بلوچستان میں یونیورسٹیز ایکٹ کی مخالفت کیوں ہے؟

اس ایکٹ میں پرو وائس چانسلر کی تقرری کا اختیار بھی وزیر اعلیٰ کو دیا گیا ہے۔

پاکستانی طلبہ 3 اگست 2012 کو کوئٹہ کی ایک یونیورسٹی سے کلاسیں لے کر باہر نکل رہے ہیں (تصویر: اے ایف پی فائل)

بلوچستان میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے حوالے سے صوبائی اسمبلی نے بلوچستان یونیورسٹیز کے مسودہ قانون کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت اب کسی بھی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تقرری کا اختیار گورنر کے بجائے وزیراعلیٰ کے پاس ہوگا۔

یہ قانون سازی 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کے اختیارات میں تبدیلی کے تحت لائی گئی ہے۔

جہاں ایک طرف اسمبلی میں بعض اراکین کی طرف سے اس بل کی مخالفت کی گئی وہیں تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ جمہوری عمل کی تقویت اور اختیارات کی منتقلی کا عمل مثبت قدم ہے، جس کو بہت پہلے ہونا چاہیے تھا۔

فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشنز (فپواسا) بلوچستان چیپٹر کے صدر فرید خان اچکزئی نے تو اس ایکٹ کو ’تعلیم دشمن‘ قرار دیا ہے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے فرید اچکزئی نے کہا کہ ’اس میں گورنر سے اختیارات لینے کے علاوہ بعض شقوں پر ہمیں اعتراضات ہیں، جس کے حوالے سے ہم سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔‘ 

انہوں نے کہا کہ اس ایکٹ کو بنانے کے دوران ہمیں آن بورڈ نہیں لیا گیا، نہ ہی طلبہ طالبات، اساتذہ سے کوئی رائے لی گئی۔ اس کے مستقبل میں خطرناک نتائج سامنے آئیں گے۔ 

’ہم نے اس حوالے سے بلوچستان اسمبلی کے ممبران سے بھی بات کی اور انہیں بتایا کہ یہ ایکٹ صوبے کے تعلیمی نظام کے حوالے سے مسائل پیدا کرے گا۔ اس کی شقوں کو پڑھ کر ان میں ترامیم کی جائیں۔‘ 

انہوں نے کہا کہ ’اس ایکٹ میں پرو وائس چانسلر کی تقرری کا اختیار بھی وزیر اعلی کو دیا گیا ہے، جو نامناسب ہے اور اس میں جو بھی وائس چانسلر ہوگا وہ اپنے بندے کو رکھے گا، جس سے مسائل پیدا ہوں گے۔‘ 

فرید اچکزئی نے کہا کہ اس ایکٹ کی مںظوری کے بعد فیسوں میں اضافے اور دیگر انتظامی مماملات کے ساتھ تعلیمی نظام میں مسائل پیدا ہوں گے جن کا ہمارا پسماندہ صوبہ کسی طرح متحمل نہیں ہوسکتا۔ 

’ہم اس بات کے مخالف نہیں کہ 18ویں ترمیم کے ذریعے جو اختیارات ہمیں مل رہے ہیں، ان سے فائدہ نہ اٹھایا جائے۔ لیکن ہم کہتے ہیں جو بھی فیصلے ہوں ان میں تمام متعلقہ حکام کی مشاورت اور مرضی بھی شامل ہو۔‘ 

دوسری جانب تجزیہ کار عدنان عامر اس قانون کو ایک مثبت اور جمہوری عمل میں اختیارات کی منتقلی کی طرف ایک قدم سمجھتے ہیں۔ 

عدنان عامر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بلوچستان میں پبلک سیکٹر کی نو یونیورسٹیز ہیں جن میں ہر ایک کا اپنا قانون بنا ہوا تھا۔ اب یہ تمام ایک ماڈل ایکٹ کے ماتحت ہوں گے، جن پر یکساں قانون لاگو ہوگا۔ 

انہوں نے کہا کہ اس ایکٹ کی منظوری سے قبل بلوچستان میں وائس چانسلر کی تعیناتی کا اختیار گورنر کے پاس تھا، جو صوبے میں وفاق کا نمائندہ ہے اور جو یہاں کے عوام کو جدابدہ بھی نہیں ہے، اپنے فیصلے مسلط کرتا تھا۔ یہ ایک غیر جمہوری عمل تھا۔ 

’اب طریقہ کار یہ بنایا گیا ہے کہ ایک سرچ کمیٹی صوبائی حکومت بنائے گی، جو وائس چانسلر کی تعیناتی کے لیے درخواستیں وصول کرے گی، جن کی جانچ پڑتال کے بعد وہ تین نام تجویز کرے گی، جن میں سے ایک کا انتخاب کرکے گورنر کو بجھوایا جائے گا جو اس کا نوٹیفکیشن جاری کریں گے۔‘ 

انہوں نے کہا کہ ’ہم کہہ سکتے ہیں کہ اب یونیورسٹیوں پر وفاق کا اختیار ختم ہو گیا ہے اور یہ اب صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے ممبران بھی چونکہ عوام کے نمائندے ہیں جو جوابدہ بھی ہیں۔‘ 

’18ویں ترمیم میں بھی صوبوں کو کہا گیا کہ وہ ہائر ایجوکیشن کے حوالے سے اپنے لیے قانون سازی کرکے اختیارات منتقل کریں۔‘ 

انہوں نے کہا کہ باقی صوبے پہلے اس پر عمل کر چکےہیں۔ ’ہم تاخیر سے سہی لیکن قانون سازی کر لی ہے، جو میں سمجھتا ہوں کہ ایک بہتر عمل ہے۔ اس کو بہت پہلے ہونا چاہیے تھا۔‘ 

بلوچستان اسمبلی میں اس ایکٹ کے مخالف اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما ممبر اسمبلی نصراللہ زیرے کہتے ہیں کہ اس قانون میں نقائص ہیں، جس کے ’منفی اثرات ہمیں بھگتنا پڑیں‘ گے۔ 

نصراللہ زیرے نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں ماڈل یونیورسٹی ایکٹ کے ذریعے کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی گئی جس کی ہم نے مخالفت کی اور وہ کامیاب نہ ہوسکی۔ 

’اس کے بعد جب گذشتہ دور حکومت میں ہماری حکومت تھی اور نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور مسلم لیگ ن اس میں شامل تھے۔ ایک ایسی ہی کوشش کی گئی، لیکن یہ بل ہماری وجہ سے پاس نہ ہوسکا۔‘ 

نصراللہ کہتے ہیں کہ ’ہماری گزارش یہ تھی کہ ہر یونیورسٹی کے پاس اپنا قانون موجود ہے، جن کی موجودگی میں نیا قانون لانےکی ضرورت نہیں ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ایکٹ کے ذریعے یونیورسٹی کے اداروں سے جن میں سینڈیکیٹ، سینیٹ اور فنانس کمیٹی شامل ہے۔ اس میں سے اساتذہ، ممبران اسمبلی عدلیہ اور دیگر متعلقہ حکام کی نمائندگی ختم کر دی گئی ہے۔‘

’اب تمام اختیارات وائس چانسلر کے پاس ہوں گے، وہ جو بھی فیصلہ کرے، اب یونیورسٹی تعلیم دینے کے بجائے چند ایک لوگوں کی مرضی اور منشا سے چلیں گے۔‘

نصراللہ کہتے ہیں کہ اس میں گورنر سے وائس چانسلر کی تقرری کا اختیار لینے کا فیصلہ بہتر ہے۔ تاہم اس میں بہت ساری خامیاں ہیں، جن کے نتائج مستقبل میں عوام، اساتذہ اور طلبہ کو بھگتنا ہوں گے۔‘

 انہوں نے کہا کہ یہ ایکٹ زبردستی منظور کروایا گیا ہے۔ میں نے اسمبلی اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ قدوس بزنجو کو کہا کہ آپ نے جو ایکٹ منظور کرکے صوبے کےعوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے وہ تاریخ میں رقم ہوگا۔‘ 

بلوچستان اسمبلی میں کیا ہوا؟

بلوچستان اسمبلی میں جب اس بل کو پیش کیا گیا تو اپوزیشن کے بعض رہنماؤں نے اس پر اعتراضات کیے اور اس کو منظوری سے قبل قائمہ کمیٹی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔

اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ بل پر ’ہمارے تحفظات ہیں، ایکٹ میں تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔‘

انہو ںے کہا کہ مسودہ قانون کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کے حوالے کیا جائے کیونکہ آئین کے تحت طریقہ کار بھی یہی ہے کہ جو ایکٹ ایوان میں آتا ہے اس کو متعلقہ سٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد کیا جاتا ہے۔ براہ راست منظور کرنا ایوان اور کمیٹیوں کی توہین ہے۔ 

صوبائی وزیر اسد بلوچ نے بل کے حوالے سے کہا کہ ملک کے تینوں صوبے 18ویں ترمیم کے بعد اس ضمن میں قانون سازی کر چکے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی بھی اس مسودہ قانون کو منظور کر لے اگر اس میں کوئی کمی یا خامی ہے تو بعد میں بھی اس میں ترامیم کے ذریعے بہتری لائی جاسکتی ہے۔ 

پشتونخوا میپ کے رکن نصراللہ زیرے نے بھی ایکٹ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایکٹ میں منتخب عوامی نمائندوں، اکیڈمک سٹاف اور طلبا سمیت دیگر سٹیک ہولڈز کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ بلوچستان میں تمام یونیورسٹیوں کے اپنے اپنے ایکٹ موجود ہیں، ایسے میں نیا تجربہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ 

پارلیمانی سیکرٹری مٹھا خان کاکڑ نے کہا کہ ’بدنیتی کی بنیاد پر قانون سازی نہ کی جائے چونکہ گورنر پشتون ہیں اور گورنر کے پاس کوئی دوسرے اختیارات بھی نہیں۔ یہ ایک اختیار بھی ان سے لیا جا رہا ہے جو درست اقدام نہیں۔‘

اس پر صوبائی وزیر سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک میں سب سے اہم دستاویز 1973 کا آئین ہے، مگر اس میں بھی کئی ایک ترامیم ہو چکی ہیں۔ 18ویں ترمیم کے تحت اب صوبے کو کچھ اختیارات مل رہے ہیں تو لیے جائیں۔ ‘

انہوں نے ڈپٹی سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جہاں دو رائے آجائیں وہاں ووٹنگ کرائی جاتی ہے۔ ’میری تجویز ہے کہ اس پر ووٹنگ کرائی جائے، ہم کسی کی دل آزاری نہیں کر رہے۔ جہاں تک بات گورنر کے پشتون ہونے کی ہے۔ تو آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ گورنر ہمیشہ پشتون اور وزیراعلیٰ بلوچ ہی ہوگا۔‘ 

اس دوران وزیراعلیٰ میرعبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ ایوان مسودہ قانون کی منظوری دے۔ اس میں ترامیم کسی بھی وقت کر سکتے ہیں۔ ’اگر کہیں کوئی کمی یا خامی ہوئی تو ایوان اور کابینہ میں بیٹھ کر اس کو ٹھیک کرسکتے ہیں۔‘ 

’ہم ایک اچھا کام کرنے جا رہے ہیں، اپوزیشن لیڈر سمیت تمام ارکان مسودہ قانون کو منظور کریں بعد میں بھی اگر کہیں ضرورت ہوئی تو ترمیم کرلیں گے۔‘ 

پارلیمانی سیکرٹری بشریٰ رند نے قانون کے حوالے سے کہا کہ مسودہ قانون پر تعصب کی بنیاد پر مخالفت کی جا رہی ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی میں بلوچ قوم کو نظرانداز کیا گیا ہے اور یہاں بھی تعصب پر مبنی بات ہو رہی ہے۔ 

 ارکان کی طویل بحث کے بعد رائے شماری کے بعد ڈپٹی سپیکر نے ایوان کی رائے سے مسودہ قانون کو بلوچستان اسمبلی کے قوائد انضباط کار مجریہ 1974 ءکے قائد نمبر 84 اور 85 (2) کے تقاضوں سے مستثنیٰ قرار دینے کی رولنگ دی۔ 

 جس پر وزیر تعلیم میر نصیب اللہ مری نے بلوچستان یونیورسٹیز کا مسودہ قانون ایوان میں پیش کیا جس کی ایوان نے منظوری دے دی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس