یوکرینی حکومت دونیتسک اور لوہانسک میں موجود روس نواز علیحدگی پسندوں کو ملیا میٹ کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں ان کے حملے کا مقصد علاقائی سلامتی کے وسیع تر مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے خطے کو ’عسکریت پسندوں اور نازیوں کے اثرات سے پاک‘ کرنا ہے۔ یہ ہولوکاسٹ میں اپنے خاندان کے افراد کھو دینے والے یہودی صدر کی زیر قیادت جمہوری حکومت کے خلاف ایک غیر معمولی دعوی ہے۔ 

اس کے جواب میں یوکرین نے عالمی عدالت انصاف میں ایک مقدمہ دائر کیا ہے جس میں کہا گیا کہ روس اپنے حملے کو جواز فراہم کرنے کے لیے اس اصطلاح کا غلط استعمال کر رہا ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے 16 مارچ کو فیصلہ سنایا کہ روس کو اپنا عسکری آپریشن فوراً بند کرنا چاہیے، اس عدالتی حکم نامے کو ابھی تک مسترد کرتے ہوئے مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 امریکی صدر جو بائیڈن نے تب سے پوتن کو ’جنگی مجرم‘ قرار دیتے ہوئے باقاعدہ طور پر بحرالکاہل کے واقعات اور روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے درمیان واضح اشتراکات ڈھونڈتے ہوئے کہا کہ میانمار کی حکومت کا حالیہ عرصے میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی پر ڈھایا گیا ظلم و ستم بھی نسل کشی کے مترادف ہے۔ 

نسل کشی ہے کیا؟

لیکن نسل کشی کی اصل تعریف کیا ہے اور اس کے خلاف مقدمہ کیسے دائر کیا جاتا ہے؟ 

جیسا کہ اقوام متحدہ کا دفتر برائے انسدادِ نسل کشی یاد دلاتا ہے کہ یہ لفظ پہلی مرتبہ حقوق انسانی کے پولش قانون دان رافیل لیمکن نے اپنی کتاب Axis Rule InOccupied Europe (1944)  میں یونانی سابقہ genos  (جس کا مطلب ہے قبیلہ یا نسل) اور لاطینی لاحقہ cide  (جس کا مطلب ہے قتل) ملا کر وضع کیا تھا۔ 

کیمپوں میں اپنے بھائی کے علاؤہ سب کو کھو دینے والے ڈاکٹر لیمکن یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ نازی ’تھرڈ رائخ‘ کی حکومت نے منظم مظالم کے ذریعے یہودیوں کا قتل عام کیا اور وہ اس کا تعلق انسانی تاریخ میں پھیلی ہوئی منظم بربریت کے ساتھ جوڑ رہے تھے۔ 

اس کے بعد انہوں نے اپنی زیر قیادت ایک مہم چلائی کہ اسے عالمی جرم کے طور پر تسلیم کیا جائے اور اس کے قوانین کی تدوین کی جائے۔ اس کے بعد اس نے اس مہم کی قیادت کی تاکہ جرم کو بین الاقوامی جرم کے طور پر تسلیم کیا جائے اور اس کی تصدیق کی جائے، یہ کہانی فلپ سینڈز کی حالیہ کتاب ایسٹ ویسٹ سٹریٹ (2016) میں بیان کی گئی ہے۔ 

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1946 میں پہلی بار نسل کشی کو ایک بین الاقوامی جرم کے طور پر تسلیم کیا اور اقوام متحدہ کا نسل کشی معاہدہ (Genocide Convention) 9  دسمبر 1948 کو تیار ہوا جسے 12 جنوری 1951 کو نافذ کیا گیا اور ابھی تک 152 ملک اس کی توثیق کر چکے ہیں۔ 

اس معاہدے کی پہلی شق کے مطابق نسلی کشی حالت جنگ اور حالت امن میں بین الاقوامی اور ملکی دونوں سطح پر ممکن ہے۔ 

دوسری شق اس عمل کی وضاحت کرتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں کہتی ہے کہ اگر ’مندرجہ ذیل میں سے کوئی بھی فعل کسی قومی، نسلی، لسانی یا مذہبی گروہ کو جزوی یا کلی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے کیا گیا ہو‘ تو وہ نسل کشی کے زمرے میں آئے گا: 

گروہ کے ارکان کو قتل کرنا

گروہ کے ارکان کو شدید جسمانی یا ذہنی نقصان پہنچانا

گروہ کیلئے عمداً ایسے حالات پیدا کرنا جو مجموعی یا جزوی طور پر اس گروہ کی تباہی کا باعث بنیں

گروہ کے اندر بچوں کی پیدائش روکنے کے اقدام نافذ کرنا

گروہ کے بچوں کو جبری طور پر دوسرے گروہ میں منتقل کرنا

 تیسری شق ان پانچ جرائم کا خاکہ پیش کرتی ہے جن میں نتیجتاً سزا دی جا سکتی ہے: 

نسل کشی

نسل کشی کی منصوبہ بندی

براہ راست اور کھلم کھلا نسل کشی کے لیے اکسانا

نسل کشی کی کوشش کرنا

نسل کشی میں معاونت کرنا

 تاہم انتہائی محدود تعریف اور مخصوص حالات پر لاگو کرنے کے لیے کڑی شرائط کی وجہ سے مسلسل اس معاہدے کو تنقید کا سامنا رہتا ہے۔ بعض لوگوں کو یہ شکایت بھی ہے کہ اس میں سیاسی یا سماجی گروہوں یا ماحولیاتی یا بنیادی ثقافتی ڈھانچے کی پامالیوں کا ذکر نہیں جس پر کسی گروہ کی بقا کا انحصار ہوتا ہے۔ 

جبکہ کچھ دیگر افراد کا کہنا ہے کہ اس کی ’معقول شک و شبہ سے بالاتر‘ ثبوت کی شرط بہت زیادہ سخت معیار ہے جس کے سبب اس پر مقدمہ چلانا انتہائی مشکل ہے۔

 میدساں ساں فرنتیر کے سابق سیکرٹری جنرل ایلن ڈیسٹیکسے سمیت کچھ دیگر افراد اس اصطلاح پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسے سیاسی درجہ حرارت میں بیان بازی کے لیے انتہائی سہولت سے استعمال کیا گیا جس سے اُس جرم کی شدت معمولی ہو کر رہ گئی جس کے لیے یہ وضع کی گئی تھی۔ 

بعض لوگوں کا خیال ہے معاہدے کی شرائط کے مطابق ہولوکاسٹ بیسویں صدی کی واحد حقیقی نسل کشی تھی۔ جبکہ باقی لوگ دلائل کی بنیاد پر ثابت کرتے ہیں کہ 1915-20 کے درمیان عثمانی ترکوں کے ہاتھوں آرمینیائی باشندوں کا قتل عام، 1932-33 کے دوران یوکرین میں سوویت یونین کا انسانی ساختہ قحط، مشرقی تیمور پر انڈونیشیا کا حملہ، 1970 کی دہائی میں کمبوڈیا کے اندر خمیر روژ کا قتل عام، 1994 میں روانڈا اور 1995 میں بوسنیا میں ڈھائے جانے والے مظالم بھی ممکنہ طور پر اس میں شمار ہو سکتے ہیں۔ 

ماضی قریب میں عراق اور شام کے اندر عیسائی، یزیدی اور شیعہ اقلیتوں پر داعش کا ظلم و ستم بھی نسل کشی سمجھا جا سکتا ہے، بالکل جس طرح روہنگیا پر میانمار کا حملہ۔ 

نسل کشی کے خلاف مقامی یا قومی عدالتوں کا در کھٹکھٹایا جا سکتا ہے یا پھر انٹرنیشنل کریمنل کورٹ یا خصوصی طور پر قائم کیے گئے بین الاقوامی فوجداری ٹربیونلز سے رجوع کیا جا سکتا ہے جس کی مشہور مثال 1945-46 کے دوران اعلی عہدوں پر فائز نازی افسران کے خلاف نورمبرگ ٹرائلز ہیں۔ 

انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی بنیاد بننے والا 1989 کا ’معاہدۂ روم‘ بھی اپنے آرٹیکل چھ کے تحت نسل کشی کی وہی تعریف تسلیم کرتا ہے جو اقوام متحدہ کے 1948 والے معاہدے میں درج ہے اور انسانیت کے خلاف جرائم، جنگی جرائم اور کرائم آف ایگریشن کے ساتھ ساتھ  اسے بھی انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی دائرہ کار میں شامل کرتا ہے۔ 

یہ ادارے اپنی تحقیقات اور قانونی چارہ جوئی میں خودمختار ہیں۔ جب ان کے اکٹھے کیے گئے شواہد کی بنا پر کسی شخص کے خلاف مقدمہ درج ہو جائے تو اسے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں ججوں کے پینل کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے اور جب تک وہاں مجرم ثابت نہ ہو جائے تب تک بے گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ 

بطور گواہ پیش ہونے والے کسی بھی شخص کی سہولت کو دیکھتے ہوئے ایسے مقدموں کی سماعت دونوں طرح سے کھلے عام یا بند کمروں میں ہو سکتی ہے۔ 

 مجرم ثابت ہونے والے شخص کو جرم کی شدت کے مطابق تیس سال تک کی طویل مدتی سزا یا عمر قید بھی سنائی جا سکتی ہے۔ یہ عدالتیں سزائے موت دینے کا اختیار نہیں رکھتیں۔ 

اقوام متحدہ کے معاہدے کے تحت نسل کشی کا مجرم قرار پانے والا پہلا شخص روانڈا کے شہر تابا کا ہوتو میئر ژان پال اکاینسو تھا جسے دو ستمبر 1998 میں روانڈا کے لیے مخصوص بین الاقوامی فوجداری ٹربیونل نے تاریخی فیصلے میں سزا سنائی تھی۔ اسی تنازع میں ان کے بعد مزید دیگر 29 افراد کو بھی نسل کشی کے جرم میں سزائیں سنائی گئیں تھی۔ 

بوسنیا کے سرب کمانڈرز رادیسلاو کرستچ اور راتکو ملادچ کو بھی بالترتیب 2001 اور 2007 میں نسل کشی کا مجرم ٹھہرایا گیا تھا۔ اسی طرح 2018 میں انتہائی عمر رسیدہ نوون چیا اور خیو سیمفان کو خمیر روژ میں ملوث ہونے کے سبب سزائیں سنائی گئی تھیں۔  

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا